/ تاریخِ اسلام / اسلامی جنگی

جب ناقابلِ شکست منگولوں کو پہلی بار مسلمانوں کے ہاتھوں

جنگِ پروان: سلطان جلال الدین کی منگولوں پر شاندار فتح کی تاریخ

تاریخِ اسلام میں بے شمار جنگیں ایسی ہیں، جنہوں نے اسلامی دنیا کے مستقبل کا تعین کیا، مگر چند معرکے ایسے ہوتے ہیں جو نہ صرف مسلمانوں کی بہادری اور جرأت کے مظہر ہوتے ہیں بلکہ دشمن کی شان و شوکت کو بھی زمین بوس کر دیتے ہیں۔ ایسی ہی ایک شاندار جنگ "جنگِ پروان" تھی، جس میں خوارزم شاہی سلطنت کے بہادر حکمران، سلطان جلال الدین خوارزم شاہ نے منگولوں کے ناقابلِ شکست سمجھے جانے والے لشکر کو عبرتناک شکست دی۔ یہ معرکہ تاریخ کا ایک ایسا واقعہ ہے جو ہمیں بہادری، ذہانت، اور جنگی حکمتِ عملی کا درس دیتا ہے۔

منگولوں کا خوارزمی سلطنت پر حملہ اور تباہی:۔

یہ کہانی شروع ہوتی ہے 1218ء میں، جب چنگیز خان نے خوارزم شاہی سلطنت کے ساتھ تجارتی تعلقات بنانے کے بہانے اپنے سفیروں کو سلطان علاؤالدین خوارزم شاہ کے دربار میں بھیجا۔ مگر جب خوارزمی گورنر نے ان سفیروں کو قتل کر دیا تو چنگیز خان نے اسے اعلانِ جنگ سمجھا اور پوری طاقت کے ساتھ خوارزم پر چڑھ دوڑا۔1219ء میں چنگیز خان نے اپنے بے رحم لشکر کے ساتھ خوارزم شاہی ریاستوں پر دھاوا بول دیا۔ ایک کے بعد ایک شہر تباہ و برباد کر دیا گیا، اور سلطنت کا دارالحکومت سمرقند بھی شدید مزاحمت کے باوجود سقوط کر گیا۔ علاؤ الدین خوارزم شاہ کو شکست کے بعد جزیرہ قزوین کی طرف بھاگنا پڑا جہاں اس کی موت واقع ہو گئی۔

منگول حملہ کیسے ہوا؟

چنگیز خان نے خوارزم سلطنت پر حملہ کرنے کے لیے اپنی فوج کو تین بڑے حصوں میں تقسیم کیا:

  1. پہلا دستہ: جوجی خان اور جبی کی قیادت میں فرغانہ وادی میں داخل ہوا تاکہ دشمن کی توجہ تقسیم ہو سکے۔

  2. دوسرا دستہ: چغتائی اور اوغدائی کی سربراہی میں اترار پر حملہ آور ہوا۔

  3. تیسرا دستہ: چنگیز خان کی قیادت میں ایک بڑی فوج نے سمرقند اور بخارا کو نشانہ بنایا۔

یہ ایک زبردست حکمتِ عملی تھی جس نے خوارزم کے دفاع کو کمزور کر دیا۔

اترار کی فتح:۔

اترات ایک مضبوط قلعہ تھا اور یہاں کے گورنر انالچق نے منگولوں کے سفیروں کو قتل کروا کر چنگیز خان کو مشتعل کر دیا تھا۔ 1220ء میں چنگیز خان نے اترات کو 20,000 فوجیوں کے ساتھ محاصرے میں لے لیا۔

یہ محاصرہ پانچ ماہ تک جاری رہا۔ آخر کار، ایک غدار نے قلعے کا دروازہ کھول دیا اور منگول فوج اندر داخل ہو گئی۔ تمام آبادی کو قتل کر دیا گیا، جبکہ انالچق کو پکڑ کر اس کی آنکھوں میں پگھلا ہوا چاندی ڈال دیا گیا۔ یہ خوارزم کے زوال کا آغاز تھا۔

بخارا کی تباہی:۔

بخارا ایک شاندار اسلامی شہر تھا جو تجارت اور علم و حکمت کا مرکز تھا۔ مارچ 1220ء میں چنگیز خان نے اسے گھیر لیا۔ شہر کے لوگوں نے مزاحمت کی مگر منگولوں کی شدید یلغار کے سامنے زیادہ دیر نہ ٹھہر سکے۔

چنگیز خان نے جامع مسجد میں کھڑے ہو کر اعلان کیا:

"میں خدا کا قہر ہوں، اگر تم نے کوئی گناہ نہ کیا ہوتا تو میں تم پر حملہ نہ کرتا۔"

بخارا کے شہریوں کو قتل کر دیا گیا اور شہر کو مکمل طور پر جلا دیا گیا۔

سمرقند کی فتح:۔

مارچ 1220ء میں، چنگیز خان نے سمرقند کا محاصرہ کر لیا۔ یہاں ایک 40,000 فوجیوں کی مضبوط گارنیشن تھی مگر منگولوں نے چالاکی سے جنگ کی۔

  1. قیدیوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا۔

  2. مصنوعی پسپائی کر کے شہر کی فوج کو باہر نکالا گیا اور تباہ کر دیا گیا۔

  3. پانچ دن کے اندر اندر شہر پر قبضہ کر لیا گیا اور تمام آبادی کو ختم کر دیا گیا۔

دیگر خوارزمی شہروں کی تباہی:۔

بلخ، نیشاپور، اور ہرات خراسان کے اہم شہر تھے، مگر منگولوں کے قہر کے سامنے نہ ٹھہر سکے۔

  • بلخ: یہاں کے لوگوں نے شدید مزاحمت کی مگر آخر کار قتل عام ہوا اور شہر کو آگ لگا دی گئی۔

  • نیشاپور: جب جلال الدین کے سسر کی قیادت میں منگولوں کے خلاف ایک بغاوت ہوئی تو چنگیز کے بیٹے تولوی نے پورے شہر کو جلا دیا اور ہر مرد، عورت اور بچے کو قتل کر دیا۔

  • ہرات: یہاں کے لوگوں نے بھی مزاحمت کی مگر جلد ہی شہر کو تسخیر کر کے صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔

اب خوارزم شاہی سلطنت کا تمام بوجھ اس کے بہادر بیٹے سلطان جلال الدین خوارزم شاہ پر آ پڑا، جو نہ صرف ایک زبردست جنگجو تھا بلکہ بہترین حکمتِ عملی کا ماہر بھی تھا۔

سلطان جلال الدین کی مزاحمت کا آغاز:۔

منگولوں کے ظلم و ستم کے باوجود جلال الدین نے ہمت نہ ہاری۔ 1221ء میں، جب چنگیز خان نے خراسان اور دیگر علاقوں کو تاراج کر دیا تھا، جلال الدین نے افغانستان کے پہاڑی علاقوں میں اپنی فوج کو ازسرِ نو ترتیب دیا اور اپنے والد کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے میدان میں اترا۔چنگیز خان نے نہ صرف خوارزم کے شہر تباہ کیے بلکہ بخارا، سمرقند، اور اترار جیسے عظیم شہروں کو بھی صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ اس نے اترار کے گورنر انالچق کو گرفتار کر کے اس کی آنکھوں میں پگھلا ہوا چاندی ڈال کر عبرتناک انجام دیا۔ بخارا کے دروازے پر پہنچ کر اس نے مشہور الفاظ کہے: "میں خدا کا قہر ہوں، اگر تم نے کوئی گناہ نہ کیا ہوتا تو میں تم پر حملہ نہ کرتا۔"

اسی دوران چنگیز خان نے ایک زبردست فوجی دستہ جلال الدین کے تعاقب میں بھیجا۔ دونوں افواج کا سامنا 1221ء میں پروان کے مقام پر ہوا۔

پروان کی تاریخی جنگ:۔

پروان، جو آج کل افغانستان میں واقع ہے، وہ مقام تھا جہاں سلطان جلال الدین نے منگولوں کو ان کی زندگی کی بدترین شکست دی۔ چنگیز خان کے ایک نامور جرنیل شیقی قوتوقو (Shigi Qutuqu) کی قیادت میں تقریباً 30,000 منگول فوجی سلطان جلال الدین کی فوج کے سامنے تھے، جبکہ سلطان کے پاس اس وقت زیادہ سے زیادہ 20,000 سپاہی تھے۔لیکن جلال الدین کے پاس جنگی حکمتِ عملی، جذبۂ ایمانی اور میدانِ جنگ میں شاندار مہارت تھی۔ اس نے اپنے سپاہیوں کو منظم کر کے مختلف حربے اپنائے، گھات لگا کر حملے کیے، اور آخر کار منگول لشکر کو منتشر کر دیا۔جلال الدین نے اپنی فوج کو گھوڑوں سے اتار کر تیر اندازی کروائی، جس نے منگولوں کو سخت نقصان پہنچایا۔ منگولوں نے چالاکی سے اپنی فوج کے گھوڑوں پر پتلے آدمیوں کی شکل کے پتلے باندھ کر اپنی تعداد زیادہ دکھانے کی کوشش کی، مگر جلال الدین نے ان کی چالاکی کو بھانپ لیا اور پورے عزم کے ساتھ حملہ کر دیا۔

یہ وہ لمحہ تھا جب چنگیز خان کو پہلی بار ایک حقیقی شکست کا سامنا کرنا پڑا، اور یہی وجہ تھی کہ وہ سلطان جلال الدین کی بہادری اور جنگی صلاحیتوں سے بہت متاثر ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ چنگیز خان نے جلال الدین کے بارے میں "اگر میرے بیٹے ایسے ہوتے تو میں پوری دنیا فتح کر لیتا" جیسے الفاظ ادا کیے۔

پروان کی فتح کے بعد کیا ہوا؟

جنگِ پروان میں فتح کے بعد جلال الدین کو داخلی انتشار اور سرداروں کی بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ چنگیز خان نے خود 20,000 فوجیوں کا ایک دستہ بھیجا تاکہ جلال الدین کا پیچھا کرے۔بالآخر دریائے سندھ کے کنارے ایک اور خوفناک جنگ ہوئی، جس میں جلال الدین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ 1221ء میں دریائے سندھ کی جنگ میں چنگیز خان نے خود سلطان جلال الدین کا پیچھا کیا۔ جب جلال الدین کو محسوس ہوا کہ اب اس کے پاس بچنے کا کوئی راستہ نہیں رہا، تو وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر دریائے سندھ میں چھلانگ لگا کر پار پہنچ گیا۔ یہ ایک حیران کن منظر تھا، چنگیز خان نے خود اس بہادری کو سراہتے ہوئے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ "اس بہادر نوجوان کو جانے دو، کیونکہ دنیا میں ایسے لوگ بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔"

جلال الدین مسلمانوں کا ناقابل فراموش عظیم ہیرو:۔

جنگِ پروان، سلطان جلال الدین کی زندگی کا ایک سنہری باب تھا۔ اس معرکے نے نہ صرف چنگیز خان کو پہلی شکست دی بلکہ یہ ثابت کر دیا کہ اگر غیرت، جذبہ، اور حکمت ہو تو کسی بھی طاقتور دشمن کو زیر کیا جا سکتا ہے۔ جلال الدین نے اپنی آخری سانس تک منگولوں کے خلاف مزاحمت جاری رکھی، اور اپنی جان دینی پڑی لیکن کبھی غلامی قبول نہیں کی۔

آج بھی جب ہم بہادری، غیرت اور شجاعت کی مثال دیتے ہیں تو سلطان جلال الدین خوارزم شاہ کا نام ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ یہ وہ مردِ مجاہد تھا جس نے چنگیز خان جیسے ظالم حکمران کو ہلا کر رکھ دیا تھا، اور جنگِ پروان اس کی عظمت کی ایک روشن دلیل ہے۔

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

سپین میں مسلمانوں کا 800 سالہ دور حکومت

جزیرہ نما آیبیریا   جو کہ ہسپانیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مغربی رومی سلطنت کے ختم ہو جانے کے بعدیہاں پر مکمل طور "گاتھک" خاندان کی حکومت قایم ہو گی۔لیکن انکی یہ حکومت زیادہ عرصہ…

مزید پڑھیں
امیرالمومنین حضرت علیؑ اورام المومنین حضرت عائشه صدیقہ رض کے درمیان ہونے والی "جنگِ جمل" کی لرزہ خیر تاریخ۔

سال656ء میں تیسرے  خلیفہ "حضرت عثمانؒ" کی شہادت کے بعد مسلمانوں نے "حضرت علیؑ" کو  چوتھا،خلیفہ منتخب کر لیا، اور یوں حضرت علی چوتھے اور آخری راشدین خلیفہ  منتخب ہوئے۔حضرت علی کی یہ خلافت پھلوں کی سیج ثابت نہ ہو…

مزید پڑھیں
جنگِ طلاس جس میں عباسی خلافت نے چینی فوج کو شکست دی تھی۔

طلاس کی جنگ: تاریخ کا اہم موڑ:۔ تاریخ کے صفحات میں کچھ جنگیں تہذیبوں کے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہیں، اور طلاس کی جنگ (751 عیسوی) انہی میں سے ایک ہے۔ یہ جنگ نہ صرف عسکری لحاظ سے اہم تھی…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں