صفوی سلطان شاہ اسمٰعیل اور عثمانی سلطان سلیم کے درمیان ہونے والی خونریز جنگ"چالدران"کی مکمل تاریخ۔

چالدران کی جنگ-جب دو عظیم مسلمان سلطنتوں کا ٹکراؤ ہوا
"1514ء کی دھند آلود صبح، میدانِ جنگ میں ہوا میں تلواروں کی جھنکار، گھوڑوں کی ہنہناہٹ، اور سپاہیوں کے جوشیلے نعروں کی گونج تھی۔ ایک طرف سلطنتِ عثمانیہ کے جری اور جنگجو سپاہی، دوسری طرف صفوی سلطنت کے جاں باز فوجی! درمیان میں دو تاریخی شخصیات، دو عظیم سلطان – عثمانی سلطان سلیم اوّل اور صفوی حکمران شاہ اسماعیل اوّل – ایک دوسرے کے آمنے سامنے!"
جنگِ چالدران تاریخِ اسلام اور مشرقِ وسطیٰ کی وہ فیصلہ کن جنگ تھی جس نے عثمانی اور صفوی سلطنتوں کے تعلقات پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ یہ نہ صرف ایک علاقائی جنگ تھی بلکہ سنی-شیعہ تنازعہ، سلطنتوں کی توسیع پسندی، اور طاقت کی کشمکش کا بھی ایک اہم موڑ تھا۔سلطان سلیم اوّل نے سلطنتِ عثمانیہ کو ایک سنی خلافت کے طور پر مستحکم کرنے کا بیڑا اٹھایا جبکہ شاہ اسماعیل نے شیعہ صفوی تحریک کو مضبوط کر کے فارس (ایران) میں اپنا سکہ جمانے کی کوشش کی۔ یہ جنگ محض زمین اور اقتدار کے لیے نہ تھی بلکہ ایک نظریاتی تصادم بھی تھا!
جنگِ چالدران میں عثمانیوں نے بارود اور توپ خانے کا زبردست استعمال کیا، جبکہ صفوی افواج نے اپنی روایتی تیز رفتار گھڑ سوار فوج اور ذاتی بہادری پر انحصار کیا۔ لیکن کیا شاہ اسماعیل کی بہادری، عثمانی توپوں کے آگے ٹھہر سکی؟ کیا یہ جنگ صفوی سلطنت کے زوال کی بنیاد بنی یا سلیم اوّل کے عثمانی اقتدار کے لیے ایک سنگِ میل ثابت ہوئی؟
یہ سب جاننے کے لیے، جنگِ چالدران کی پوری داستان، پس منظر، اس کے نتائج اور اثرات پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے!
سلطان سلیم کی تخت نشینی:۔
سلطان سلیم اب تخت سلطنت کی طرف سے مطمئن ہو گیا، وہ ایشیائے کو چک سے یو رپ کو واپس ہو اور یورپ کی سلطنتوں سے صلح ناموں کی تجدید کر کے اپنی سلطنت کے مغربی حصہ کو ہر طرح کے بیرونی خطرات سے محفوظ کر لیا اور پھر مشرق کی جانب متوجہ ہوا، ایران کے تخت پر اس وقت شاہ اسماعیل صفوی متمکن تھا، جس نے چند سال قبل عراق، عرب ،خراسان اور دیارِبکر کو فتح کرلیاتھا اور اس کا ایک فوجی افسر بغداد میں بھی داخل ہو گیا تھا، 916ھ (1510ء) میں فارستان اور آذربائیجان بھی سلطنت ایران میں شامل کر لیے گئے تھے، جو خلیج فارس سے بحر کا سپین اور فرات سے دریائے آمو تک پھیلی ہوئی تھی ، اس طرح ایران کی سرحد سلطنت عثمانیہ کی سرحد سے مل گئی تھی ، اتفاق یہ کہ دونوں سلطنتوں کے فرماں روا بھی شجاعت، عظمت اور ملک گیری کی ہوس میں ایک دوسرے کے ہم پلہ تھے، ایسی صورت میں دونوں کا تصادم نا گزیر تھا، تصادم کے متعدد اسباب موجود تھے، سب سے بڑا سبب مذہب کا اختلاف تھا، شاہ اسماعیل ایک کٹر شیعہ اور سلیم ایک متشددسنی تھا، سلطنت عثمانیہ کے ایشیائی مقبوضات میں شیعوں کی تعداد بہت زیادہ تھی ، شاہ اسماعیل کےجاسوس اناطولیہ میں شیعیت کی تلقین کرتے پھرتے تھے اور اندر اندر لوگوں کو سلیم کے خلاف ابھارتے رہتے تھے، سلطان سلیم شیعیت کا سخت دشمن تھا اور اسے سلطنت کے لیے ایک بڑا فتنہ خیال کیا کرتا تھا۔
وہ دیکھ چکا تھا کہ اس کی تخت نشینی سے ایک ہی سال قبل اسماعیل کے خاندان میں سے "شاہ قلی" نامی ایک شخص نے کس طرح شیعت کی تبلیغ کر کے اناطولیہ کے باشندوں کو بغاوت پر آمادہ کرنا چاہا تھا اور اس فتنہ کے فرد کرنے میں کس قدر دشواری پیش آئی تھی، چنانچہ جب اسے اس قسم کا خطرہ پھر محسوس ہوا تو اس نے اپنی سلطنت سے شیعیت کا استیصال کر دینا چاہا اور جاسوسوں کے ذریعہ سے سلطنت کے تمام شیعوں کو شمار کرایا، ان کی تعداد ستر ہزار نکلی ، پھر ایک روز دفعتاً ان میں سے چالیس ہزار کوقتل کرا دیا اور باقی تیس ہزار کو جن میں عورتیں اور بچے شامل تھے، قید میں ڈال دیا ، اس واقعہ سے تمام ایران میں ایک آگ سی لگ گئی لیکن سلطان سلیم کی قوت کے مقابلہ میں اس وقت شاہ اسماعیل کو اقدام کی جرات نہ ہوئی ، بہر حال ایران اور دولت عثمانیہ کی جنگ کا یہی ایک سبب نہ تھا، اس قتل عام سے قبل بھی دونوں سلطنتوں کے تعلقات کشیدہ ہو چکے تھے، مثلاً شاہ نے سلطان یزید ثانی کے عہد میں چھوٹی چھوٹی لڑائیاں پیش آچکی تھیں جن میں شاہ اسماعیل نے بعض ترک سرداروں کو جو ایشیائے کوچک کے سرحدی علاقوں کے حاکم تھے، شکست دی تھی ۔علاوہ بریں اس نے دولت عثمانیہ کے مقابلہ میں سلطان مصر سے اتحاد کر لیا تھا، وہ سلطنت عثمانیہ کی رفتار ترقی کو روکنا چاہتا تھا، ان میں سے ہر سبب سلیم جیسے تند مزاج سلطان کو جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے کافی تھا۔ لیکن جس چیز نے اس کو سب سے زیادہ غصہ دلایا وہ یہ تھی کہ شاہ اسماعیل نے مرحوم شہزادہ احمد کے لڑکے شہزادہ مراد کو پناہ دی بلکہ اعلانیہ اسکی حمایت کر رہا تھا،اس نے سلطان سلیم کو تخت سے اتار کر مراد کو اس کی جگہ بٹانے کے لیے وہ اب فوجیں بھی جمع کر رہا تھا سلیم کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو اس نے ایران پر حملہ کا تہیہ کرلیااور شاہ اسماعیل کو میدان جنگ میں مقابلہ کی دعوت دی۔
عثمانی فو جیں ینی شہر کے میدان میں جمع ہوئیں اور سلطان سلیم23 صفر 920ھ بمطابق(20 اپریل 1514ء) کو ایک لاکھ چالیس ہزار فوج اور تین سوتو پوں کے ساتھ ایران کے پایہ تخت "تبریز" کی طرف روانہ ہو گیا، ینی شہر سےتبریز کا فاصلہ ایک ہزار میل سے زیادہ تھا، راستہ بھی پہاڑی تھا اور درمیان میں کوئی سڑک نہ تھی ، سب سے بڑی دشواری سامانِ رسد کی فراہمی کی تھی ، جب سلطان سلیم ایران کی سرحد پر پہنچا تو شاہ اسماعیل نے بجائے مقابلہ کرنے کے تمام علاقے ویران کرا دیے اور خود پایہ تخت کی طرف لوٹ گیا، اس سے سلیم کی مشکلات اور بڑھ گئیں، رسد کے ملنے میں سخت دشواری پیش آنے لگی فوج میں جو اپنے طویل سفر سے بالکل خستہ ہوگئی تھی ، بے دلی کے آثار نمایاں ہونے لگے اور اس نے آگے بڑھنے میں تامل کیا، لیکن سلطان سلیم کی مستقل مزاجی بدستور قائم رہی اور باوجود اس کے کہ رسد کی فراہمی روز بروز زیادہ دشوار ہوتی جاتی تھی ، اس کے قدم نہ رکے، بالآ خر فوج نے اعلانیہ طور پر آگے بڑھنے سے انکار کر دیا سلیم کے لیے یہ موقع نہایت نازک تھا، مگر اس کی غیر معمولی شجاعت نے فوج کو قابو سے باہر نہ ہونے دیا، وہ دلیری کے ساتھ ان کے سامنے گیا اور یوں کہنے لگا:
"کیا اسی طرح تم اپنے سلطان کی خدمت کرتے ہو؟ کیا تمہارا اوعدہ و فا محض زبانی تھا؟ جو لوگ واپس جانا چاہتے ہیں وہ فوج سے علیحدہ ہو جائیں اور چلے جائیں لیکن میں نے تو اتنی دور کا سفر اس لیے نہیں کیا ہے کہ یہاں سے لوٹ جاؤں تم میں سے جو بزدل ہیں وہ فوراً ان بہادروں سے علیحدہ ہو جائیں، جنہوں نے تیغ زنی اور جسم وروح کے ساتھ ہماری مہم کے لیے اپنی جانیں وقف کر دی ہیں ۔“
یہ کہہ کر اس نے دستہ قائم کر کے فوج کو آگے بڑھنے کا حکم دیا اور کسی ایک سپاہی کو بھی جرات نہ ہوئی کہ اپنا دستہ چھوڑ کر علیحدہ ہو جائے۔
چالدران کی جنگ:۔
عثمانی فوج جب تبریز کے قریب پہنچی تو شاہ اسماعیل کو مجبوراً مقابلہ کے لیے نکلنا پڑا، دونوں فوجیں 2 رجب 920ھ بمطابق (24 اگست 1514ء) کو وادی چالدیران میں صف آرا ہوئیں، ترکی لشکر کی تعداد جس نے بارہ سو میل کی سخت دشوار گزار راہ صرف ایک سو چھبیس روز کی قلیل مدت میں طے کی تھی ، اب ایک لاکھ چالیس ہزار سے گھٹ کر ایک لاکھ بیس ہزار رہ گئی تھی ، جس میں اسی ہزار سوار تھے، ایرانی فوج کی مجموعی تعداد اسی ہزار تھی ، یہ سب سوار تھے اور اپنی شجاعت اور سپہ گری کے لحاظ سے نہایت ممتاز تھے ،، بر خلاف اس کے ایرانی سوار تازہ دم تھے، جنگ کی ابتدا ایرانیوں کے موافق ہوئی ، ایرانی سواروں کا جو دستہ شاہ اسماعیل کی سرکردگی میں تھا، اس نے اپنے مقابل تر کی دستہ کو پسپا کر دیا لیکن ترک فوراً ہی سنبھل گئے اور انہوں نے پلٹ کر نہایت دلیری سے مقابلہ کیا، اس درمیان میں عثمانی توپوں نے گولے برسانا شروع کر دیے، ایرانیوں کے پاس توپ خانے نہ تھے، وہ اس حملہ کی تاب نہ لا سکے اور پچیس ہزار لاشیں میدانِ جنگ میں چھوڑ کر بھاگے، شاہ اسماعیل بھی زخمی ہو گیا تھا اور بمشکل اپنی جان بچا کر بھاگ سکا۔14 رجب المرجب 920ھ (4) ستمبر 1514ء) کو سلطان سلیم تبریز میں فاتحانہ داخل ہوا ، وہاں سے اس نے علاوہ شاہی خزانےکے ایک ہزار بہترین صناع اور کاریگر قسطنطنیہ روانہ کیے، قسطنطنیہ میں ان لوگوں کو رہنے کے لیے مکانات اور اپنے پیشوں کے جاری رکھنے کے لیے تمام ضروری سامان دیے گئے، تبریز میں آٹھ روز قیام کے بعد وہ شمال میں قرہ باغ کی طرف بڑھا، اس کا ارادہ تھا کہ موسم سرما آذربائیجان کے میدانوں میں گزارنے کے بعد بہار شروع ہونے پر پھر فتوحات کا سلسلہ شروع کرے۔ لیکن فوج اب بالکل خستہ ہو چکی تھی اور آگے بڑھنے کے لیے تیار نہ تھی سلیم کو اندیشہ ہوا کہ سختی کرنے سے ممکن ہے بغاوت برپا ہو جائے ، اس لیے مجبوراً وہ قسطنطنیہ کی طرف واپس ہوا ، شاہ اسماعیل سے کوئی صلح نامہ نہ ہوا اور دونوں سلطنتوں کی جنگ کا سلسلہ کسی نہ کسی حد تک سلیم کی حیات تک قائم رہا لیکن چالدیران کی جنگ کا نتیجہ یہ ہوا کہ دیار بکر اور کردستان کے صوبے مکمل طور پر فتح کر لیے گئے اور ایران سے نکل کر سلطنت عثمانیہ میں شامل ہو گئے سلیم نے ان صوبوں کا حاکم مشہور مؤرخ "ادریس" کو مقرر کیا۔ سلطان سلیم کے لیے پورے ایران کو عثمانی مقبوضات میں داخل کر لینا دُشوار نہ تھا لیکن کسی مصلحت سے اس نے ایسا کرنا مناسب نہ خیال کیا، جیسا کہ ایور سلے کا خیال ہے ، شیعیت سے اسے اس درجہ نفرت تھی کہ ممکن ہے اس نے ایران کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے کے بجائے علیحدہ رکھنا ہی بہتر سمجھا ہو، اسی تشدد کے تحت اس نے ایک فرمان نافذ کر کے ایران سے تجارت کرنا ممنوع قرار دیا اور جب اسے معلوم ہوا کہ چند تاجروں نے اس فرمان کی حکم عدولی کی ہے تو اس نے ان سب کے قتل کا حکم دےدیا،مفتی جمالی نے بمشکل اس سے یہ حکم منسوخ کرایا۔
تبصرہ کریں