بروصہ شہر جس کو فتح کرنے میں عثمان غازی کو10سال لگے۔

سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اول اور اورحان غازی کی بورسا کی فتح: ایک تاریخی جائزہ:۔
سلطنتِ عثمانیہ کی فتوحات میں بورسا کی فتح ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ فتح نہ صرف عثمانی سلطنت کے قیام کی بنیاد بنی بلکہ اسے ایک مضبوط سیاسی، اقتصادی، اور ثقافتی مرکز بھی فراہم کیا۔ بورسا کی فتح کی داستان تاریخ میں ایک شاندار باب کے طور پر محفوظ ہے، جس میں عثمان اول اور ان کے بیٹے اورحان غازی کی حکمتِ عملی، عزم، اور قیادت کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ آئیے بورسا کی فتح کی مکمل تفصیلات پر نظر ڈالتے ہیں۔
پس منظر:۔
13ویں صدی کے اختتام پر اناطولیہ کا خطہ مختلف ترک قبائل اور بازنطینی سلطنت کے درمیان تقسیم تھا۔ عثمان اول نے قائی قبیلے کی قیادت سنبھالنے کے بعد بازنطینی علاقوں پر حملے شروع کیے۔ ینی شہر کی فتح کے بعد عثمان کی نظر بورسا پر تھی، جو اس وقت بازنطینی سلطنت کا ایک اہم تجارتی اور عسکری مرکز تھا۔ بورسا کی جغرافیائی حیثیت اور اقتصادی اہمیت نے عثمانیوں کو اس شہر کی طرف متوجہ کیا۔بورسا کی فتح عثمان اول کی زندگی میں مکمل نہ ہو سکی، لیکن انہوں نے اپنے بیٹے اورحان غازی کو وصیت کی کہ وہ اس شہر کو فتح کریں۔ عثمان اول کی وفات کے بعد اورحان غازی نے اس وصیت کو پورا کیا۔بورسا اناطولیہ کے شمال مغربی حصے میں واقع تھا اور اس کی جغرافیائی حیثیت اسے ایک اہم تجارتی مرکز بناتی تھی۔ یہ شہر ریشم کی صنعت اور تجارتی راستوں کے مرکز کے طور پر مشہور تھا۔بورسا کی فتح سے عثمانیوں کو ایک مضبوط دار الحکومت فراہم ہوا،تجارتی راستوں پر کنٹرول ملا جس نے عثمانی ترکوں کی اقتصادی ترقی کو فروغ دیا،اور اس فتح سے بازنطینی سلطنت کی طاقت کو کمزور کر دیا گیا۔
محاصرہ:۔
بورسا کا محاصرہ 10 سال تک جاری رہا۔ عثمان اول نے اپنے دور میں اس شہر کے گرد موجود بازنطینی قلعوں کو فتح کرنے کی حکمت عملی اپنائی تھی۔ ان قلعوں کی فتح کے بعد بورسا کو مکمل طور پر گھیر لیا گیا، جس سے شہر کی سپلائی لائنز کٹ گئیں۔1326ء میں اورحان غازی نے اپنی افواج کے ساتھ بورسا پر فیصلہ کن حملہ کیا۔ شہر کی بازنطینی قیادت، مسلسل محاصرے اور سپلائی کی کمی کے باعث کمزور ہو چکی تھی۔محاصرہ تقریباً دس سال تک جاری رہا۔ بالآخر 1324 ء میں عاجز آکر محصورین نے ہتھیار ڈال دیے اور شہر کو خالی کر دیا اور ترکی فوج اور خان کی سرکردگی میں فاتحانہ طور پر بروصہ میں داخل ہو گئی ۔ عثمان غازی اس وقت سوغوت میں بستر مرگ پر تھے۔ لیکن وفات سے قبل اور خان یہ خوش خبری لے کر ان کے پاس پہنچ گیا۔ عثمان نے اور خان کی ہمت و شجاعت کی داد دے کر اسے اپنا جانشین مقرر کر دیا اور بلا تفریق تمام رعایا کے ساتھ یکساں عدل و انصاف اور بھلائی کرنے کی وصیت کی۔ پھر یہ ہدایت کی کہ اسے بروصہ میں دفن کیا جائے اور اس شہر کو عثمانی ملکت کا پایہ تخت بنایا جائے ، چنانچہ اس وصیت کے مطابق اسے بروصہ میں دفن کیا گیا اور اس کی قبر پر ایک عالی شان مقبرہ تعمیرکیا۔بورسا کی فتح عثمانی حکمتِ عملی کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ اس فتح نے عثمانیوں کو نہ صرف ایک مضبوط مرکز فراہم کیا بلکہ انہیں اناطولیہ میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کا موقع بھی دیا۔
تبصرہ کریں