سلطنتِ عثمانیہ کے ساتویں سلطان محمد فاتح کی ابتدائی زندگی۔

شهزاده محمدریاست ایدین میں تھا، جب اسے مراد کی وفات کی اطلاع ملی، وہ فوراً ایک عربی گھوڑے پر سوار ہوا اور یہ کہتا ہوا کہ جو لوگ مجھے سے محبت کرتے ہیں، میرے ساتھ آئیں، درہ دانیال کی طرف روانہ ہو گیا اور اسے عبور کر کے ادر نہ پہنچا، تخت نشینی کے وقت ینی چری کی خوش نودی حاصل کرنے کی غرض سے اسے انعامات تقسیم کرنے پڑے، جس سے آئندہ کے لیے ایک مثال قائم ہو گئی اور ینی چری میں اپنی اہمیت کا مزید احساس پیدا ہو گیا۔
معصوم بھائی کا قتل:۔
زمامِ سلطنت کو ہاتھ میں لینے کے بعد سلطان محمد فاتح نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے شیر خوار بھائی کو جو سرویا کی شہزادی کے بطن سے تھا، آئندہ فتنہ کے خوف سے حوض میں غرق کر دیا۔ معصوم بچہ کا قتل عین اس وقت عمل میں آیا جب غریب و بے کس ماں سلطان کے حکم سے بالکل بے خبر اس کی تخت نشینی پر دربار میں تہنیت پیش کر رہی تھی۔
شہنشاہ قسطنطنیہ سے آویزش:۔
سلطان محمد کی تخت نشینی سے تین سال قبل بازنطینی سلطنت کا آخری فرماں روا قسطنطین یاز دہم قسطنطنیہ کے تخت پر بیٹھ چکا تھا۔ قسطنطین ایک بہادر شہزادہ تھالیکن شہزادےمحمد کو برافروختہ کرنے میں اس نے ایک شدید غلطی کی، جس کا خمیازہ اس کے پیش رو مینوئل کو مراد ثانی کے ہاتھوں بھگتنا پڑا تھا۔ سلطان بایزید یلدرم کا ایک پوتا اور خان نامی جو شہزادہ سلیمان کی اولاد سے تھا، قسطنطنیہ میں نظر بند تھا، اس کے مصارف سلطان کی طرف سے ادا ہوتے تھ۔ے قسطنطین نے اس رقم میں اضافہ کا مطالبہ کیا اور عدم منظوری کی صورت میں اور خان کو سلطان محمد کے مقابل کھڑا کر دینے کی دھمکی دی، اس نے اپنی غلطی سے یہ خیال کیا کہ محمد اب بھی ویسا ہی نا تجربہ کار ہے جیسا کہ چھ سال قبل تھا، اسے معلوم نہ تھا کہ اس قلیل مدت میں نوعمر سلطان کی قوتیں حیرت انگیز سرعت کے ساتھ ترقی پا چکی ہیں اور 21 سال کی عمر میں وہ ارادہ کی پختگی، فوجی قابلیت اور ملکی تنظیم و تدبیر میں اپنے پیش روؤں کا حریف بن چکا ہے۔ محمد اس وقت ایشیائے کو چک کی بعض شورشوں کو ختم کرنے میں مصروف تھا، اس نے بازنطینی سفرا کو نرمی سے جواب دے کر ٹال دیا، لیکن وزیر اعظم خلیل پاشا نے قسطنطین کو اس احمقانہ مطالبہ کے خطرات سے متنبہ کیا اور سفر اسے کہا کہ تمہارا جنون قسطنطنیہ کو سلطان کے ہاتھوں میں دے کر رہے گا، یورپ میں اور خان کے سلطان ہونے کا اعلان کرو، اہل ہنگری کو اپنی مدد کے لیے بلاؤ، جو صوبے تم واپس لے سکتے ہو، واپس لے لولیکن بہت جلد تم کو باز نطینی سلطنت کا خاتمہ بھی نظر آجائے گا ۔
قسطنطنیہ کی اہمیت:۔
