/ تاریخِ اسلام / خلافتِ عثمانیہ

جنگِ کسووا یورپ میں ترکوں کی عیسائیوں کے ساتھ ہونے والی پہلی بڑی جنگ کی تاریخ۔

کوسوو کی جنگ: بلقان کی تاریخ کا ایک اہم موڑ:۔

بلقان کے سرسبز پہاڑوں اور دشوار گزار وادیوں کے درمیان ایک ایسی جنگ لڑی گئی جو تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ زندہ رہے گی—کوسوو کی جنگ۔ یہ 1389 کا گرم ترین موسم تھا، جب عثمانی سلطنت کی بڑھتی ہوئی طاقت اور سربیا کی قیادت میں عیسائی افواج کے درمیان ایک ایسا معرکہ برپا ہوا جس نے نہ صرف قوموں کی تقدیر کا فیصلہ کیا بلکہ پورے خطے کی تاریخ کا رخ بدل دیا۔ یہ جنگ صرف تلواروں اور نیزوں کا ٹکراؤ نہیں تھی، بلکہ عزت، ایمان، اور بقا کی جنگ تھی، جس کی گونج آج بھی بلقان کے لوگوں کے دلوں میں محسوس کی جاتی ہے۔

 

مسیحی حکومتوں کا اتحاد:۔

یورپ میں اس وقت 790ھ (1388ء) تک تقریباً تمام قدیم تھر یس  اور جدید رومیلیا سلطنت عثمانیہ میں شامل ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ بعض دوسری اہم فتوحات بھی حاصل ہو چکی تھیں، ان علاقوں میں ترک اور عرب نو آبادیاں قائم کر دی گئی تھیں اور وہاں کے اکثر باشندے دوسرے مقامات کو منتقل کر دیے گئے تھے، ان نو آبادیوں نے عیسائیوں میں ایک عام بے چینی پیدا کر دی، ینی چری کے لیے ہر سال ایک ہزار عیسائی لڑکوں کے مطالبہ سے اس بے چینی میں برہمی بھی شامل ہوگئی ، ترکوں کے خلاف غصہ کا جذبہ پورے جوش کے ساتھ موجود تھا ، اسے مشتعل کرنے کے لیے جس چنگاری کی ضرورت تھی وہ بھی جنگ قونیہ کے بعد ہاتھ آگئی ، اس جنگ میں عثمانی فوج کے ساتھ سرویا کے دو ہزار سپاہی بھی شریک تھے، جو سابق معاہدہ کی رو سے طلب کیے گئے تھے، کوچ سے پہلے ہی مراد نے فوج میں اعلان کرادیا تھا کہ کر مانیہ کی سرحد میں داخل ہونے کے بعد بھی ریاست کے عام باشندوں کی جان و مال کو ہرگز کسی قسم کا نقصان نہ پہنچایا جائے اور جو شخص اس حکم کی خلاف ورزی کرے گا اسے سخت سزادی جائے گی۔ لیکن سروی سپاہیوں نے جو یورپ کے دستور کے مطابق دشمن کے ملک میں پہنچ کر ہر قسم کی غارت گری کو بالکل جائز خیال کرتے تھے، انہوں نےاس حکم کی تعمیل سے انکار کر دیا اور راستہ میں نہایت وحشیانہ طریقہ پر لوٹ مار شروع کر دی۔ سلطان مراد نے ان میں سے بہتوں کو سخت سزائیں دیں اور بعضوں کو قتل بھی کرادیا ، سلطان  کا یہ فعل فوجی قانون کی رو سے بالکل جائز تھا لیکن اہل سرویا کے لیے یہ سخت اشتعال کا باعث ہوا اور شاہ سرویا نے جس کی سلطنت اسٹیفن ڈوشن کے عہد میں بلغراد سے دریائے یار غزا تک اور بحر اسود سے بحر ایڈریاٹک تک پھیلی ہوئی تھی، عیسائی حکومتوں کا ایک عظیم الشان اتحاد قائم کر کے ترکوں کے استیصال کا بیڑا اٹھایا ، اس اتحاد میں سرویا، بوسنیا اور بلغاریا کی حکومتیں شامل ہوئیں، البانیا، والا چیا اور ہنگری نے پوری قوت کے ساتھ شرکت کی ، پولینڈ نے بھی اپنی فوج بھیجی ، سلانی قوموں کا اتنا زبر دست اتحاد اس سے پہلے کبھی قائم نہیں ہوا تھا، سرویا نے مغربی یورپ کی حکومتوں کو بھی شرکت کی دعوت دی لیکن وہ مختلف وجوہات کی بنا پرادھر متوجہ نہ ہو سکیں، محاربات صلیبی کا قدیم جوش فرو ہو چکا تھا اور ہنوز ارض مقدس کو ترکوں سے آزاد کرانے کا سوال پیدا نہ ہوا تھا، علاوہ ازیں چودھویں صدی عیسوی کے آخر میں یورپ کی مغربی سلطنتوں کی اندرونی حالت اور ان کے حکمرانوں کی ذاتی کمزوریاں اس اتحاد کی شرکت سے مانع تھیں لیکن اس وقت تمام یورپ کے متحد نہ ہونے کا سب سے بڑا سبب لاطینی کلیسا کا وہ شدید افتراق تھا جس نے کل مغربی سلطنوں کو دو  جماعتوں میں تقسیم کر دیا تھا، ایک جماعت پاپائے رومہ کے زیر فرمان تھی اور دوسری اس کے حریف پوپ کی حلقہ بگوش تھی، جس نے اونیاں (واقع فرانس ) کو اپنے جدید کلیسا کا مرکز قرار دیا تھا۔

