سلطان محمد فاتح کا بیٹا شہزادہ جمشید جسکی موت پوپ کی قید میں ہوئی۔

عثمانی تاریخ کا درخشاں ستارہ: شہزادہ جیم سلطان:۔
سلطنت عثمانیہ کی تاریخ بے شمار عظیم شخصیات سے بھری ہوئی ہے، مگر ان میں ایک ایسا نام بھی ہے جس کی زندگی نہ صرف شاندار تھی بلکہ آزمائشوں سے بھرپور بھی، شہزادہ جیم سلطان، جن کی پیدائش 22 دسمبر سال1459ء کو ایڈیرنے میں ہوئی، ایک ایسے شہزادے تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صرف تخت کے وارث ہی نہیں بلکہ ایک عظیم سلطنت کے خوابوں کا مجسمہ تھے۔شہزادہ جیم اپنی ذہانت، بہادری، اور علمی صلاحیتوں کی بدولت اپنے والد، سلطان محمد فاتح، اور بڑے بھائی، سلطان بایزید ثانی، کی سلطنت میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ مگر تخت کی جنگ اور سیاست کے پیچ و خم نے ان کی زندگی کو ایک تاریخی داستان بنا دیا۔ یہ کہانی ہے عزائم، وفاداری، اور بغاوت کی، جو عثمانی سلطنت کی سیاست کے گہرے رنگوں کو ظاہر کرتی ہے۔آئیے، شہزادہ جیم سلطان کی زندگی کے اس حیرت انگیز سفر کو جاننے کے لیے تاریخ کے ان صفحات کو پلٹتے ہیں، جہاں ایک شہزادہ اپنی قسمت کے خلاف جنگ لڑتا نظر آتا ہے۔
خاندان عثمانی کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اس کا کوئی شہزادہ تاج و تخت سے کم پر کسی طرح راضی نہ ہوتا تھا، اس لیے کسی سلطان کے مرنے پر اس کے لڑکوں میں تخت سلطنت کے لیے جنگ کا شروع ہو جانا لازی تھا، چنانچہ اس موقع پر بھی اگر چہ بایزید تخت پر قابض ہو چکا تھا اور تمام فوج اور امرائے سلطنت نے اس کی حمایت کا اعلان کردیا تھا، تاہم شہزادہ جیم نے علمِ بغاوت بلند کر دیا اور جنگ چھڑ گئی وہ جانتاتھا کہ اس کے والد نے جو خونی قانون دستور سلطنت میں داخل کر دیا ہے، اس کی وجہ سے اس کی جان ہر وقت خطرے میں ہے۔ لہذاٰ اطاعت قبول کرنے کے بعد بھی اسے بایزید کی طرف سے اطمینان نہیں ہو سکتا تھا، اعلان جنگ سے قبل اس نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ سلطنت دو حصوں میں تقسیم کر دی جائے ، یورپ کے صوبے بایزید کی حکومت میں رہیں اور ایشیا کے صوبوں پر جیم کی حکومت تسلیم کر لی جائے۔ لیکن بایزید نے اس تجویز کومسترد کر دیا، اب لڑائی کے سوا کوئی چارہ نہ تھا،چناچہ 20 جون 1481ء کو احمد کدک پاشا نے جم کو شکست دی اور وہ بھاگ کر سلطان مصر کے دربار میں پناہ گزیں ہوا، دوسرے سال مصر کی فوجی مدد کے ساتھ وہ پھر واپس ہوا اور ایشیائے کو چک کے بعض ترکی سردار اس کی حمایت میں کھڑے ہوئے لیکن اس مرتبہ بھی اسے شکست کھا کر وطن چھوڑنا پڑا، اب کی بار وہ بجائے مصر کے روڈس پہنچا تا کہ وہاں سے مدد لے کر سلطنت عثمانیہ کے یورپین مقبوضات میں داخل ہو اور از سر نو قسمت آزمائی کرے۔
روڈس اس وقت مبارزین یروشلم کے قبضہ میں تھا، ان کا سردار ڈی ، آبوسن (De Aubusson) ایک نہایت چالاک اور غدار شخص تھا، اس نے ایک طرف تو شہزادہ جم کو مدد دینے کا وعدہ کیا اور اس سے یہ معاہدہ کیا کہ بہ صورت کامیابی وہ مبارزین روڈس کو بعض مخصوص اور اہم مراعات عطا کرے گا اور دوسری طرف سلطان بایزید سے یہ طے کیا کہ پینتالیس ہزار دوکات سالانہ کے عوض وہ جم کو نظر بند رکھے گا، چنانچہ سات برس تک یہ بد نصیب شہزادہ روڈس اور پھر فرانس کے مختلف مقامات میں جو مبارزین روڈس کے قبضہ میں تھے ، ظاہری احترام کے باوجود در اصل ایک قیدی کی طرح زندگی بسر کرتا رہا، تاہم یورپ کو جم کے ساتھ معاملہ سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی اور متعدد بادشاہوں نے شہزادہ کو حاصل کرنے کے لیے ڈی آبون سے مراسلت شروع کر دی تھی ، وہ چاہتے تھے کہ اسے بایزید کے مقابلہ میں کھڑا کر کے سلطنت عثمانیہ کو نقصان پہنچا ئیں لیکن ڈی آبوسن پینتالیس ہزار دوکات سالانہ کی رقم سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہ تھا، وہ معاملہ کو عملً طول دیتا رہا۔
اس درمیان میں اس نے شہزادہ جم کی ماں اور بیوی سے بھی جو اس وقت قاہرہ میں مقیم تھیں، خط کتابت شروع کر دی تھی اور انہیں یقین دلایا تھا کہ اگر 20 ہزار دوکات ادا کر دیے جائیں تو شہزادہ فوراً قاہرہ پہنچا دیا جائے گا، ڈی آبوسن کے وعدہ پر اعتماد کر کے ان خواتین نے یہ رقم اس کے پاس بھیج دی تھی، مگر مبارزین کا یہ مقدس پیشوا ایفائے عہد کی پابندی سے بالا تر تھا، عیسائی مؤرخین بھی اس شرم ناک فریب پر اظہار نفرت کرتے تھے، بالآخر شاہ فرانس چارلس ہشتم نے جم کو ڈی آبوسن کے پنجہ سے رہا کر کے پوپ اینوسنٹ هشتم (Pope Innocent Vil) کے پاس رومہ بھیج دیا، یہاں بھی اس کی حیثیت ایک قیدی ہی کی تھی ، اگر چہ اینوسنٹ نے اس کے ساتھ بڑی ہمدردی کا اظہار کیا اور اس کو اپنے محل میں عزت و احترام کے ساتھ رکھا، اب پوپ نے چالیس ہزار دوکات سالانہ کی رقم شہزادہ کی نگرانی کے صلہ میں بایزید سے وصول کرنا شروع کی، چند سال کے بعد اینوسنٹ مر گیا اور اس کا جانشین پوپ اسکندر بور جیا (Pope Alexander Borgia) ہوا جو اپنے ہلاکت پاش جرائم کی وجہ سے عالم گیر شہرت کا مالک تھا، اسکندر بور جیا نے ایک سفیرسلطان بایزید کی خدمت میں بھیج کر شہزادہ جم کی نظر بند سے متعلق سابق معاہدے کی تجدید کی اور اس میں اہم شق کا اضافہ کیا کہ اگروہ سلطان کوشہزادہ کی طرف سے ہمیشہ کے لیے مطمئن کر دے تو بجائے چالیس ہزار دوکات سالانہ وصول کرنے کے تین لاکھ دوکات یک مشت لئے جائیں گے۔ لیکن ابھی سلطان اور سفیر پوپ کے درمیان اس معاملہ پر گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ چارلس ہشتم نے اٹلی پرحملہ کر دیا اور 31 دسمبر سال1495ء کورومہ میں فاتحانہ داخل ہوا، چند روز کے بعد شاہ چارلس اور پوپ اسکندر کے درمیان صلح کی گفتگو ہوہی رہی تھی ، جس کی ایک اہم شرط تھی کہ شہزادہ جم چارلس کے ساتھ فرانس جائے گا ، اسکندر کو صلح کی خاطر یہ شرط منظور کرنی پڑی اور شہزادہ فرانسیسی فوج کے سپہ سالار کے ساتھ رومہ سے روانہ ہو گیا۔ اسکندر بور جیا کو اگر چہ چالیس ہزار دوکات سالانہ سے محروم ہو جانا پڑا تاہم شہزادہ کے قتل سے تین لاکھ دوکات کی خطیر رقم کا حاصل کرنا اب بھی ممکن تھا اور وہ اس خونیں تدبیر میں کامیاب ہوا۔
قتل کے طریقہ میں ترک اور اطالوی مؤرخین کے بیانات باہم مختلف ہیں ، اطالوی مؤرخین کی روایت ہے کہ اسکندر بور جیا نے شہزادہ کے ایک خدمت گار سے سازش کر کے ایک خاص قسم کا سفید زہر شکر میں ملا کر کھلا دیا ، ترک مؤرخین کا بیان ہے کہ مصطفیٰ نامی ایک نائی نے بور جیا کی تحریک سے شہزادہ کا خط بناتے وقت زہر کے بجھے ہوئے استرہ سے ایک خفیف سا زخم لگا دیا ، بہر حال تمام مؤرخین کو اس امر پر اتفاق ہے کہ شہزادہ جم کا قتل پوپ اسکندر بور جیا ہی کی تحریک سے عمل میں آیا، زہر کا اثر فوراً ہی ظاہر نہ ہوا، بلکہ رفتہ رفتہ نمایاں ہوا، یہاں تک کہ چند دنوں کے بعد فاتح قسطنطنیہ کا وہ جواں سال و جواں ہمت فرزند جس نے اپنی عمر کے 36 سال بھی ہنوز پورے نہ کیے تھے اور جو تیرہ سال تک اسیری کی صعوبتیں برداشت کر چکا تھا، بہ یک وقت قید فرنگ و قید حیات دونوں سے آزاد ہو گیا ، آخر وقت تک اسے بیوی اور بچوں کو دیکھنے کی حسرت تھی ، اس کی آخری دُعا یہ تھی:
اے میرے رب ! اگر دین حق کے دشمن یہ چاہتے ہیں کہ میری ذات کو آلہ کار بنا کر ان تجویزوں کو تقویت پہنچائیں
جو انہوں نے مسلمانوں کی بربادی کے لیے سوچ رکھی ہیں تو آج کے بعد مجھے زندہ نہ رکھ، بلکہ فوراً میری روح کو اپنی
طرف اُٹھا لے۔“
سلطان بایزید نے اس کی نعش یورپ سے منگوالی اور اسے شاہی تزک واحتشام کے ساتھ بروصہ میں سپردخاک کر دیا۔
شہزادہ جم کے ان حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے لین پول لکھتا ہے :
اس تمام غم ناک سرگزشت سے یہ حیرت انگیز نتیجہ نکلتا ہے کہ دنیائے مسیحیت میں ایک بھی ایمان دار بادشاہ نہ تھا ، جو قیدی پر ترس کھاتا اور نہ کوئی ایسا تھا جو گرینڈ ماسٹر ( ڈی آبوسن ) پوپ اور چارلیس ہشتم کی غیر شریفانہ اور ضمیر فروشانہ سازشوں پر نفرت کرتا ، ان میں سے ہر ایک غداری اور فضیحت کے انعام کے لیے دوسرے سے مسابقت کی کوشش کر رہا تھا، اپنے بھائی کو محفوظ نگرانی میں رکھنے کی خواہش کرنا بایزید کے لیے قابل معافی ہو سکتا ہے لیکن مسیحی کلیسا کے پیشوائے اعظم اور رہبانی نائٹوں کی جماعت کے سردار کی مدافعت میں کیا کہا جا سکتا ہے جنہوں نے کافر کی اشرفیوں کے لیے ایک بے کس و مجبور پناہ لینے والے کے ساتھ دغا کیا ۔
تبصرہ کریں