اصل بات یہ ہے کہ ابتداہی سے سلطان محمد نے قسطنطنیہ کو اپنی سلطنت میں شامل کر لینے کا تہیہ کرلیا تھا۔ سینوپ اور طرابزون کے علاوہ قدیم بازنطینی سلطنت کے تمام ایشیائی علاقوں پر عثمانیوں کا قبضہ ہو چکا تھا، یورپ میں بھی صرف قسطنطنیہ اور اس کے مضافات اس سلطنت میں باقی رہ گئے تھے، قیاصرہ کی وہ عظیم الشان سلطنت جو اپنی وسعت اور قوت کے لحاظ سے کبھی دُنیا کی تمام سلطنتوں پر فوقیت رکھتی تھی ، اب تباہی اور بربادی کی آخری حد تک پہنچ گئی تھی اور جہاں تک وسعت اور قوت کا تعلق تھا، گو یا فنا ہو چکی تھی ، تاہم اس حالت میں بھی قسطنطنیہ کا وجود بجائے خود نہایت اہم تھا اور قصر سلطنت کی یہ پہلی اور آخری اینٹ ہنوز اپنی جگہ قائم تھی، ترکوں نے جس وقت یورپ کی سرزمین پر قدم رکھا ، اسی وقت سے اس شہر کو فتح کر لینے کا حوصلہ ان کے دلوں میں راسخ ہوتا گیا، جوں جوں فتوحات کا دائرہ بڑھتا جاتا تھا، ان کے ارادہ میں قوت آتی جاتی تھی اور بالآخر اس کا پہلا عملی اظہار بایزید یلدرم کے عہد میں ہوا، جب کہ اس نے آبنائے باسفورس کے مشرقی ساحل پر ایک مضبوط قلعہ تعمیر کرانے کے بعد قسطنطنیہ کا محاصرہ شروع کیا۔ لیکن محاصرہ کو چند ہی روز گزرے تھے کہ تیموری حملہ نے بایزید کو اسے محاصرہ اٹھا لینے پر مجبور کیا اور جنگ انگورہ کے بعد کچھ دنوں کے لیے قسطنطنیہ محفوظ ہوگیا۔
مراد ثانی اگر چہ شہنشاہ قسطنطنیہ سے آویزش پیدا کرنا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن خود شہنشاہ کی غداری نے اسے مجبور کیا کہ سلطنت عثمانیہ کی حفاظت کے خیال سے قسطنطنیہ پر قبضہ کر کے اس فتنے کا استیصال کر دے ، مگر سلطنت بازنطینی کے ایام حیات ابھی کچھ اور باقی تھے اور مراد کو بھی ایشیائے کو چک کی ایک بغاوت کے باعث محاصرہ اٹھا کر شہنشاہ کی اطاعت اور خراج قبول کرنے پر اکتفا کرنا پڑا، تاہم ترکوں کی نظریں اب بھی قسطنطنیہ پر جمی ہوئی تھیں، یہ شہر اپنے موقع کے لحاظ سے سلطنت عثمانیہ کا قدرتی پایہ تخت تھا، بحر مامورا کے دونوں ساحلوں پر عثمانیوں کی حکومت تھی لیکن جب تک قسطنطنیہ عیسائیوں کے قبضہ میں رہتا ، سلطان کے ایشیائی اور یورپی صوبوں کا در میانی تعلق کبھی محفوظ نہیں ہوسکتا تھا، لہذا علاوہ اس عظمت و شان کے جو اس تباہی اور بربادی کی حالت میں بھی بازنطینی سلطنت کے پایہ تخت سے وابستہ تھی، خود اپنی سلطنت کے استحکام کے لیے بھی قسطنطنیہ پر قبضہ کر لینا ناگزیر تھا، یہ مصالح بجائے خود محمد ثانی جیسے سلطان کو اس مہم پر آمادہ کرنے کے لیے کافی تھے قسطنطین کی دھمکی نے اسے اور زیادہ برانگیختہ کر دیا اور اس نے اپنے دور حکومت کے سب سے زیادہ عظیم الشان کارنامے کے لیے تیاریاں شروع کر دیں ۔
قسطنطنیہ پر حملہ کی تیاریاں:۔
اس غرض سے کر قسطنطنیہ کے محاصرہ کے دوران میں اسے کسی دوسری جانب متوجہ نہ ہونا پڑے۔ اس نے پہلے ایشیائے کو چک کی شورشوں کوفرو کیا اور امیر کرمانیہ سے صلح کر کے اس کی لڑکی سے عقد کر لیا، اس کے بعد تین سال کے لیے ہو نیاڈے سے بھی صلح کر لی، جس کی وجہ سے شمالی یورپ کی طرف سے کوئی خطرہ باقی نہ رہا، پھر اس نے ایک فوج موریا میں بھیج دی تا کہ شہنشاہ کے بھائی جو وہاں حکومت کرتے تھے، قسطنطنیہ کی مدد کرنے سے روک دیے جائیں ، ان تدبیروں سے فارغ ہو کر اس نے آبنائے باسفورس کے یورپی ساحل اور قسطنطنیہ سے تقریباً پانچ میل کے فاصلہ پر ایک زبر دست قلعہ تعمیر کرانا شروع کیا، یہ قلعہ بایزید یلدرم کے بنوائے ہوئے قلعہ کے جو آبنائے باسفورس کے ایشیائی ساحل پر واقع تھا، بالکل مقابل تھا۔ قسطنطین نے اس قلعہ کی تعمیر کے خلاف احتجاج کیا، لیکن بے سود، دورانِ تعمیر میں بعض ترکوں نے چند یونانی کاشت کاروں سے کچھ چھیڑ کی جس نے ایک چھوٹی سی لڑائی کی شکل اختیار کر لی اور اس میں فریقین کے چند سپاہی مارے گئے قسطنطین سمجھ چکا تھا کہ یہ ساری تیاریاں در اصل قسطنطنیہ پر حملہ کے لیے ہو رہی ہیں، اس نے خوف زدہ ہو کر شہر کا پھاٹک بند کرایا اور ایک وفد کے ذریعہ سے محمد ثانی کی خدمت میں ترک سپاہیوں کے طرز عمل کی شکایت کی، محمد نے اس شکایت کا جواب اعلانِ جنگ سے دیا ، اب سلطنت بازنطینی کی موت وزیست کا مسئلہ آخری فیصلے کا منتظر تھا۔
جدید قلعہ 856ھ (1452ء) کے موسم سرما سے قبل تیار ہو گیا، آبنائے باسفورس اب تمام ترکوں کے قبضہ میں تھی ، کوئی بحری جہاز بغیر ان کی اجازت کے اسے عبور نہیں کر سکتا تھا، اس قلعہ کی تعمیر کے بعد سلطان محمد جنگ کی دوسری تیاریوں میں مصروف ہوا، اس نے ادر نہ میں ڈیڑھ لاکھ فوج جمع کی لیکن قسطنطنیہ کی فتح کے لیے محض سپاہیوں کی تعداد کافی نہ تھی خواہ وہ کتنی ہی زیادہ رہی ہو، یہ شہر مثلث نما تھا جس کے دو حصے پانی میں گھرے ہوئے تھے، شمال میں شاخ زریں اور جنوب میں بحر مامورا تھا، بری فوجیں صرف تیسرے حصہ سے حملہ کر سکتی تھیں، جو مغرب کی جانب واقع تھا۔ لیکن اس کی حفاظت یکے بعد دیگرے تین زبردست دیواریں کر رہی تھیں، جو تو یوں کی ایجاد سے قبل ہر طرح کے حملہ سے محفوظ خیال کی جاتی تھیں، اندر کی دونوں دیواریں بہت موٹی تھیں اور ان پر ایک سوسترفٹ کے فاصلہ سے مضبوط برج بنے ہوئے تھے، ان دیواروں کے درمیان ساتھ فٹ کا فاصلہ تھا، باہر کی جانب دوسری اور تیسری دیوار کے بیچ میں ساٹھ فٹ چوڑی ایک خندق تھی، جو سوفٹ گہری تھی۔ یہ دیواریں پانچویں صدی عیسوی میں شہنشاہ تھیوڈوسیس ثانی (Theodosius) نے تعمیر کرائی تھیں اور اب تک اکیس محاصروں میں قسطنطنیہ کو دشمنوں کے قدم سے محفوظ رکھ چکی تھیں۔ قسطنطنیہ کی فتح کے لیے ضروری تھا کہ ان دیواروں پر کامیابی کے ساتھ گولہ باری کی جائے ، کچھ عرصہ سے ترکوں اور عیسائیوں نے جنگ میں توپوں کا استعمال شروع کر دیا تھا لیکن سلطان محمد نے مروجہ تو پوں کو ناکافی خیال کر کے نہایت عظیم الشان تو پیں بنوائیں، جو اپنی جسامت اور طاقت کے لحاظ سے بے نظیر تھیں، اربان (Urban) نامی ایک عیسائی انجینئر نے، جو ہنگری کا رہنے والا تھا اور بازنطینیوں کی ملازمت سے علیحدہ ہو کر سلطان کی خدمت میں چلا آیا تھا، ایک نہایت زبردست توپ ڈھالی ، جس کے سنگی گولوں کا قطر ڈھائی فٹ تھا، اس کے علاوہ اس نے اور بھی تو ہیں بنائیں جو نسبتاً چھوٹی تھیں لیکن زیادہ تیزی کے ساتھ گولے برسا سکتی تھیں ، محمد نے قسطنطنیہ کے محاصرہ کے لیے ایک 180 جہازوں کا ایک بیڑا بھی تیار کرایا ، وہ محاصرہ کی تیاریوں میں حد درجہ سنجیدہ تھا اور اس کے تمام سامان اپنی ذاتی نگرانی میں فراہم کر رہا تھا۔
مدافعت کی تیاریاں:۔
ادھر قسطنطین بھی مدافعت کی تیاریوں میں اسی قدر مصروف تھا، اس نے شہر کی دیواروں کی مرمت کرائی اور جو کچھ رسد ممکن تھی، بہم پہنچائی، اس کے بعد اس نے مغربی یورپ کے فرماں رواؤں سے مدد کی درخواست اور پوپ کی پوری اعانت اور ہمدردی حاصل کرنے کے لیے کلیسائے رومہ کے تمام مطالبات کو منظور کر کے یونانی کلیسا کو اس سے ملحق کر دیا، سینٹ صوفیا میں پوپ کے نمائندہ کارڈینل اسیڈور (Cardinal Isidore) کے زیر صدارت ایک مجلس منعقد ہوئی، جس میں شہنشاہ، اس کے درباری اور قسطنطنیہ کے تمام ملکی اور مذہبی عہدے دار شریک ہوئے اور کلیسائے قسطنطنیہ کو کلیسائے رومہ سے متحد کرنے کی تجویز کثرت رائے سے منظور کر لی گئی ، اس فیصلہ نے یونانی پادریوں کو بہت برافروختہ کیا اور شہر کی آبادی کے بڑے حصہ نے اس سے اپنی بے زارگی کا اعلانیہ اظہار کیا، دونوں کلیساؤں کے درمیان جو قدیم عناد چلا آتا تھا ، وہ اس نازک موقع پر بھی قائم رہا اور شہنشاہ کے اس فعل نے خود اس کی رعایا کی ایک کثیر تعداد کو اس سے ناراض کر دیا۔
گرانڈ ڈیوک نو ٹارس (Notaras) جو تمام افواجِ قسطنطنیہ کا سپہ سالار اور قسطنطین کے بعد سلطنت کی سب سے بڑی شخصیت تھا، اس قدر برہم تھا کہ اس نے صاف لفظوں میں یہ کہا کہ کارڈینل کی ٹوپی کے مقابلہ میں قسطنطنیہ میں ترکوں کے عمامے دیکھنا مجھے زیادہ گوارا ہے، نتیجہ یہ ہوا کہ خود یونانیوں میں دو جماعتیں ہو گئیں، ایک جو کلیسائے رومہ کی طرفدار اور اس نازک وقت میں اس کی مدد کی خواست گار تھی ، دوسری وہ جو اس حالت میں بھی کلیسائے رومہ سے اتحاد کر نے پر کسی طرح راضی نہ تھی ، دوسری جماعت طاقت کے اعتبار سے بڑی تھی، چنانچہ اس جماعت کے گر جاؤں نے شہنشاہ کو مالی مدد دینے سے انکار کر دیا اور اس میں سے جو لوگ جنگ میں شریک ہو سکتے تھے ، ان کی ایک بہت قلیل تعداد نے شہر کی حفاظت کے لیے آمادگی ظاہر کی ، قسطنطنیہ کی آبادی با وجود بہت کچھ کم ہونے کے ایک لاکھ کے قریب تھی۔ لیکن ترکوں کے مقابلہ میں قسطنطین کی حمایت کے لیے صرف چھ ہزار یونانیوں نے اپنی خدمات پیش کیں۔
مغربی یورپ کی سرد مہری:۔
قسطنطین نے مغربی یورپ سے مدد کی جو درخواست کی تھی، وہ بھی بہت ناکافی حد تک پوری ہوئی، پوپ نے آزمودہ کار سپاہیوں کی ایک تعداد اور کچھ مالی مدد کار ڈینل اسٹیڈور کے ساتھ روانہ کی، اٹلی اور اسپین کے بعض شہروں نے جو قسطنطنیہ سے تجارتی کاروبار رکھتے تھے، چند فوجی دستے بھیجے، دنیس اور اسپین کے صوبہ کٹالونیا اور اراگن نے کچھ مدد کی لیکن ان سب سے زیادہ قیمتی مدد اہل جنوا کی طرف سے آئی، مشہور جنوبی کمانڈر جان چسٹینیانی (John Giustinani) دو جنگی جہازوں اور سات سو منتخب بہادروں کے ساتھ محاصرہ شروع ہونے سے تھوڑی ہی دیر قبل آ پہنچا، یہ شخص اپنی شجاعت اور اعلیٰ فوجی قابلیت کے لحاظ سے تنہا ایک فوج کے برابر تھا، دوران محاصرہ میں اور خاص کر آخری حملہ کے روز اس نے ایسی جاں بازی کا ثبوت دیا کہ خود محمد ثانی کی زبان سےبے اختیار اس کی تحسین نکل گئی اور اس نے کہا: کاش یہ شخص میرے فوجی سرداروں میں ہوتا ۔بہر حال مغربی یورپ سے مختلف حکومتوں نے جو فوج بھیجی تھی اس کی مجموعی تعداد تین ہزار سے زیادہ نہ تھی اور ان کو شامل کرنے کے بعد قسطنطین کی تمام فوج صرف نو ہزار تک پہنچی تھی ، تعجب یہ ہے کہ قسطنطین کی درخواست کا کوئی اثر فرانس، جرمنی ، ہنگری اور پولینڈپر نہ ہوا اور یہ سلطنتیں جو بار بار ایک عظیم الشان اتحاد قائم کر کے ترکوں کو یورپ سے نکالنے کے لیے مذہبی جوش و خروش کے ساتھ آگے بڑھتی تھیں، قسطنطنیہ کے اس آخری لمحہ حیات میں جب کہ ان ہی ترکوں کے ہاتھوں سلطنت بازنطینی کا خاتمہ ہو رہا تھا ، کامل بے حسی اور بے پروائی کے ساتھ اپنے اپنے مقام سے اس منظر کو دیکھتی رہیں، بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ قسطنطین کے معاملہ سے یورپ کو زیادہ دلچسپی نہ تھی، مگر ہمارے نزدیک عیسائی سلطنتوں کے اس طرز عمل کا باعث کچھ اور ہی تھا، گزشتہ 65 سال کے اندر ترکوں کو یورپ سے خارج کر دینے کی غرض سے انہوں نے چار مرتبہ مذہبی اتحاد کے ذریعہ اپنی تمام قوتوں کو یکجا کیا لیکن ہر بار انہیں ہزیمت اٹھانی پڑی اور مسیحی اتحاد کا شیرازہ منتشر ہوتا گیا، کسووا (1389ء) ، نائیکو پولس (1396ء ) وارنا (1444ء) اور کسووا (1448ء) کی تباہ کن شکستیں اتنی تازہ تھیں کہ یورپ اس قسم کے کسی مزید تجربہ کے لیے تیار نہ تھا اور باوجود اس کے کہ قسطنطین نے اپنا اور اپنی سلطنت کا مذہب تبدیل کر کے کلیسائے رومہ کی اطاعت قبول کر لی اور وہ کر ڈالا جو صدیوں کی کوشش کے بعد بھی مغربی یورپ کی تمام قو تیں انجام نہ دے سکی تھیں، یورپ کے جمود میں کوئی محسوس حرکت پیدا نہ ہوئی اور قسطنطنیہ کی دیواروں کو آخر کارمحمد فاتح کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔
تبصرہ کریں