/ تاریخِ اسلام / خلافتِ عثمانیہ

جنگِ موہاچ،جس میں فتح کے بعد عثمانیوں نے ہنگری کی500سالہ سلطنت کا خاتمہ کر دیا تھا۔

جنگِ موہاچ: عثمانی اور ہنگری کے درمیان تاریخ ساز معرکہ

جنگِ موہاچ (Battle of Mohács) تاریخ کے ان عظیم معرکوں میں شامل ہے جنہوں نے یورپ اور اسلامی دنیا کی تاریخ کا رخ تبدیل کر دیا تھا۔ یہ جنگ 29 اگست 1526ء کو عثمانی سلطنت اور ہنگری کے درمیان لڑی گئی۔ اس معرکے نے نہ صرف ہنگری کی سیاسی صورتحال کو بدل کر رکھ دیا بلکہ عثمانیوں کو یورپ میں اپنی طاقت مضبوط کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اس آرٹیکل میں ہم اس جنگ کے تمام پہلوؤں کا تفصیل سے جائزہ لیں گے۔

جنگ کی وجہ اور ہینگری کے ساتھ عثمانیوں کا تصادم:۔

موہاچ کی جنگ 29 اگست 1526ء کو ہنگری کے میدانِ موہاچ میں لڑی گئی۔ اس جنگ کا بنیادی مقصد عثمانی سلطنت کی یورپ میں توسیع اور ہنگری کے علاقے پر کنٹرول حاصل کرنا تھا۔ جنگ کے اختتام نے ہنگری کے سیاسی نظام کو ہلا کر رکھ دیا اور عثمانیوں کو ہنگری کے دارالحکومت بڈا (Buda) پر قبضہ کرنے کا موقع ملا۔عثمانی سلطنت اور ہنگری کے درمیان کشیدگی کی کئی وجوہات تھیں۔ سلطان سلیمان قانونی نے یورپ میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے ہنگری کو نشانہ بنایا۔ ہنگری کے بادشاہ لوئس II نے عثمانی سفارتی کوششوں کو نظرانداز کیا اور سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف دیگر یورپی طاقتوں سے اتحاد کیا۔ یہ حالات جنگ کے لیے راہ ہموار کرنے کا سبب بنے۔

سلطان سلیمان کی زندگی پر ایک نظر:۔

سلطان سلیمان قانونی، جن کا پورا نام سلیمان بن سلیم تھا، 6 نومبر 1494ء کو ترابزون، سلطنتِ عثمانیہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سلطان سلیم اول اور والدہ حفصہ سلطان تھیں۔ سلیمان نے ابتدائی تعلیم قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) میں حاصل کی، جہاں انہوں نے علوم، تاریخ، ادب، الہیات، اور فنونِ حرب کی تعلیم حاصل کی۔ سترہ سال کی عمر میں انہیں کفہ (موجودہ تھیوڈوسیا) اور بعد میں مانیسا کا گورنر مقرر کیا گیا۔

 

1520ء میں والد کی وفات کے بعد، سلیمان سلطنتِ عثمانیہ کے دسویں سلطان بنے اور 1566ء میں اپنی وفات تک حکمرانی کی۔ ان کا دورِ حکومت سلطنتِ عثمانیہ کا سنہری دور کہلاتا ہے، جس میں سلطنت نے سیاسی، عسکری، اقتصادی، اور ثقافتی میدانوں میں عروج حاصل کیا۔ سلطان سلیمان قانونی (1520-1566ء) عثمانی سلطنت کے سب سے عظیم حکمرانوں میں سے ایک تھے۔ ان کے دور میں سلطنت نے سیاسی، فوجی اور ثقافتی ترقی کی بلندیوں کو چھوا۔ انہوں نے 1521ء میں بلغراد پر قبضہ کیا اور 1526ء میں ہنگری کو فتح کر کے عثمانی سلطنت کو یورپ میں وسعت دی۔

لوئس دوم کون تھا؟

ہنگری کے بادشاہ لوئس II (1516-1526ء) ایک نوجوان اور ناتجربہ کار حکمران تھے۔ ان کے دورِ حکومت میں ہنگری اندرونی سیاسی مسائل اور بیرونی خطرات کا شکار تھا۔ ان کی قیادت میں ہنگری کی افواج نے عثمانی فوج کا سامنا کیا، مگر جنگ میں ان کی حکمتِ عملی ناکام رہی۔جنگ سے پہلے عثمانی سلطنت نے ہنگری کے ساتھ سفارتی تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی۔ سلطان سلیمان نے ہنگری کے بادشاہ کو کئی سفارتی خطوط بھیجے، مگر ان خطوط کو نظرانداز کیا گیا۔ اس کے برعکس ہنگری نے ہابسبورگ سلطنت سے اتحاد کر لیا، جس نے کشیدگی کو مزید بڑھا دیا۔

فوجی طاقت:۔

عثمانی فوج جدید ہتھیاروں اور توپ خانوں سے لیس تھی۔ عثمانیوں کی فوج میں تقریباً 100,000 سپاہی شامل تھے، جن میں تجربہ کار جنگجو، توپ خانہ، اور گھڑسوار دستے شامل تھے۔ ہنگری کی فوج تقریباً 25,000 سپاہیوں پر مشتمل تھی، مگر ان کے پاس عثمانیوں جیسا تجربہ یا سازوسامان نہیں تھا۔سلطان سلیمان نے 10 مئی 1526ء کو قسطنطنیہ سے موہاچ کی طرف مارچ کا آغاز کیا۔ عثمانی فوج بلغراد کو عبور کرتی ہوئی دریائے ڈینوب تک پہنچی۔ اس دوران سلطان سلیمان نے اپنی فوج کو منظم رکھا اور مقامی علاقوں پر کنٹرول حاصل کیا۔بادشاہ لوئس II نے ہنگری کی فوج کو جنگ کے لیے تیار کیا اور موہاچ کے میدان کی طرف پیش قدمی کی۔ مگر فوجی نظم و ضبط کی کمی اور تجربے کی کمی کی وجہ سے ان کا مارچ غیرمنظم تھا۔

موہاچ کا میدان دریائے ڈینوب کے قریب واقع ہے اور جغرافیائی طور پر جنگ کے لیے ایک اہم مقام تھا۔ میدان کی ہموار سطح نے عثمانی توپ خانے کو بہتر حکمتِ عملی اختیار کرنے کا موقع دیا۔عثمانیوں نے اپنے توپ خانے کو مرکزی مقام پر رکھا اور گھڑسوار دستوں کو اطراف میں تعینات کیا۔ ہنگری کی فوج نے سیدھی جنگ کی حکمتِ عملی اپنائی، جو کہ عثمانیوں کی چالاک حکمتِ عملی کے سامنے ناکام رہی۔

جنگِ موہاچ:۔

29 اگست 1526ء کی صبح، جنگ کا آغاز ہنگری کی فوج کے حملے سے ہوا۔ عثمانیوں نے دفاعی حکمتِ عملی اختیار کرتے ہوئے ہنگری کی فوج کو اپنے جال میں پھنسایا۔عثمانی توپ خانے نے ہنگری کی فوج پر زبردست حملے کیے، جبکہ عثمانی گھڑسوار دستوں نے ہنگری کی فوج کو اطراف سے گھیر لیا۔ ہنگری کی فوج کی صفیں ٹوٹ گئیں اور وہ میدان جنگ میں بے ترتیب ہو گئی۔عثمانیوں نے صرف دو گھنٹوں میں ہنگری کی فوج کو شکست دے دی۔ ہنگری کے سپاہی بڑی تعداد میں مارے گئے یا گرفتار ہوئے۔ یہ عثمانیوں کے لیے ایک شاندار فتح تھی۔جنگ کے بعد عثمانیوں نے ہنگری کے دارالحکومت بڈا پر قبضہ کر لیا۔ یہ فتح عثمانی سلطنت کے یورپ میں توسیع کا نقطہ آغاز ثابت ہوئی۔ ہنگری ایک طویل عرصے تک عثمانیوں کے زیرِ تسلط رہا۔بادشاہ لوئس II جنگ کے دوران دریائے ڈینوب عبور کرنے کی کوشش میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ ان کی موت ہنگری کی شکست کی علامت بن گئی۔

دارلحکومت بوڈا کا محاصرہ:۔

جنگ کے بعد سلطان سلیمان نے اپنی فوج کے ساتھ بڈا کی طرف پیش قدمی کی اور شہر پر قبضہ کر لیا۔ عثمانیوں نے یہاں اپنی حکمرانی قائم کی اور یورپ میں اپنی طاقت کو مضبوط کیا۔جنگِ موہاچ تاریخ کا ایک ایسا معرکہ ہے جس نے عثمانی سلطنت کو یورپ میں ایک ناقابلِ تسخیر طاقت بنا دیا۔ یہ جنگ نہ صرف عثمانی فوج کی مہارت کا مظہر تھی بلکہ ہنگری کی تاریخ کا ایک المناک باب بھی ہے۔ سلطان سلیمان کی قیادت نے اس جنگ کو تاریخ کے عظیم معرکوں میں شامل کر دیا۔

 

 

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

قسطنطنیہ کی فتح

سلطنت عثمانیہ نے  قسطنطنیہ کو فتح کرنے اور بازنطینی سلطنت کو ختم کرنے کے لیے کی بار اس شہر کا محاصرہ کیا۔ لیکن یہ محاصرے صلیبیوں کے حملے،تخت کے لیے خانہ جنگی،بغاوت اور امیر تیمور کے…

مزید پڑھیں
سلطنت عثمانیہ"600سالہ دور حکومت کی لاذوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ جسے دولتِ عثمانیہ اور خلافتِ عثمانیہ کہا جاتا ہے یہ تقریباً سات سو سال تک  قائم رہنے والی  مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت  تھی۔یہ سلطنت 1299ء سے1922 تک قائم رہنے والی مسلمان سلطنت تھی  جس کے حکمران ترک…

مزید پڑھیں
سلطنتِ عثمانیہ کے عروج و زوال کی لازوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ اسلام کی مضبوط ترین اور  عظیم الشان سلطنت تھی۔ترکوں کی یہ عظیم سلطنت جو 600 سالوں سے زیادہ عرصے پر محیط تھی،اس کی سرحدیں یورپ ایشیا اور افریقہ تک پھیلی ہوی تھیں ،یہ خانہ بدوش ایشیا مائنر سے…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں