/ تاریخِ اسلام / حیاتِ محمد

حبشہ کے بادشاہ ابرہہ کا خانہ کعبہ پر ہاتھوں سے حملے کا واقعہ۔

 ابرہہ ایک مشہور تاریخی کردار ہے، جس کا ذکر اسلامی تاریخ اور عربی روایات میں موجود ہے۔ ابرہہ حبشی النسل تھا اور وہ یمن کے علاقے کا حکمران تھا۔ وہ حبشی بادشاہ نجاشی کے نائب کے طور پر یمن آیا تھا اور بعد میں خود یمن کا حکمران بن گیا۔

 

حیرہ اور یمن میں خانہ خدا کی نقل:۔

مکہ مکرمہ کی اس قدر تکریم اور دور دور سے حاجیوں اور زائرین کی وہاں آمد سے ارد گرد کے بہت سے رئیس اور سردار حسد میں مبتلا ہو گئے تھے اور انہوں نے لوگوں کا رخ خانہ کعبہ کی جانب سے اپنی جانب موڑنے کے لئے کعبہ سے بھی زیادہ خوبصورت عمارات تعمیر کرنے کا ارادہ کر لیا ۔ شمالی عرب میں قبیلہ غسان نے"حیرہ" کے مقام پر ایک عمارت تعمیر کر کے اسے کعبہ کا نام دے دیا،اور جنوب کی جانب یمن میں ابرہہ نے ایک عظیم الشان ہیکل (معبد) تیار کرایا اوراسے سونے، چاندی اور جواہرات سے مرقع کرایا۔ مگر زائرین کیلئے ان عمارات میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور ان کے دلوں میں تو صرف ایک ہی خانہ خدا کا تصور تھا جو مکہ میں تھا۔ یہاں تک کہ یمن اور حیرہ کے رہنے والوں کو بھی ان میں کوئی خاص کشش محسوس نہ ہوئی اور وہ بھی میں حج کے دنوں میں مکہ کی جانب کھنچے چلے آتے تھے۔

 

عام الفیل (570م)کا واقعہ:۔

جب ابرہہ نے دیکھا کہ لوگ آج بھی اس کے مرقع قبلہ کی بجائے اُسی مٹی کے حرم کی جانب جارہے ہیں تو اس کے دل میں حسد کے شعلے بڑھکنے لگے اور اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ جب تک مکہ کے کعبہ کو گر انہیں دے گا لوگ اس کے قبلے کی جانب رخ نہیں کریں گے۔اس پر اس نے خانہ کعبہ کا نام و نشان مٹا دینے کی ٹھان لی اور 570ء میں ہاتھیوں کا ایک بڑا لشکر لے کر مکہ کی جانب بڑھا۔ وہ خود بھی نہایت کروفر سے ایک ہاتھی پر سوار اپنے لشکر کی قیادت کر رہا تھا جب اہلِ ملکہ کو اس کی اطلاع ملی کہ ابر بہ حبشی خانہ خدا کو مسمار کر دینے کا نا پاک عزم لئے چلا آ رہا ہے تو وہ حیران رہ گئے۔

ابر ہ کے لشکر کوروکنے کی خاطر صرف دو جنگجو " ذونفریمنی اور نفیل بن حبیب شعمی "مختصر دستوں کے ساتھ آگے بڑھے۔ نفیل کے دستے میں اس کے قبیلہ کی شاخوں "شہران اور نابس“ کے جوان تھے ۔ ذونفر ینی اور نفیل کو ابر ہہ نے راستے میں ہی گرفتار کرلیا اور نفیل نے ابرہہ کی اطاعت بھی منظور کر لی۔

جب ابر ہہ اپنے لشکر کے ساتھ طائف پہنچا تو اہل طائف کو خطرہ پیدا ہو گیا کہ کہیں اب یہ ان کے خدا "لات" کو ہی نہ تباہ کردے، انہوں نے اُسے کبعہ کا راستہ دکھادیا اوراس کی رہبری کے لئے اپنا ایک آدمی اس کے ساتھرروانہ کیا، تا کہ وہ جلد از جلد ان کے علاقے سے نکل جائے۔اس وقت مکہ میں کوئی با قاعدہ فوج نہیں تھی اور کوئی ایسی حربی قوت بھی نہیں تھی جو مکہ کا دفاع کر سکتی۔ ابرہہ نے وادی مکہ میں پڑاؤ ڈالا اور اس کے دستوں نے ارد گرد کے علاقوں میں لوٹ مار کا بازار گر گرم کر دیا۔ اس دوران انہوں نے حضرت عبدالمطلب کے بھی سواونٹ پکڑ لئے۔

اس کے بعد ابرہہ نے اپنے ایک لشکری "حناطہ حیری" کو عبدالمطلب کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ ہم صرف کعبہ ہی کو پامال کرنے آئے ہیں۔ اگر اہل مکہ ہمارے راستے میں حائل نہ ہوں تو ان کے جان و مال سے ہمارا کوئی واسطہ نہ ہوگا۔ یہ سن کر عبد المطلب اور اہل مکہ کے دل ڈوب گئے ۔ عبد المطلب اپنے بیٹوں اور دوسرے سرداروں کو لے کر سفیر کے ہمراہ ابرہہ کے پاس گئے۔ ابرہہ نے وفد کی بہت عزت و تکریم کی اور عبد المطلب کے تمام اونٹ واپس کر دیئے۔ عبدالمطلب نے ابرہہ سے کہا کہ وہ اہل مکہ کے مال سے ایک تاوان لے لے اور کعبہ کی پامالی کا خیال ذہن سے نکال دے لیکن ابرہہ نے یہ تجویز ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ عبد المطلب نے تمام اہل مکہ سے کہا کہ وہ سب لوگ ارد گرد کی پہاڑیوں میں چلے جائیں۔ تا کہ وہ دشمن سے محفوظ رہ سکیں وہ رات سیاہ تھی ۔ عبد المطلب اپنے چند ساتھیوں کو لے کر کعبہ ہی حاضر ہوئے اور اس کی چوکھٹ پر دونوں ہاتھ رکھ کر دعا ئیں مانگیں کہ:۔

"ہمیں ابرہہ کے ظلم و ستم سے نجات دلانا صرف تمہارے اختیار میں ہے“

اس کے بعد یہ  لوگ بھی مکہ سے نکل کر پہاڑیوں کے دامن میں چلے گئے ۔

 

ابرہہ کا عبرت ناک انجام:۔

اہل مکہ شب کی تاریکی میں اپنے گھروں سے نکل کر مکہ کے آس پاس کی پہاڑیوں میں پناہ گزیں ہو چکے تھے اور اب کعبہ کو ابرہہ کی دست برد سے بچانے کے لئے ظاہری طور پر کوئی رکاوٹ حائل نہیں تھی۔ مگر ابر بہ اس بات سے بے خبر تھا کہ کعبہ کا والی (اللہ تعالیٰ) اپنے گھر کی حفاظت کے لئے موجود ہے۔ابھی ابرہہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کا آغاز بھی نہ کر سکا تھا کہ اس کا لشکر چیچک کا شکار ہو گیا۔ چیچک نے ابرہہ کے ارادوں پر پانی پھیر دیا اور اس کے سپاہی موت کا لقمہ بننے لگے۔ ابرہہ کا جسم بھی چیچک کے آبلوں سے بھر گیا اس نے سوچا کہ شاید یہ وبا بحیرہ روم کی مسموم ہواؤں کے ساتھآئی ہے۔ اُن لوگوں کو اس سے قبل اس طرح کے مرض سے کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا۔ اس نے فی الفور اپنے لشکر کو واپس لے جانے کا فیصلہ کیا۔ مگر اللہ تعالٰی اس کی جسارت پر اسے اس قدر جلدی معاف فرمانے والا نہیں تھا۔ جب ابر ہ کا لشکر واپس جانے لگا تو اس کے سپاہی راستے میں ایک ایک کر کے گرنے اور موت کی وادی میں اترنے لگے۔ رہی سہی کسر ننھی ابابیلوں کے لشکر نے نکال دی اور وہ اپنی چونچوں میں اٹھائے ہوئے ننھے ننھے کنکر اس کے لشکر یہ گرانے لگیں۔ یہ کنکر اس کے سپاہیوں کو توپ کے گولے کی طرح لگتے اور وہ کھائے ہوئے بھس کی طرح ڈھیر ہو جاتے ۔ صنعا پہنچنے تک اس کی فوج کا ایک بڑا حصہ موت کے گھاٹ اتر چکا تھا۔ ابرہہ کا جسم بھی چیچک کے آبلوں سے اس قدر بھر چکا تھا کہ وہ بھی جلد ہی اپنے سپاہیوں کے پاس موت کی وادی میں پہنچ گیا۔

بعض روایات کے مطابق ان کے جسموں پر یہ آبلے یا چیچک کی بیماری ان کنکریوں سے ہوئی تھی جو ننھی ابابیلوں نے اس پر گرائی تھیں ۔ اہل مکہ اس واقعہ کو "عام الفیل" اور ابرہہ کے لشکر کو "اصحاب الفیل" کے لشکر کے نام سے یاد کرتے تھے۔ قرآن پاک کی سورہ فیل میں اس کا پورا نقشہ کھینچا گیا ہے:

 

"أَلَمْ تَرَكَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحِبِ الْفِيلِ أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ تَرْمِيهِمْ بِحِجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيلٍ فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّا كُولٍ "

ترجمہ:

"کیا آپ نے نہیں دیکھا آپ کے رب نے کیا سلوک کیا ہاتھی والوں سے؟ کیا ان کا داؤ نہیں کر دیا گمراہی میں ( بے کار ) اور ان پر جھنڈ کے جھنڈ پرندے بھیجے وہ ان پر کنکریاں پھینکتے تھے پتھر کی ۔ پس ان کو کھائے ہوئے بھوسے کی مانند کر دیا ۔( پاره ۳۰ سورة الفيل )

ابرہہ کے بعد اہل مکہ کی عیش پرستی:۔

ابرہہ کے لشکر کی ناکامی، انجام اور غیبی مدد نے مکہ اور خانہ کعبہ کی عظمت میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا اور مکہ میں تجارت کو مزید فروغ حاصل ہوا۔ دولت کی ریل پیل ہو گئی اور دولت نے اہل مکہ کی انگلی تھام کے ان کو عیش وعشرت کی راہ دکھا دی ۔ مکہ والے حسن و شباب اور شراب کی رنگینیوں میں کھو گئے اور انہیں اپنی اس روش کی بناء پر کسی خطرے یا انجام کی بھی پرواہ نہ رہی اور وہ بے راہ روی کا شکار ہوتے چلے گئے ۔ مکہ کے بازاروں میں حسین و جمیل کنیزوں کی خرید وفروخت پورے عروج پر تھی اور انہیں عیاشی کے تمام ذرائع حاصل تھے۔

اہل مکہ کی اخلاقی پستی اس حد تک جا پہنچی کہ وہ کعبہ کے سامنے ہی شراب و شباب اور موسیقی کی محفلیں سجاتے اور نشے کے عالم میں وہیں کھلم کھلا کنیزوں کے ساتھ اختلاط میں مصروف ہو جاتے اور بیک وقت مختلف جوڑے ان مذموم حرکات میں مشغول ہوتے ۔ اور اس طرح وہ اس قدر رفتی ذہنیت کے مالک بن گئے کہ ان کا موں سے وہ سمجھنے لگے تھے، کہ ان کے خدا (بت ) لطف اندوز ہوتے ہیں اس لئے وہ اپنے خداؤں کےسامنے ایسے افعال سر انجام دینے میں طمانیت محسوس کرتے اور اپنی برائیوں کے کارناموں کو محفلوں میں بڑھ چڑھ کر بیان کرتے ۔ یہ تماشے ان کے معبود اپنی پتھر کی آنکھوں سے دیکھتے۔ وہ یہ سمجھتے کہ ہمارے معبودوں نے ہماری تفریح کو حوصلہ افز انظروں سے دیکھا ہے اور ہمارے مشاغل ہی ہمارے مددگار ہیں وہ یہ سمجھتے تھے کہ خانہ کعبہ قابل احترام ہے اور شہر مکہ امن و سلامتی کا گہوارا ہے یہاں جو کچھ بھی کیا جائے قابل مواخذہ نہیں ہے۔مکہ میں اہل کتاب کو اپنی حکایات بیان کرنے یا تبلیغی سرگرمیاں سرانجام دینے کی اجازت نہ تھی اس لئے نصرانی یا یہودی مکہ میں اپنا رسوخ قائم نہ کر سکے۔ عرب کے باشندے آزاد فطرت کے پروردہ تھے اور وہ دوسروں کی خود مختاری کو چھیڑتے نہیں تھے اور اپنی خود مختاری پر زو نہیں آنے دیتے تھے۔ انہوں نے بتوں کے سامنے عیش و عشرت کے عوض بتوں کے لئے خاص نذرا نے مقرر کر رکھے تھے۔

اب اہل مکہ اپنے شہر کی سلامتی صرف اس لئے چاہتے تھے کہ کہیں ان کے عیش و عشرت میں خلل نہ آجائے اور اس کی سلامتی کے لئے وہ جان و مال کی بازی لگانے کے لئے بھی تیار تھے۔

 

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

حضورؐ

    "ننھے حضورؐ اور اُن کا بچپن" جب مکہ پر ابرہہ حبشی نے چڑھائ کی،تو اس وقت حضرت عبد المطلب کی عمر تقریباً ستر سال تھی اور انکے صاحبزادے حضرت عبد اللہ کی…

مزید پڑھیں
مسلمانوں کی مقدس ترین جگہ مکہ معظمہ ،میں حجرت ابراہیمؑ کی آؐد کی تاریخ۔

مکہ مکرمہ کا محل وقوع اور اسکی تاریخ۔

مزید پڑھیں
حضرت محمدؐ کی پیدائیش سے لےکر شادی تک کی مکمل تاریخ۔

حضرت عبد اللہ کا عقد:۔ جب مکہ پر ابر ہہ  نے چڑھائی کی تو اس وقت حضرت عبدالمطلب کی عمر تقریباً ستر سال تھی اور ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ کی عمر چوبیس برس تھی ۔ آپ نے اُن کی…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں