حضرت ذولقرنین کون تھے؟ایک ایسا بادشاہ جسکا ذکر قرآن میں آیا ہے۔

ذوالقرنین: تاریخ کا ایک عظیم حکمران:۔
مقدمہ: ذوالقرنین قرآن مجید میں ذکر ہونے والی ایک ایسی شخصیت ہیں جو اپنے زمانے میں عظمت، حکمت اور انصاف کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا ذکر سورۃ کہف (آیات 83-101) میں کیا گیا ہے۔ قرآن کی آیات میں ذوالقرنین کو ایک طاقتور حکمران کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو اپنے عدل و انصاف اور طاقت سے مشرق و مغرب میں پھیل گیا تھا۔ ان کے بارے میں کئی مختلف آراء اور قیاس آرائیاں کی گئی ہیں، جن میں سے سب سے مشہور خیال یہ ہے کہ وہ سکندرِ اعظم کے مترادف ہیں، مگر قرآن میں ان کی حکمرانی اور کارناموں کی تصویر بہت مختلف ہے۔
ذوالقرنین کا لقب: ذوالقرنین کا لقب "دو سینگوں والا" ہوتا ہے، جو ایک علامتی لقب ہے۔ اس لقب کی مختلف تشریحات کی گئی ہیں۔ بعض مفکرین کا کہنا ہے کہ "سینگوں" کا مطلب ہے کہ ان کی حکمرانی مشرق اور مغرب تک پھیل چکی تھی، جبکہ دیگر کا کہنا ہے کہ یہ لقب ان کے عظیم اقتدار کی علامت ہے۔
ذوالقرنین کی زندگی:۔
ذوالقرنین کے بارے میں قرآن میں ایک اہم بات یہ ہے کہ ان کا ذکر کسی خاص ملک یا علاقے کے حکمران کے طور پر نہیں کیا گیا، بلکہ ان کی سلطنت کی سرحدیں وسیع تھیں اور وہ مختلف اقوام کے ساتھ انصاف اور رہنمائی فراہم کرنے کے لیے سفر کرتے رہے۔ ان کی زندگی کے مختلف پہلو مندرجہ ذیل ہیں:
-
مشرق اور مغرب کاسفر: ذوالقرنین کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ مشرق و مغرب کے علاقوں میں سفر کرتے تھے۔ وہ ایک مرتبہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ تک پہنچے اور پھر سورج کے طلوع ہونے کی جگہ تک بھی گئے۔ قرآن میں ان کے ان سفرات کا ذکر کیا گیا ہے جس میں انہیں مختلف قوموں اور افراد کی مدد کرنے کا موقع ملتا ہے۔
-
یاجوج و ماجوج کا ذکر:۔ ذوالقرنین کی سب سے مشہور اور اہم کہانی وہ ہے جس میں انہوں نے یاجوج و ماجوج کے قبیلے سے بچاؤ کے لیے ایک دیوار تعمیر کی۔ قرآن کے مطابق یہ قبیلہ لوگوں کے لیے خطرہ تھا اور ان کے حملے سے بچنے کے لیے ذوالقرنین نے ایک بڑی دیوار بنائی، جو لوہے اور تانبے سے تیار کی گئی تھی اور اس میں اتنی طاقت تھی کہ یہ قبیلہ اس سے نہیں گزر سکتا تھا۔
اس دیوار کی تعمیر ایک شاندار منصوبہ بندی اور حکمت کی مثال ہے، اور یہ ذوالقرنین کی عظمت اور حکمت کا ایک واضح مظہر ہے۔ ان کی اس دیوار نے نہ صرف یاجوج و ماجوج کو روکا بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ ذوالقرنین کا اثر و رسوخ کس قدر وسیع تھا۔
-
الہی رہنمائی اور انصاف:۔ ذوالقرنین کے سفر کے دوران ہمیشہ ان کی رہنمائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی تھی۔ قرآن میں ان کا ذکر ایک نیک اور انصاف پسند حکمران کے طور پر کیا گیا ہے۔ وہ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آتے تھے اور کسی بھی قوم یا فرد کے ساتھ ظلم نہیں کرتے تھے۔ ان کی حکمرانی میں طاقت کا استعمال صرف تب کیا جاتا جب کوئی ظلم یا فساد پھیلانے کی کوشش کی جاتی۔
-
ذوالقرنین اور مختلف اقوام کے ساتھ تعلقات:۔ ذوالقرنین کا ایک اور اہم پہلو یہ تھا کہ وہ مختلف اقوام کے ساتھ تعلقات استوار کرتے تھے۔ ان کا ہر سفر مختلف قوموں کے ساتھ تعامل اور مفاہمت کا ایک ذریعہ بنتا تھا۔ وہ نہ صرف طاقتور حکمران تھے، بلکہ ان کے فیصلے اور عمل ایک اعلیٰ سطح کے اخلاقی معیار کو ظاہر کرتے تھے۔
ذوالقرنین کا اثر:۔
ذوالقرنین کی حکمرانی کے اثرات صرف ان کے دور تک محدود نہیں رہے بلکہ ان کی شخصیت اور ان کے فیصلے آج بھی ایک رہنمائی کا کام دیتے ہیں۔ ان کی زندگی کے مختلف پہلو، جیسے عدل، حکمت، طاقت کا درست استعمال، اور اللہ کی رہنمائی کے تحت فیصلے، آج بھی دنیا بھر کے حکمرانوں اور لوگوں کے لیے ایک سبق ہیں۔
ذوالقرنین کے بارے میں مختلف آراء:۔
قرآن میں ذوالقرنین کے بارے میں کوئی واضح تفصیل نہیں دی گئی ہے کہ وہ کون تھے اور کہاں سے آئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف مفکرین نے ان کی شخصیت کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیے ہیں:
-
سکندرِ اعظم کا مماثل: کچھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ذوالقرنین دراصل سکندرِ اعظم تھے۔ تاہم قرآن میں ان کی شخصیت کی جو تصویر پیش کی گئی ہے، وہ سکندر سے مختلف ہے۔ سکندر کی زندگی میں مختلف مذہبی عقائد اور ثقافتوں کی مخالفت کی گئی تھی، جبکہ ذوالقرنین کے بارے میں قرآن میں ان کی عادلانہ حکمرانی اور اللہ کی رہنمائی کا ذکر کیا گیا ہے۔
-
بابل کے بادشاہ کی تشبیہ: بعض روایات میں یہ کہا گیا ہے کہ ذوالقرنین کا تعلق بابل کے بادشاہ نبوکدنضر سے بھی ہو سکتا ہے، جو اپنے عظیم فوجی اور تعمیراتی کارناموں کے لیے مشہور تھا۔
ذوالقرنین کی شخصیت ایک نمونہ ہے جو آج بھی انصاف، حکمت اور حکمرانی کے اصولوں کی پیروی کرنے والوں کے لیے رہنمائی کا کام دیتی ہے۔ ان کے کارنامے اور ان کی زندگی کا پیغام یہ ہے کہ طاقت کا استعمال صرف اور صرف اللہ کے حکم کے تحت کرنا چاہیے اور ہمیشہ عدل و انصاف کی روشنی میں فیصلے کیے جانے چاہئیں۔
تبصرہ کریں