 

جنگ کسووا:۔

بہر حال سرویا نے مشرقی حکومتوں کے اتحاد سے جو قوت فراہم کر لی تھی ، وہ بہ ظاہر ترکوں کو یورپ سے نکال دینے کے لیے کافی تھی،سلطان  مراد نے اس اتحاد کی خبر بروصہ میں سنی اور گو اس کی عمر ستر سال کی ہو چکی تھی ، تاہم عیسائیوں کے مقابلہ کے لیے فوراً روانہ ہو گیے، اتحادیوں نے سلطان  مراد کے پہنچنے سے پہلے ہی بوسنیا میں عثمانی فوج پر حملہ کر دیا اور من جملہ 20 ہزار ترک سپاہیوں سے  پندرہ ہزار کو تہ تیغ کر ڈالا ، اس کے بعد فوراً علی پاشا سلطان  مراد کے حکم کے مطابق دره در بند کی راہ سے کوہ بلقان کو عبور کر کے بلغاریا میں داخل ہوا اور شوملہ اور ترانو پر قبضہ کر کے دریائے ڈینوب کی طرف بڑھا ، سیمان شاہ نے بلغاریا سے بھاگ کر نا ئیکو پولس میں پناہ لی، لیکن بہت جلد اسےسلطان  مراد سے معافی مانگ کر صلح کر لینی پڑی ، شرائط صلح یہ تھیں کہ سلسٹریا کا علاقہ سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لیا جائے گا اور بلغار یا سالانہ خراج ادا کرتا رہے گا ، سیمان کی علیحدگی کے باوجود شاہ سرویا نے استقلال کے ساتھ جنگ جاری رکھی اور سیسمان بھی چند ہی دنوں میں معاہدہ کو توڑ کر پھر سر ویا سے مل گیا ، اس نے سلسٹریا سے دست بردار ہونے سے انکار کر دیا اور ایک فوج سرویا کی مدد کے لیے روانہ کی، مراد نے علی پاشا کو اس کے مقابلہ میں بھیجا۔ سیسمان پھر نائیکو پولیس میں پناہ گزیں ہوا اور یہ اہم قلعہ دوبارہ فتح ہوا، مراد نے اس مرتبہ بھی سیمان کی جان بخشی کی لیکن اس کی بار بار کی غداری کی سزا میں بلغاریا کا جنوبی حصہ سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لیا ، لازار شاہ سر ویا اپنے دوسرے حلیفوں کے ساتھ برابر ترکوں کا مقابلہ کرتا رہا۔ بالآخر اس نے تمام اتحادی افواج کو جمع کر کے ایک فیصلہ کن معرکہ کا تہیہ کیا اور اپنے لشکر کی کثرت و قوت پر اعتماد کر کے مراد کے پاس آخری جنگ کا پیغام بھیجا۔ چنانچہ 15 جون 1389 (791ھ) کو کسووا کے میدان میں وہ آخری مقابلہ پیش آیا جس نے اتحادیوں کا شیرازہ پراگندہ کر کے سرویا کی قسمت کا فیصلہ کر دیا.کوسوو کی جنگ 1389 میں عثمانی اور سربیائی افواج کے درمیان ایک خونریز معرکہ تھا، جس کا آغاز عثمانی افواج کے پہلے حملے سے ہوا، جہاں سلطان مراد اول کی قیادت میں فوج نے سربیائی صفوں پر بھرپور وار کیا۔ اس حملے کا جواب سربیائی شہزادہ لازار کی فوج نے ایک منظم جوابی حملے کے ساتھ دیا، جس میں ان کی سوار افواج نے عثمانیوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔ عثمانی فوج نے جلد ہی دوسرا حملہ کیا، جس میں تیر اندازوں اور تجربہ کار سپاہیوں نے سربیائی فوج کو کمزور کیا۔ یہ جنگ کئی حملوں اور جوابی حملوں پر مشتمل تھی، لیکن آخر کار عثمانی افواج کی فتح کے ساتھ ختم ہوئی۔ جنگ اختتام کے قریب تھی کہ میلوش کو بیلو ویچ (Miloshe Kobilovich) نامی ایک سروی امیر عثمانی لشکر کی طرف گھوڑا دوڑاتا ہوا آیا اور وہاں لازار شاہ کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے اس نے یہ بیان کیا کہ مجھے کچھ نہایت اہم باتیں سلطان سے کہنی ہیں، چنانچہ وہ مراد کی خدمت میں لایا گیا لیکن قدم بوسی کے وقت اُٹھ کر دفعتاً اس نے مراد پر خنجر سے حملہ کیا اور اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر بھاگ جانے کی کوشش کی ، سپاہیوں نے چشم زدن میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے، مگر مراد کو زخم کاری پہنچ چکا تھا اور وہ محسوس کر رہا تھا کہ تھوڑی دیر کا مہمان اور ہے، اسی حالت میں اس نے آخری حملہ کا حکم دیا ، جس نے  جنگ کا فیصلہ کر یا، وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات پورے کر رہا تھا کہ لازار گرفتار کر کے اس کے سامنے لایا گیا ، اس نے اس کے قتل کا حکم دیا ر کچھ دیر بعد خود بھی جاں بحق ہو گیا۔ میلوش کے واقعہ کے بعد سے یہ قاعدہ ہو گیا کہ جب کوئی اجنبی شخص سلطان کے حضور میں لایا جاتا تو دو آدمی اس کے بازو پکڑے رہتے تا کہ وہ فریب نہ کر سکے، انیسویں صدی سے اس قاعدہ کی پابندی جاتی رہی، تاہم گزشتہ صدی میں بھی غیر ملکوں کے سفیروں کو سلطان کے بہت قریب جانے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔

جنگ کسوا کے بعد پانچ سو برس تک اہل سرویا نے پھر کبھی متحد ہو کر ترکوں سے مقابلہ کرنے کی جرات نہیں کی، بہتیرے بھاگ کر جبل اسود ( مونٹی نیگرو) میں پناہ گزیں ہوئے اور وہاں اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے برابر جنگ کرتے رہے، بہت سے بوسنیا اور ہنگری میں جا کر آباد ہو گئے لیکن بہ حیثیت ایک خود مختار حکومت کے سرویا کا خاتمہ ہو گیا ، اگر چہ اس کے بعد بھی ستر سال تک سرویا کی عنان حکومت ملکی فرماں رواؤں کے ہاتھ میں رہی تاہم اس کی حیثیت محض ایک باج گزار مملکت کی تھی۔

 

سلطان مراد کے کارنامے:۔

مراد کا عہدِ حکومت تاریخ آل عثمان کے اہم ترین عہدوں میں ہے، اس نے 30 سال تک حکومت کی ، ان میں سے چوبیس سال میدان جنگ میں صرف کیے اور ہر جنگ میں کامیاب رہا، مراد سے پہلے ترکوں کا مقابلہ یورپ کی قوموں میں سے صرف بازنطینیوں سے ہوا تھا، جن کی سلطنت اپنے زوال کی آخری منزلیں طے کر رہی تھی لیکن مراد کی ظفر یاب فو جیں ان ملکوں میں بھی پھیل گئیں جو یورپ کی نہایت طاقتور سلانی قوموں کے زیر نہیں تھے اور بلغار یا سر یا ار بوسنیا پر دولت عثمانیہ کا تسلط قائم ہو گیا، مرادی کے عہد میں پہلی بار آل عثمان اور اہل ہنگری کا مقابلہ پیش آیا ، جس میں موخر الذکر کو سخت شکست اٹھانی پڑی، مراد کی فتوحات نے سلطنت عثمانیہ کے دائرہ اقتدار کو دریائے ڈینوں تک پہنچا دیا اور گو بعض ریاستوں مثلاً سر دیا اور بوسنیا سے محض خراج قبول کرنے پر قناعت کی گئی، تاہم تھریس، مقدونیا او جنوبی بلغاریا کی ریاستیں مکمل طور پر سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لی گئیں ۔ 

سلطان مراد کا صحیح مقام کہ وہ خاندان عثمانی کا سب سے زیادہ ممتاز و کامیاب ماہر سیاست اور محارب تھا، کبھی پہچانا نہ جا سکا، جب ہم ان دشواریوں کا جن کا اس نے مقابلہ کیا ، ان مسائل کا جنہیں اس نے حل کیا اور اس کے عہد حکومت کے نتائج کا موازنہ اس کے زیادہ پُر شکوہ جانشینوں کے کارناموں سے کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اگر وہ ان سے بڑھ کر نہیں تو ان کے برابر ضرور ہے، جو تغیر اس نے اپنی مدت حیات کے اندر کر دیا، وہ تاریخ کے نہایت حیرت انگیز واقعات میں سے ہے، اس کی فتوحات کو پانچ صدیوں تک قائم رہنا تھا، 1878ء کے معاہدہ برلن تک ، ان میں سے بعض حال کی جنگ بلقان کے طوفان کے بعد بھی باقی رہ گئی ہیں ۔

سلطان مراد نے مسیحی علاقے فتح کر کے ان میں اسلامی حکومت قائم کی لیکن عیسائیوں کو  جبر اًسلام میں داخل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی ، برخلاف اس کے اس نے انہیں پوری مذہبی آزادی دے رکھی تھی ، جس کی واضح شہادت اس خط میں محفوظ ہے جو 787ھ (1385ء) میں یونانی کلیسا کے بطریق اعظم نے پوپ اربن ششم کو لکھا تھا، بطریق مذکور نے اقرار کیا ہے کہ مراد نے کلیسا کو کامل آزادی بخش دی تھی، یہ اس کا نتیجہ تھا کہ 716ھ (1360ء) اور 791ھ (1389ء) کے درمیان بطریق اعظم کے دفتر میں کوئی ایک شکایت بھی عثمانیوں کے ہاتھوں ارباب کلیسا کی بدسلوکی کی درج نہیں ملتی ۔

 

 

 

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

قسطنطنیہ کی فتح

سلطنت عثمانیہ نے  قسطنطنیہ کو فتح کرنے اور بازنطینی سلطنت کو ختم کرنے کے لیے کی بار اس شہر کا محاصرہ کیا۔ لیکن یہ محاصرے صلیبیوں کے حملے،تخت کے لیے خانہ جنگی،بغاوت اور امیر تیمور کے…

مزید پڑھیں
سلطنت عثمانیہ"600سالہ دور حکومت کی لاذوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ جسے دولتِ عثمانیہ اور خلافتِ عثمانیہ کہا جاتا ہے یہ تقریباً سات سو سال تک  قائم رہنے والی  مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت  تھی۔یہ سلطنت 1299ء سے1922 تک قائم رہنے والی مسلمان سلطنت تھی  جس کے حکمران ترک…

مزید پڑھیں
سلطنتِ عثمانیہ کے عروج و زوال کی لازوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ اسلام کی مضبوط ترین اور  عظیم الشان سلطنت تھی۔ترکوں کی یہ عظیم سلطنت جو 600 سالوں سے زیادہ عرصے پر محیط تھی،اس کی سرحدیں یورپ ایشیا اور افریقہ تک پھیلی ہوی تھیں ،یہ خانہ بدوش ایشیا مائنر سے…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں