/ تاریخِ اسلام / خلافتِ عثمانیہ

کارپوریل حسن،آخری عثمانی سپاہی جس نے فلسطین چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔

تاریخ انسانیت میں کچھ ایسی کہانیاں ہوتی ہیں جو قربانی، عزم، اور وفاداری کی عظیم مثالیں بن جاتی ہیں۔ عریف حسن الإغدرلي کی داستان بھی انہی کہانیوں میں سے ایک ہے، جو عثمانی فوج کے ایک سپاہی تھے اور اپنی زندگی کے آخری لمحے تک یروشلم میں مسجد الاقصی کے مقام کی حفاظت کرتے رہے۔ اس بلاگ میں ہم ان کی کہانی کو تاریخ کے اہم تناظر، خصوصاً پہلی جنگ عظیم، عثمانی خلافت کے زوال، فلسطین کی تقسیم، اور اس تاریخی پس منظر کے ساتھ بیان کریں گے۔

 

خلافتِ عثمانیہ اور پہلی جنگِ عظیم:۔

عثمانی خلافت دنیا کی سب سے طاقتور اور وسیع اسلامی سلطنتوں میں سے ایک تھی، جو 1299ء سے لے کر 1924ء تک قائم رہی۔ اس کی حکمرانی تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی، جس میں مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، اور جنوب مشرقی یورپ کے بڑے حصے شامل تھے۔1914ء میں جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی، عثمانی سلطنت نے جرمنی اور آسٹریا-ہنگری کے ساتھ اتحاد کیا۔ یہ جنگ سلطنت کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔ جنگ کے دوران، برطانوی افواج اور ان کے اتحادیوں نے مشرق وسطیٰ پر حملے کیے، خاص طور پر فلسطین پر قبضہ حاصل کرنے کے لیے۔1917ء میں برطانوی جنرل ایلنبی نے یروشلم پر قبضہ کر لیا، اور عثمانیوں کو اس تاریخی شہر سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ یہ واقعہ عثمانی خلافت کے زوال کی بڑی علامت بن گیا۔

 

خلافتِ عثمانیہ کا زوال:۔

پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد 1920ء میں معاہدہ سیور‌ (Treaty of Sèvres) کے ذریعے عثمانی خلافت کے حصے بخرے کر دیے گئے۔ اس کے بعد 1923ء میں ترکی کے قیام کے ساتھ مصطفی کمال اتاترک نے خلافت کو ختم کر دیا، اور 1924ء میں خلافت کا باضابطہ اختتام ہو گیا۔عثمانی خلافت کا زوال صرف ایک سلطنت کا خاتمہ نہیں تھا بلکہ یہ مسلمانوں کے لیے سیاسی، سماجی، اور روحانی نقصان بھی تھا۔ خلافت کے خاتمے نے مشرق وسطیٰ میں استعماری طاقتوں کو اپنی مرضی کے مطابق سرحدیں کھینچنے کا موقع دیا۔

 

فلسطین کی تقسیم:۔

1917ء میں برطانیہ نے بالفور ڈیکلیریشن جاری کیا، جس میں فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن کے قیام کی حمایت کی گئی۔ جنگ کے بعد، لیگ آف نیشنز نے فلسطین کو برطانوی انتداب (Mandate) کے تحت دے دیا۔یہ تقسیم فلسطینی عوام کے لیے المیہ ثابت ہوئی۔ 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کیا گیا، اور یہ تنازع آج تک جاری ہے۔

 

عریف الاغدرلی کون تھے؟

عثمانی فوج کے خاتمے کے باوجود عریف حسن الإغدرلي نے یروشلم چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ وہ مسجد الاقصی میں اپنے مقام کی حفاظت کرتے رہے، چاہے خلافت ختم ہو چکی ہو یا فلسطین پر غیر ملکی طاقتوں کا قبضہ ہو گیا ہو۔ان کی زندگی ایمان، حوصلے، اور خدمت کی ایک شاندار مثال تھی۔ وہ اس وقت تک اپنی ذمہ داری نبھاتے رہے جب تک کہ 1982ء میں ان کا انتقال نہ ہو گیا۔ ان کی وفات کے بعد، ہزاروں فلسطینیوں نے مسجد الاقصی میں ان کی نماز جنازہ ادا کی، جو ان کے لیے عزت اور عقیدت کا اظہار تھا۔عریف حسن الإغدرلي کی وفات کے بعد، فلسطینی عوام نے انہیں ایک قومی اور مذہبی ہیرو کے طور پر یاد کیا۔ ان کی نماز جنازہ مسجد الاقصی میں ادا کی گئی، جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ یہ نہ صرف ان کی خدمات کا اعتراف تھا بلکہ عثمانی خلافت کے اس آخری نشان کا احترام بھی تھا جو اپنی وفاداری اور قربانی کی علامت بن گیا۔

عریف حسن الإغدرلي کی کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ایمان، عزم، اور قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ وہ ایک ایسے وقت میں استقامت کی علامت بنے جب ان کے اردگرد حالات بدل چکے تھے۔ ان کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو پورے خلوص کے ساتھ نبھانا ہی اصل کامیابی ہے۔

عریف حسن الإغدرلي کی داستان ہمیں تاریخ کے ان پہلوؤں سے روشناس کراتی ہے جو قربانی، وفاداری، اور عزم کی بنیاد پر لکھے گئے ہیں۔ ان کی کہانی نہ صرف ماضی کی ایک جھلک ہے بلکہ آج کے دور میں بھی ہمیں ترغیب دیتی ہے کہ ہم اپنی اقدار اور ذمہ داریوں کو کبھی نہ بھولیں۔

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

قسطنطنیہ کی فتح

سلطنت عثمانیہ نے  قسطنطنیہ کو فتح کرنے اور بازنطینی سلطنت کو ختم کرنے کے لیے کی بار اس شہر کا محاصرہ کیا۔ لیکن یہ محاصرے صلیبیوں کے حملے،تخت کے لیے خانہ جنگی،بغاوت اور امیر تیمور کے…

مزید پڑھیں
سلطنت عثمانیہ"600سالہ دور حکومت کی لاذوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ جسے دولتِ عثمانیہ اور خلافتِ عثمانیہ کہا جاتا ہے یہ تقریباً سات سو سال تک  قائم رہنے والی  مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت  تھی۔یہ سلطنت 1299ء سے1922 تک قائم رہنے والی مسلمان سلطنت تھی  جس کے حکمران ترک…

مزید پڑھیں
سلطنتِ عثمانیہ کے عروج و زوال کی لازوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ اسلام کی مضبوط ترین اور  عظیم الشان سلطنت تھی۔ترکوں کی یہ عظیم سلطنت جو 600 سالوں سے زیادہ عرصے پر محیط تھی،اس کی سرحدیں یورپ ایشیا اور افریقہ تک پھیلی ہوی تھیں ،یہ خانہ بدوش ایشیا مائنر سے…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں