قسطنطنیہ کی فتح کی عظیم الشان تاریخ۔

قسطنطنیہ کامحاصره:۔
سنہ 26 ربیع الاول 857ھ (6 / اپریل 1453ء) کو قسطنطنیہ کا محاصرہ شروع ہوا، دورانِ محاصرہ میں یونانیوں نے غیر متوقع شجاعت اور استقلال کا ثبوت دیا، جسٹینانی کی فوجی مہارت خاص طور پر نمایاں تھی اور وہ اپنی قابلیت کے جوہر دکھا کر بار بار سلطان سے خراج تحسین وصول کر رہا تھا، بری فوج کے حملہ کا ابھی کوئی معمولی اثر بھی ظاہر نہ ہونے پایا تھا، کہ وسط اپریل میں ایک مختصرسی بحری جنگ پیش آگئی، ایک یونانی اور چار جنوی جہاز اہل قسطنطنیہ کے لیے سامان رسد لا رہے تھے، بحر مامورا کو عبور کرنے کے بعد جب وہ آبنائے باسفورس میں بمشکل داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ 140 عثمانی کشتیاں ان کی راہ میں حائل ہیں، جس وقت یہ جہاز بندرگاہ کے قریب پہنچے تر کی بیڑے نے حملہ کر دیا لیکن جنوی جہاز عثمانی کشتیوں کے مقابلہ میں بہت اونچے اور طاقتور تھے، انہوں نے عثمانی کشتیوں پر پتھر اور آگ برسانا شروع کر دیا جس سے ان میں انتشار پیدا ہو گیا اور یہ انتشار ان کی کثرت تعداد کی وجہ سے اور بھی بڑھ گیا ، سلطان ساحل پر کھڑا ہوا یہ منظر دیکھ رہا تھا، اس سے ضبط نہ ہو سکا اور اس نے بے اختیار اپنا گھوڑا پانی میں ڈال دیا لیکن ترکی بیڑا اس وقت تک اس قدر منتشر ہو چکا تھا کہ عیسائی جہازوں کو نکل جانے کا راستہ مل گیا اور وہ اہل قسطنطنیہ کے نعرہ ہائے مسرت کے ساتھ یہ حفاظت بندرگاہ میں پہنچ گئے۔
جنوبی جہازوں کی اس شان دار فتح کا اخلاقی اثر محصورین پر بہت اچھا پڑا، ان میں جرات و استقلال کی ایک نئی روح پیدا ہو گئی، تاہم صرف اس روح کا پیدا ہو جانا ہی مدافعت کے لیے کافی نہ تھا، جنوی رسد کے بعد پھر کوئی رسد انہیں باہر سے نہ مل سکی، دوسری طرف سلطان محمد فاتح نے بھی اپنی پہلی بحری شکست کے بعد محاصرہ کی سختی کے لیے ایک زیادہ مؤثر تد بیر سوچی، اسے اندازہ ہو چکا تھا کہ آبنائے باسفورس کے اس حصہ میں جہاں پانی زیادہ گہرا تھا، ترکی بیڑا عیسائیوں کے طاقتور جہازوں کے مقابلہ میں مشکل سے کامیاب ہو سکے گا، لہذا اس نے اپنی کشتیوں کی ایک بڑی تعداد بندرگاہ کے بالائی حصہ میں منتقل کر دینا چاہی، جہاں پانی تنگ اور چھلا تھا اور جس میں یونانی اور جنوی جہاز اپنے قد و قامت کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو سکتے تھے۔
سمندر کے راستہ سے بندرگاہ کے اس حصہ تک پہنچنا ممکن نہ تھا، اس لیے محمد نے ایک ایسی صورت اختیار کی جو اس کی ذہانت اور آہنی عزم و استقلال کی ایک غیر فانی مثال ہے، باسفورس اور بندرگاہ قسطنطنیہ کے درمیان پانچ میل کا فاصلہ ہے، اس نے اس درمیانی پہاڑی زمین پر لکڑی کے تختوں کی ایک سڑک بنوائی اور ان تختوں کو چربی سے خوب چکنا کروا دیا اور ایک رات کے اندر اسی کشتیاں بیلوں سے کھنچوا کر بندرگاہ کے اس حصہ میں پہنچا دیں، قسطنطنیہ کا یہ حصہ اب تک بالکل محفوظ تھا، تر کی کشتیوں کے پہنچ جانے سے اب یہ بھی حملہ کی زد میں آگیا اور قسطنطین کو مجبوراً سپاہیوں کا ایک دستہ شہر کے دوسرے حصہ سے ہٹا کر اس حصہ میں متعین کرنا پڑا۔
اس درمیان میں شہر کی دوسری سمتوں میں برابر حملے ہو رہے تھے، لیکن ان زبردست دیواروں پر جو ایک ہزار سال سے دشمنوں کا مقابلہ کر رہی تھیں، ہنوز ان حملوں کا کوئی اثر ظاہر نہ ہوا، بالآخر سات ہفتوں کی متواتر گولہ باری کے بعد دیواروں میں تین مقامات پر شگاف نمودار ہوئے اور سلطان محمد فاتح کو آخری حملہ کی کامیابی کا یقین ہو گیا، 15 جمادی الاول 857ھ (24 مئی 1453ء) کو اس نے قسطنطین کے پاس پیغام بھیجا کہ اگروہ شہر کو سپرد کر دے تو رعایا کی جان و مال سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا اور موریا کی حکومت اسے دے دی جائے گی لیکن قسطنطین نے اسے منظور نہ کیا ، اس کے بعد سلطان محمد فاتح نے فوج میں اعلان کر دیا کہ 10 جمادی الاول (29 مئی) کوآخری حملہ ہو گا۔
سقوطِ قسطنطنیه:۔
پھر20 جمادی الاول 857ھ (1453ء) کی رات ترکوں نے تسبیح و تہلیل میں گزاری اور فریضہ نماز فجر ادا کرنے کے بعد حملہ شروع ہوا، حملہ مختلف سمتوں میں ہو رہا تھا۔ لیکن سب سے زیادہ زور اس حصہ پر تھا جو دروازہ سینٹ رومانس کے قریب تھا، وہاں کی دیوارتر کی توپوں کی گولہ باری سے بہت کچھ مجروح ہو چکی تھیں، عثمانی اور یونانی سپاہیوں کی تعداد میں کوئی مناسبت نہ تھی، لیکن دو پہر سے پہلے تک انتہائی کوشش اور فتح کی پوری اُمید کے باوجود عثمانی فوج کا ایک سپاہی بھی شہر میں داخل نہ ہوسکا قسطنطین اور اس کے ساتھیوں نے اس روز حیرت انگیز شجاعت کا ثبوت دیا اور ترکوں کی باڑھ کو بے حد پامردی سے روکتے رہے لیکن سلطان محمد فاتح بھی عزم و استقلال کا مجسمہ تھا، وہ ابتدائی ناکامیوں سے بد دل نہ ہوا اور اب خود اپنے ینی چری دستوں کو لے کر آگے بڑھا، یونانی اس وقت تک بالکل خستہ حال ہو چکے تھے ، ان میں اس تازہ حملہ کی تاب نہ تھی، اس درمیان جسٹنیانی کو جو گویا مدافعت کی اصل روح تھا، ایک کاری زخم لگا، جس سے وہ کچھ ایسا خائف ہوا کہ جنگ سے بالکل کنارہ کش ہو گیا، ایسے نازک وقت میں جب محمد اپنی پوری قوت کے ساتھ حملہ کر رہا تھا ، جسٹینیانی کا اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر چلا جانا گویا شہر کو دشمن کے سپرد کر دینے کے برابر تھا۔ لیکن قسطنطین کے شدید اصرار کے باوجود وہ کچھ دیر بھی نہ ٹھہرا اور فوراً بندرگاہ میں چلا گیا۔
اس کے جاتے ہی عیسائیوں میں کمزوری کے آثار نمایاں ہونے لگے قسطنطین نے خود موقع پر پہنچ کر کمان اپنے ہاتھ میں لی مگر ینی چری کا حملہ اتنا سخت تھا کہ شہنشاہ اور اس کے بہادر سپاہیوں کی جاں بازی زیادہ دیر تک مقابلہ نہ کر سکی ، ینی چری کا سردار آغا حسن اپنے تین ہمراہیوں کے ساتھ دیوار پر چڑھ گیا اور اگر چہ حسن اور اس کے اٹھارہ ساتھی فوراً مار کر گرا دیے گئے تاہم باقی کامیاب رہے اور اس کے بعد ہی ترکی دسے بھی یکے بعد دیگرے پہنچتے گئے، یونانیوں کے لیے اب کوئی امید باقی نہ رہی قسطنطین نے اپنی سرخ عبا جو قیاصرہ کی امتیازی پوشاک تھی، اُتار کر پھینک دی اور ترکی فوج کے بڑھتے ہوئے طوفان میں گھس کر ایک جاں باز اور سرفروش سپاہی کی طرح لڑتا ہوا مارا گیا۔
فاتح کا داخلہ:۔
چند لمحوں کے اندر قسطنطنیہ فاتحوں کے پے در پے دستوں سے بھر گیا، پہلے تو انہوں نے فتح کے ابتدائی جوش میں قتل عام شروع کر دیا لیکن تھوڑی دیر کے بعد جب یہ جوش کسی قدر ٹھنڈا ہوا اور نیز یہ دیکھ کر شہر والوں کی طرف سے مزاحمت نہیں ہو رہی، انہوں نے اپنی تلواریں نیام میں ڈال لیں اور مال غنیمت کے حاصل کرنے میں مصروف ہو گئے ، ظہر کے قریب سلطان محمد فاتح اپنے وزرا اور امرائے سلطنت کے ساتھ شہر میں داخل ہوے، سینٹ صوفیا کے گرجے کے پاس پہنچ کر وہ گھوڑے سے اُترا اور اس عالی شان معبد میں داخل ہو کر ، جس میں گیارہ سو برس سے تین خداؤں کی پرستش ہوتی آئی تھی ، خدائے واحد کی تسبیح کی ، سر بسجدہ ہوا اور مؤذن کو حکم دیا کہ اللہ کے بندوں کو اس کی عبادت کے لیے آواز دے، فتح کے دوسرے روز محمد نے شہر کاجائزہ لیا، جب قیاصرہ کے شاہی محل میں پہنچا اور اس کے ویران اور اُجڑے ہوئے ایوانوں پر نظر پڑی تو بے اختیار اس کی زبان یپر فردوستی کا یہ شعر آگیا:
"پرده داری می کند در قصر قیصر عنکبوت
بوم نوبت می زند بر گنبد افراسیاب"
( قیصر روم کے محل میں مکڑی نے جالاتان لیا ہے اور گنبد افراسیاب میں اُلو بول رہے ہیں )
قسطنطنیہ میں داخل ہونے کے بعد ترکوں نے جو کچھ کیا وہ تاریخ کا کوئی غیر معمولی واقعہ نہ تھا، قرون وسطیٰ کے دستورِ جنگ میں مفتوحین کی جان و مال تمام تر فاتح کی ملک ہوتی تھی ، جس پر اسے ہر طرح کا اختیار حاصل ہوتا تھا، یورپ کی سلطنتوں نے اس اختیار کے استعمال میں کبھی کوئی کسر نہ چھوڑی اور ظلم و ستم کی ایسی ہول ناک مثالیں پیش کیں جو تخیل میں بھی بمشکل آسکتی ہیں، جب کبھی انہوں نے مسلمانوں پر فتح پائی وہ سب کچھ کر ڈالا جو تاریخ مظالم کے روشن کارناموں میں شمار کیا جا سکتا ہے، اس کے مقابلہ میں ترکوں نے قسطنطنیہ میں داخل ہو کر جو کچھ کیا وہ حقیقتاً کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا، بلاشبہ شروع شروع میں جو بھی سامنے آیا اس کو قتل کر دیا لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ عیسائیوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور مدافعت کی قوت ان میں باقی نہیں رہی تو فوراً ہی اپنی تلواریں نیام میں ڈال لیں اور مال غنیمت کے جمع کرنے میں مصروف ہو گئے، یہ سلسلہ تین روز تک جاری رہا، چوتھے روز سلطان نے امن عام کا اعلان کیا اور سپاہیوں کے ہاتھ دفعتاً رک گئے، اس موقع پر ایور سلے لکھتا ہے:
اگر چہ سلطان اور اس کے سپاہیوں نے بہت سے مظالم کیے اور یونانیوں کی پوری جماعت پر نہایت سخت مصیبت ٹوٹ پڑی تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فتح قسطنطنیہ کے موقع پر ویسی نفرت انگیز بدمستیوں کا مظاہرہ ہوا جیسی 1204ء میں دیکھی گئی تھیں، جب کہ محاربین صلیبی نے اس پر قبضہ کیا تھا ، داخلہ کے ابتدائی چند گھنٹوں کے بعد اس موقع پر کوئی قتل عام نہیں ہوا، آتش زنی بھی نہیں ہوئی ، سلطان نے گر جاؤں اور دوسری عمارتوں کو محفوظ رکھنے میں پوری کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب رہا ۔
عیسائیوں کی مذہبی اور ملی آزادی:۔
یکم جون 1453ء کو سلطان نے امن عام کا اعلان کیا اور ان تمام عیسائیوں کو جو قسطنطنیہ سے بھاگ گئے تھے، واپس آنے کی دعوت دی ، اس نے ان کی جان و مال کی حفاظت کا ذمہ لیا اور انہیں آمادہ کیا کہ آکر اپنے پیشوں اور کاروبار میں پھر بدستور مشغول ہو جائیں، اس کے بعد اس نے یونانی کلیسا کے بطریق کو ازسرنو اس کے عہدہ پر مامور کیا اور کلیسا کی سر پرستی خود قبول کی ، ایک خاص فرمان کے ذریعہ یونانی بطریق کی ذات محترم قرار دی گئی، وہ اور نیز اس کے کلیسا کے دوسرے عہدہ دار تمام ٹیکسوں سے بری کر دیے گئے ، اسی فرمان کے ذریعہ یونانیوں کے نصف گرجے انہیں واپس کر دیے گئے اور ان کو اپنے مذہبی رسوم ادا کرنے کی پوری آزادی دے دی گئی ، اس فرمان میں سلطان نے انہیں اس امر کی بھی اجازت دی کہ وہ اپنے قومی معاملات اپنی ملی عدالتوں میں طے کر لیا کریں ، ان عدالتوں کا صدر کلیسا کے بطریق جارج گنادیس (George Gennadius) کو مقرر کیا جو خود یونانیوں کا منتخب کردہ تھا، سلطان نے یونانیوں کے قانون نکاح اور قانون وراثت کو بدستور قائم رکھا اور ان کا نفاذ بطریق اور مذہبی عدالتوں کے سپرد کیا، پروفیسر آرنلڈ اپنی مشہور کتاب ”دعوت اسلام میں سلطان محمد فاتح کی اس رواداری کے متعلق لکھتے ہیں:
"سلطان محمد ثانی نے قسطنطنیہ پر قبضہ کرنے اور شہر میں امن ہونے کے بعد پہلا انتظام یہ کیا کہ وہ یونانی کلیسا کا حامی اور سر پرست بنا تا کہ عیسائی اس کی اطاعت قبول کریں، عیسائیوں پر سختی کرنے کی ممانعت کر دی اور ایک فرمان جاری کیا جس کے مطابق جب قسطنطنیہ کے نئے بطریق اور اس کے جانشینوں اور ماتحت اسقفون کو قدیم اختیارات جو حکومت سابقہ میں ان کو حاصل تھے، دیے گئے اور جو ذریعے ان کی آمدنی کے تھے وہ بحال ہوئے اور جن قواعد سےوہ مستثنیٰ تھے ان سے بدستور مستثنیٰ کیے گئے ، گنادیوس کو جو ترکوں کی فتح کے بعد قسطنطنیہ کا پہلا بطریق ہوا، سلطان نے اپنے ہاتھ سے وہ عصا عنایت فرمایا جو اس کے منصب کا نشان تھا اور ایک خریطہ بھی جس میں ایک ہزار اشرفیاں تھیں اور ایک گھوڑا جس پر بہت تکلف کا سامان تھا، اس کو دیا اور اجازت دی کہ وہ اپنے قدیم سامان جلوس کے ساتھ شہر میں سوار ہو کر دورہ کرے، ترکوں نے صرف یہی نہیں کیا کہ کلیسا کے سب سے بڑے افسر کی وہی عزت اور وقعت قائم رکھی جو اس کو عیسائی شاہنشاہان روم کے وقت میں حاصل تھی۔ بلکہ عدالت کے وسیع اختیارات بھی اس کو دیے، بطریق قسطنطنیہ کی عدالت ایسے کل مقدمات کا جن میں فریقین مسیحی المذہب ہوں، فیصلہ کرتی تھی ، جرمانہ کرنے او رمجرموں کو قید کی سزا دینے کے اختیارات جس کے لیے علیحدہ قید خانے بنے ہوئے تھے اور خاص صورتوں میں سزائے موت کے حکم دینے کا بھی اختیار اس کو حاصل تھا، وزرائے سلطنت اور ترکی حکام کو ہدایت تھی کہ اس عدالت کے فیصلوں کی تعمیل کریں۔
سلطان محمد فاتح کی یہ عظیم الشان رواداری اس عہد کی مسیحی یورپین حکومت کی سیاسی اخلاقیات سے بہت آگے تھی، اہل اسپین نے ان مسلمان مورس کو جنہوں نے اپنے کو گرفتار کرنے والوں ( عیسائیوں) کا مذہب اختیار کرنے سے انکار کر دیا تھا، ان کے ملک سے نکالتے وقت اس کے نمونہ پر عمل نہیں کیا۔ یونانیوں یا قسطنطنیہ کے دوسرے باشندوں کو ترغیب یا جبر سے مسلمان بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔
قسطنطنیہ کی جدید آبادی:۔
عیسائیوں کو مذہبی آزادی کا پروانہ عطا کرنے کے بعد محمد ثانی قسطنطنیہ کو از سر نو آباد کرنے کی طرف متوجہ ہوا، عرصہ سے قسطنطنیہ کی آبادی برابر کم ہوتی جا رہی تھی ، سلطان کی ترغیب اور حوصلہ افزائی سے شہر کے اکثر باشندے جو بھاگ گئے تھے، واپس آگئے، سلطنت عثمانیہ کے دوسرے حصوں سے بھی بہت سے یونانی اور یہودی اور ترک خاندان کو منتقل کر کے قسطنطنیہ میں آباد کیا گیا، اس کے علاوہ ہر نئی فتح کے بعد محمد فاتح نے مفتوحہ ممالک کے ہزاروں باشندوں کو وہاں لا کر بسایا، اس کے عہد حکومت کے خاتمہ پر قسطنطنیہ اپنے آخری یونانی فرماں روا کے زمانہ سے بہت آباد اور خوش حال تھا لیکن اب اس شہر کی خالص یونانی حیثیت فنا ہو چکی تھی اور یونانیوں کے ساتھ ترکی ، البانی، بلغاری اور سروی عنصر بھی بکثرت اس کی آبادی میں شامل ہو گیا تھا۔
قسطنطنیہ نیا دار السلطنت:۔
قسطنطنیہ کی فتح عثمان کے خواب کی تعبیر تھی، یہی شہر اس انگشتری کا نگینہ تھا، جس عثمان اپنی انگلی میں پہنا چاہتا تھا لیکن جوازل سے محمد فاتح کے لیے مقدر ہو چکی تھی، محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو سلطنت عثمانیہ کا پایہ تخت بنالیا، کسی نے اس فتح مبین کی تاریخ " بلدہ طیبہ (857ھ) سے نکالی جو قرآن پاک کی ایک آیت کا ٹکڑا ہے۔
قسطنطنیہ کے سابق محاصرے:۔
قسطنطنیہ کی بنیاد با تنظیم (Byzantium) کے نام سے 658 قبل مسیحی میں پڑی تھی ، اس وقت سے لے کر اس کی فتح تک انتیس بار اس شہر کا محاصرہ ہو چکا تھا۔ لیکن صرف آٹھ مرتبہ دشمن کی فوج اس کے اندر داخل ہو سکی ، وان ہیمر (Von Hammer) نے اپنی مستند اور ضخیم تاریخ دولت عثمانیہ میں ان تمام محاصروں کا ذکر کیا ہے، مسلمانوں نے بھی اس سے پہلے حضور نبی کریم مسلم کی پیشین گوئی کے یقین پر گیارہ بار قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا تھا۔ مسند امام خیل راسیہ کی روایت ہے کہ حضور نبی کریم سلام نے ارشاد فرمایا :
تم ضرور قسطنطنیہ فتح کر لو گے اور فوج بھی خوب ہے اور اس کا امیر بھی خوب ہے ۔“
نیز بخاری شریف مسلم شریف اور مسند ابن حنبل ریمیہ میں مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
میری اُمت کی پہلی فوج جو قیصر کے شہر پر حملہ آور ہوگی اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا ہے ۔
چنانچہ اس سعادت اور مغفرت کے حصول کے لیے سب سے پہلے حضرت امیر معاویہ نے 48ھ (668ء) میں ایک لشکر قسطنطنیہ کی فتح کے لیے روانہ کیا، اس مہم میں بہت سے صحابہ کرام نے بھی شرکت فرمائی ، مثلاً حضرت ابوایوب انصاری علی ، حضرت ابن عباس ، حضرت ابن عمر ، حضرت ابن زبیر ، حضرت عبادہ بن صامت ، حضرت ابودرداء وغیرہ، بعض روایتوں میں ہے کہ اس لشکر کے سپہ سالار حضرت سفیان بن عوف علیل تھے، بعض کے نزدیک اس کی قیادت یزید بن معاویہ کے ہاتھ میں تھی۔ محمد فرید بک نے لکھا ہے کہ مسلمانوں نے سب سے پہلے 34ھ بمطابق (654ء) میں حضرت علی المرتضی ﷺ کے زمانہ خلافت اور امیر معاویہ کی سرکردگی میں قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا۔ وان ہیمر نے بھی تصریح کی ہے کہ عربوں نے قسطنطنیہ کا محاصرہ پہلی مرتبہ 34ھ بمطابق (654ء) میں کیا اور اس فوج کے سپہ سالار حضرت امیر معاویہ تھے۔ لیکن اور تاریخوں سے اس بیان کی تصدیق نہیں ہوتی، بظاہر فرید بک کی روایت وان ہیمر ہی سے ماخوذ معلوم ہوتی ہے۔ وان ہیمر نے مسلمانوں کے دوسرے محاصرہ کی تاریخ 47ھ بمطابق (667ء) درج کی ہے اور یزید بن معاویہ کو سالار عسکر لکھا ہے، فرید بک نے بھی یہی نقل کیا ہے لیکن وہ اسے حضرت علی المرتضی کی خلافت کا زمانہ بتاتے ہیں، حالانکہ آپ اس محاصرہ سے سات سال قبل 40 ھ میں شہید ہو چکے تھے۔
بہر حال تیسرا محاصرہ وان ہیمر اور فرید بک کی روایت کی رو سے 52ھ (672ء) میں ہوا۔ حضرت امیر معاویہ نے حضرت سفیان بن عوف کو اس فوج کا سپہ سالار مقرر کیا تھا۔ اس کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ خلافت میں مسلمانوں نے 197ھ / بمطابق (715ء) میں قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا، پھر پانچواں حملہ خلیفہ ہشام کے عہد میں 121ھ/بمطابق (1739ء) میں ہوا۔ چھٹا مہدی عباسی کے زمانہ میں 164ھ/بمطابق (780ء) میں ہارون الرشید کے زیر قیادت ہوا اور ساتواں ہارون الرشید کے سپہ سالار عبد الملک نے 182ھ/بمطابق (1798ء) میں کیا۔ عربوں کے بعد عثمانی ترکوں کی باری آئی اور سلطان بایزید یلدرم نے دوبار محاصرہ کیا۔ اگر تیمور اور بایزید کے در میان تصادم نہ ہوگیا ہوتا تو 805ھ/بمطابق (1402ء) میں قسطنطنیہ کا ترکوں کے ہاتھ میں آجانا بظاہر یقینی تھا۔ بایزید کی وفات کے بعد اسکے لڑکے نے یہ حواہش پورا کرنا چاہی ،لیکن شہزادہ محمد مصلحت بنی اور بھائیوں کی باہمی جنگ کی وجہ سے یہ فتح نہ کر پائے۔ آخری بار سلطان مراد ثانی نے 825ھ/بمطابق (1422ء) میں اس شہر کی فتح کا عزم کیا مگر وہ شہنشاہ کی مزاحمت اور اظہار اطاعت سے متاثر ہو گیا اور محاصرہ اُٹھا لیا گیا۔غرض سلطان محمد ثانی سے پہلے مجاہدین اسلام گیارہ بار قسطنطنیہ کا محاصرہ کر چکے تھ،ے لیکن کامیابی کا سہرا اسی فاتح کا منتظر تھا اور صحابہ کرام کے مقدس خون نے جس چمن زار امید کی آبیاری کی تھی ، اس کے پھولوں کا تاج اس فیروز بخت کے لیے تیار ہو رہا تھا۔
جامع مسجد ایوب:۔
فتح کے تیسرے روز حضرت ابوایوب انصاری ﷺ کے مزار کا انکشاف ہوا، آپ نے 48ھ کے محاصرہ کے دوران میں وفات پائی تھی اور قسطنطنیہ کی فصیل سے متصل دفن ہوئے تھے۔ سلطان نے وہاں ایک مسجد تعمیر کرائی ، جس کا نام جامع ایوب ہے اور اس وقت سے یہ دستور ہو گیا تھا کہ تخت نشینی کے موقع پر ہر سلطان اسی مسجد میں جا کر عثمان اول کی تلوار کے ساتھ رسم ادا کی جاتی اور یہ تقریب رسم تاج پوشی کے قائم مقام بھی جاتی تھی۔
دیگر فتوحات:۔
اگر چہ قسطنطنیہ کی فتح سلطان محمد فاتح کا سب سے زیادہ شان دار کارنامہ ہے اور اسی بنا پر وہ فاتح کے لقب سے مشہور ہوا، تاہم یہ اس کے سلسلہ فتوحات کی محض پہلی کڑی تھی، اس کا تیس سالہ عہد حکومت تمام تر ملک گیری اور توسیع سلطنت ہی میں گزرا، یہ طویل مدت اس نے تقریباً یا مسلسل میدان جنگ میں صرف کیا اور شائد ہی کوئی مہم ایسی پیش آئی جس کے بعد اس کے یورپی یا ایشیائی مقبوضات میں کوئی نیا علاقہ شامل نہ ہوا ہو۔
یونان کی فتح:۔
پھر858ھ (1454ء) میں سلطان محمد فاتح نے یونان کا رخ کیا، وہاں قسطنطین کے دو بھائی دمتریس اور طامس دولت عثمانیہ کے باج گزار کی حیثیت سے علیحدہ علیحدہ حصوں پر حکمران تھے، انہوں نے سلطان کے پہنچنے کا انتظار نہیں کیا بلکہ اس کی خدمت میں اپنے سفیر بھیج کر فرماں برداری کا عہد کیا اور بارہ ہزار دوکات سالانہ خراج دینا منظور کیا۔
تبصرہ کریں