/ تاریخِ اسلام / خلافتِ عثمانیہ

سلطنتں عثمانیہ کے چھٹے سلطان "مراد ثانی"جنہوں نے وارنا کی جنگ میں یورپ کے صلیبی لشکر کو شکست دی تھی۔

سلطان محمد اول کی وفات پر اس کا بڑا لڑکا مراد جو ایشیائے کو چک میں سلطان کا قائم مقام تھا، اٹھارہ سال کی عمر میں تخت نشین ہوا۔ محمد اول نے اپنے مختصر زمانہ حکومت میں تیموری حملہ کے تمام اثرات مٹادیے تھے اور سلطنت کو گو یا از سر نو قائم کر کے مستقل و متحکم بنا دیا تھا۔ لیکن مراد کی نوعمری سے ان فرماں رواؤں کی ہمتیں بڑھ گئیں جن کو سلطان مرحوم نے اپنی قوت اور حکمت عملی سے سلطنت عثمانیہ کا حلیف و مطیع بنالیا تھا، سب سے پہلے شہنشاہ قسطنطنیہ نے ان تمام احسانات کو فراموش کر کے جو محمد اول نے اس کے ساتھ کیے تھے، آل عثمان کے ساتھ اپنے قدیم بغض و عناد کی بنا پر مراد کی کم سنی سے فائدہ اٹھانا چاہا اور مصطفیٰ نامی ایک شخص کو جو خود کو سلطان بایزید یلدرم کا لڑکا کہتا تھا اور تخت سلطنت کا دعوے دار تھا، مراد کے مقابلہ میں کھڑا کر دیا، یہ وہی مصطفیٰ تھا جو سلطان محمد اول کے مقابلہ میں بھی آیا تھا اور بالآخر شکست کھا کر قسطنطنیہ میں پناہ گزیں ہوا تھا اور جس کی نظر بندی کے معاوضہ میں شہنشاہ قسطنطنیہ سلطان سے ایک کثیر رقم ہر سال پاتا تھا۔

شہنشاہ نے اس معاہدہ کے ساتھ کہ بہ شرط کامیابی وہ گیلی پولی نیز بحر اسود کے ساحل کے تمام بازنطینی شہر جو سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لیے گئے تھے، شہنشاہ کو واپس کر دے گا، مصطفیٰ کو رہا کر دیا اور اپنی فوج کے ساتھ قسطنطنیہ سے روانہ کیا ، مراد اس وقت ایشیائے کو چک میں تھا، اس نے مصطفیٰ کے مقابلہ میں ایک فوج بایزید پاشا کی سرکردگی میں بھیجی لیکن یورپ میں تر کی افواج کا بیش تر حصہ مصطفیٰ کا طرفدار ہو گیا تھا، بایزید پاشا کو شکست ہوئی اور وہ مارا گیا ، اس کے بعد مصطفیٰ شہنشاہ قسطنطنیہ کے فراہم کیے ہوئے جہازوں میں درہ دانیال کو عبور کر کے ایشیائے کو چک میں پہنچا، مراد نے بڑی لیاقت اور شجاعت سے اس کا مقابلہ کیا اور  مصطفیٰ بھاگ کر گیلی پولی میں محصور ہو گیا ، مراد نے گیلی پولی کو فتح کر کے مصطفیٰ کو گرفتار کر لیا اور اس کو سولی دے دی۔ اس طرح اس آخری فتنہ کا بھی خاتمہ ہو گیا جس کا سلسلہ بایزید یلدرم کی وفات کے بعد اس کے لڑکوں کی باہمی آویزش اور قوت آزمائی سے شروع ہوا تھا۔

 

قسطنطنیہ کا محاصرہ:۔

ادرنے میں مراد نے شہنشاہ کی اس غداری کے جواب میں قسطنطنیہ کو فتح کرنے کا فیصلہ کر لیا اور 825ھ (1422ء) میں اس شہر کے محاصرہ کے لیے 20 ہزار فوج کے ساتھ پہنچ گیا، بازنطینیوں نے نہایت بہادری اور مذہبی جوش کے ساتھ ترکوں کا حملہ رو کا مراد نے اس محاصرہ میں جس غیر معمولی فوجی لیاقت کا ثبوت دیا ، اس کی مثال اس عہد کی فوجی تاریخ میں شاذ و نا درملتی ہے، قوی امید تھی کہ بالآخر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوکر رہے گا لیکن شہنشاہ نے ایسی تدبیر اختیار کی ، جس سے مراد کو مجبوراً محاصرہ اُٹھا کر اپنی سلطنت کی حفاظت کے لیے ایشیائے کو چک کا رُخ کرنا پڑا ، مراد کا ایک چھوٹا بھائی مصطفی نامی تھا، قسطنطنیہ کے محاصرہ کے وقت وہ ایشیائے کوچک میں تھا ، شہنشاہ نے کوشش کر کے اس کو مراد کے مقابلہ میں کھڑا کر دیا، امیر کرمانی اور امیر کرمیان نے اس کی مدد کی اور مصطفیٰ نے ان کی مدد سے ایشیائے کو چک میں مراد کی ایک فوج کو شکست دے کر اپنے سلطان ہونے کا اعلان کر دیا، یہ خبر سن کر مراد قسطنطنیہ کا محاصرہ چھوڑ کر فوراً ایشیائے کو چک پہنچا، مصطفیٰ کی فوج کو شکست ہوئی اور وہ خود گرفتار کر لیا گیا ، اس کے گرفتار کرنے والوں نے مراد کے علم و اجازت کے بغیر اسی وقت اس کو سولی پر چڑھا دیا۔

 

تر کی ریاستوں کی اطاعت:۔

اس فتنہ کو فرو کرنے کے بعد مراد ایشیائے کو چک کی ان تر کی ریاستوں کی طرف متوجہ ہوا، جو تیموری حملہ کے بعد سلطنت عثمانیہ سے بالکل آزاد ہو گئی تھیں اور اس کی بیخ کنی کی ہر ممکن کوشش کرتی رہتی تھیں، امیر کر مانیہ ان سب میں پیش پیش تھا، مراد کے خلاف مصطفیٰ کو کھڑا کرنے میں بھی زیادہ تر اس کا ہاتھ تھا، اس کا یہ طرز عمل اس قدیم عناد پر بنی تھا جو آل عثمان اور کرمانیہ کے درمیان ابتدا سے چلا آتا تھا، چنانچہ مراد نے اس کی سرکوبی کے لیے کر مانیہ پر حملہ کیا اور محمد بک کو قتل کر کے اس کے لڑ کے ابراہیم کو وہاں کا امیر بنایا ، اس نے کر مانیہ کو اپنی سلطنت میں شامل نہیں کیا، بلکہ صرف اس کے باج گزار ہونے پر قناعت کی ، یہی معاملہ اس نے دوسری ریاستوں مثلاً گرمیان، قسطمونی، منتشا، صادو خاں اور حمید وغیرہ کے ساتھ بھی کیا اور ان سب کو سلطنت عثمانیہ کا مطیع اور باج گزار بنالیا، اس طرح ایشیائے کو چک میں آل عثمان کا وہی اقتدار پھر قائم ہو گیا ، جو جنگ انگورہ سے پہلے تھا، امیر قسطمونی باج گزار ہونے کے علاوہ اپنی نصف ریاست سے بھی سلطان کے حق میں دست بردار ہو گیا اور اپنی بیٹی اس کے نکاح میں دے دی ۔ 831ھ (1428ء) میں امیر کرمیان لا ولد مر گیا ، اس کی وصیت کے مطابق ریاست کرمیان سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لی گئی۔

شہنشاہ سے صلح اور چند جدید مقبوضات:۔

ایشیائے کو چک میں امن و امان قائم کرنے کے بعد سلطان مراد 827ھ (1424ء) میں یورپ کو واپس ہوا، اس درمیان میں شہنشاہ مینویل کا انتقال ہو چکا تھا اور اس کی جگہ اس کا لڑکا جان  پیلیولوگس  قسطنطنیہ کا فرماں روا تھا، مراد نے دوبارہ قسطنطنیہ کا محاصرہ نہیں کیا، بلکہ ان نے  جان سے صلح کر لی، جان نے 30 ہزار دوکات سالانہ خراج دینے کا وعدہ کیا اور سیمبریا  اور دوکوس کے سوازیتون اور تمام دوسرے یونانی شہر جو دریائے اسٹرانیا اور بحر احمر کے ساحل پر باقی رہ گئے تھے، سلطان کے حوالے کر دیے، یوں بازنطینی سلطنت کا خاتمہ چنددنوں کے لے اور ملتوی ہوگیا۔

 

سالونیکا کی فتح:۔

سالونیکا بازنطینی سلطنت کا ایک مشہور اور نہایت اہم شہر تھا، گزشتہ سو سال کے اندر یہ تین بار ترکوں کے قبضہ میں آیا لیکن کچھ دنوں کے بعد ہر بار یونانیوں نے اسے واپس لے لیا، شہنشاہ جان کے دور حکومت میں اس کا حاکم شہنشاہ کا بھائی اینڈ روٹیکس تھا، اینڈ رو ٹیکس نے غداری کر کے اس شہر کو وینس کے ہاتھوں فروخت کر دیا، چونکہ یہ مقدونیا کا ایک اہم شہر تھا اور اس سے قبل تین بار ترکوں کے قبضہ میں رہ چکا تھا، اس لیے مراد نے اس معاملہ بیع کی مخالفت کی اور 833ھ (1430ء) میں سالونیکا کو بہ زور شمشیر فتح کر کے اس کے ملحق علاقہ کے سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لیا۔

 

سرویا کی فتح:۔

سالونیکا کی فتح کے بعد مراد اپنی سلطنت کی شمال مغربی سرحد کی جانب متوجہ ہوا، 830 (1420ء) میں اسٹیفن لازار یویچ شاہ سردیا کا انتقال ہو گیا اور اس کی جگہ جارج بر نیکو یچ تخت نشین ہوا، اسٹیفن اس معاہدہ کے مطابق جو اس نے جنگ کسووا کے بعد بایزید یلدرم سے کیا تھا، ہمیشہ سلطنت عثمانیہ کا ایک وفادار حلیف رہا، اس نے اپنی بہن شہزادی ڈسپنا کو بایزید کے نکاح میں دے کر اس تعلق کو اور زیادہ مضبوط کر دیا تھا لیکن جارج کو مراد کے ساتھ کوئی ذاتی تعلق نہ تھا ، اس نے تخت نشینی کے بعد سرویا میں ترکوں کے اقتدار کی مخالفت شروع کر دی، اس نے ترکوں کے خلاف ہنگری سے باہمی امداد کا معاہدہ کیا اور دریائے ڈینوب کے ساحل پر سمندریا میں ایک مضبوط قلعہ تعمیر کرایا، مراد نے جارج کے معاندانہ ارادوں سے واقف ہو کر اس قلعہ کا مطالبہ کیا اور انکار پر جارج کے مقابلہ کے لیے بڑھا، سرویا کوشکست ہوئی اور پورے ملک پر تر کی افواج کا قبضہ ہو گیا ، 844ھ (1440ء) میں سرویا تمام تر ترکوں کے تسلط میں آگیا۔

عیسائی حکومتوں میں ایک نئی تحریک:۔

ہنگری کو جنگ انور کے بعد سلطنت عثمانی سے آزادی کا موقع مل گیا تھا اور وہ رفتہ رفتہ استحکام حاصل کرتا جاتا تھا، مرادکےابتدائی دور حکومت میں وہ اتنی قوت حاصل کر چکا تھا کہ ترکی حملہ کی مدافعت کر سکے۔ سرویا پرترکوں کا قبضہ ہوجانے کے بعد ہنگری کے سرحدی علاقوں میں دونوں سلطنتوں کے درمیان اکثر چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں ، اہل بوسنیا بھی ترکوں کی قربت سے خائف تھے، البانیا کواپنی آزادی کی طرف سے خطرہ تھا اور ولا چیا جو سلطنت عثمانیہ کا باج گزار تھا، اپنی خود مختاری کے لیے بے تاب تھا، تاہم مراد کی تخت نشینی سے تقریباً20 سال بعد تک ان مختلف عیسائی حکومتوں کے درمیان کوئی اتحاد قائم نہ ہو سکا اور ان میں سے ہر حکومت علیحدہ علیحدہ مراد سے جنگ اور مسلح کرتی رہی۔ لیکن جب 844ھ (1440ء) میں لاؤڈ سلاس شاہ پولینڈ ہنگری کے تخت پر بیٹھا تو سلطنت عثمانیہ کے دشمنوں کی قوت بہت کچھ بڑھ گی اور ایک متحدہ مقابلہ کا حوصلہ ان میں پیدا ہوا، اس حوصلہ کا محرک حقیقتاً ایک فوجی سردار ہونیاڈے نامی تھا، جو حال ہی میں مغربی یورپ سے واپس آیا تھا اور جس کی غیر معمولی شجاعت کا شہرہ تمام ملک میں پھیلا ہوا تھا، ہو نیاڈے نے ہنگری پہنچ کر ترکوں کے مقابلہ کا بیڑا اُٹھایا اور 20 سال تک برابر سلطنت عثمانیہ سے جنگ کرتا رہا۔

 

بلغراد:۔

پھر846ھ/بمطابق (1442ء) میں مراد کو بلغراد کے حملہ سے ناکام واپس ہونا پڑا، یہ دریائے ڈینوب کے ساحل پر سر ویا کا ایک نہایت اہم شہر تھا۔ لیکن 830ھ/بمطابق (1427ء ) سے ہنگری کا مقبوضہ تھا ، ہنگری میں داخل ہونے کے لیے اس شہر کی فتح ناگزیر تھا ، مراد نے اسی خیال سے اس کا محاصرہ کیا لیکن ہنگری کے عزم و استقلال کے مقابلہ میں آخر کار اسے شکست کھا کر پسپا ہونا پڑا۔

 

ہو نیا ڈے کی کامیابی:۔

اسی زمانہ میں عثمانی جنرل مزید پاشا ٹرانسلوانیا میں ہر مان اسٹاٹ کا محاصرہ کیے ہوئے تھا، ہو نیا ڈے اس قلعہ کی مدد کے لیے بڑھا اور ایک مختصر فوج کے ساتھ ترکوں کے عظیم الشان لشکر کو شکست دی، اس معرکہ میں 20 ہزار ترک مارے گئے ، ہو نیا ڈے نے مزید پاشا اور اس کے لڑکے کو اپنے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، اس کی لہو کی پیاس کسی طرح بھی  نہ بجھتی تھی ، مقتولوں کی چیخ اور تڑپ میں اسے خاص لذت محسوس ہوتی تھی، چنانچہ اس فتح کے بعد جب وہ اپنے ساتھیوں کو لے کر دستر خوان پر بیٹھا تو اسی وقت ترک قیدیوں کو سامنے بلا کر سب کو نہایت بے دردی سے قتل کر دیا ، ہر فتح کے بعد جو دعوت ہوتی تھی اس میں مہمانوں کو یہ خونیں تماشا بھی ضرور دکھایا جاتا تھا، یہ ہو نیا ڈے اور ترکوں کا پہلا مقابلہ تھا، مراد نے اس شکست کی خبر سن کر 80 ہزار کی ایک دوسری فوج شہاب الدین پاشا کی سرکردگی میں روانہ کی، واز اگ سے مقابلہ ہوا اور ہو نیاڈے نے عثمانی لشکر کو پھر شکست دی۔

صلیبی اتحاد:۔

ہو نیاڈے کی شان دار کامیابی اور ترکوں کی پے در پے شکستوں سے یورپ کی تمام حکومتوں میں امید کی ایک لہر دوڑ گئی اور یورپ سے ترکوں کو نکال دینے کے لیے ایک زبردست عیسائی اتحاد قائم کر لیا گیا ، شاہ لاڈ سلاس جو اس وقت ہنگری اور پولینڈ دونوں مملکتوں کا فرماں روا تھا، اس تحریک کا روح رواں تھا، اس اتحاد میں ہنگری، پولینڈ، ولا چیا اور بوسنیا کی قومیں اپنی پوری قوت کے ساتھ شریک ہوئیں، سرودیا بھی جو اسٹیفن کے عہد میں عثمانیوں کا نہایت وفادار حلیف تھا، اب اس کے جانشین جارج بر نیکو دیچ کیسرکردگی میں اتحادیوں کی صف میں شامل ہو گیا، فرانس اور جرمنی نے مبارزین کی ایک کثیر فوج بھیجی ، اس کے علاوہ یورپ کے ہر ملک سے ایک بڑی تعداد سپاہیوں کی خود آ کر شریک ہوئی لیکن سب سے زیادہ جوش پوپ نے دکھایا ، اس نے اپنے نمائندہ کارڈینل جولین سیز راینی (Julian Cesurini) کو ایک مسلح فوج کے ساتھ روانہ کیا اور یورپ کے ہر حصہ سے اس جنگ کے لیے ایک کثیر رقم فراہم کر کے بھیجی ، حقیقتاً یہ ایک صلیبی جنگ تھی، جو عیسائیت کے مذہبی جوش نے اسلام کے خلاف چھیڑی تھی ، جمہور یہ ونیس اور جمہور یہ جنوا نے بھی اپنے بحری بیڑوں سے مدد کی اور چونکہ عثمانیوں کے پاس اس وقت تک کوئی بحری فوج نہ تھی ، اس لیے خیال تھا کہ مراد کی خاص فوجیں ایشیائے کو چک سے جہاں وہ امیر کرمانی سے جنگ میں مصروف تھیں، یورپ میں نقل نہ کی جاسکیں گی ، اتحادی افواج بہ ظاہر شاہ لاڈ سلاس کے زیر کمان تھیں لیکن دراصل ان کا سردار ہو نیاڈے تھا، جو اس وقت مسیحی دنیا کا سب سے بڑا جنرل خیال کیا جاتا تھا۔

 

ترکوں کی شکست:۔

مراد اس وقت کر مانیہ کی بغاوت کے سلسلہ میں ایشیائے کو چک میں تھا، اس کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھا کر عیسائی لشکر نے 847ھ (1443ء) میں دریائے ڈینوب کو عبور کیا اور نیش کے مقام پر عثمانی فوج کو شکست دی ، اس کے بعد ہو نیاڈے نے صوفیا پر قبضہ کر لیا اور پھر کوہ بلقان کو عبور کر کے فلیو پولس پر حملہ کی تیاری شروع کی ، کوہ بلقان کے دامن میں ترکوں نے ایک بار اور مقابلہ کیا لیکن اس مرتبہ بھی ان کو شکست ہوئی ، عیسائیوں کے لیے میدان اب خالی تھا، مسلسل فتوحات سے ان کی ہمتیں بڑھی ہوئی تھیں، مراد ایشیائے کو چک میں تھا اور پہم شکستوں نے ترکی فوج کو بہت کچھ کمزور کر دیا تھا ، ہو نیا ڈے نے اس مقصد کے خلاف  واپسی کا عزم کیا اور اپنی کامیابیوں کی داد لینے کے لیے پوری فوج کے ساتھ بودا کو واپس چلا گیا۔

 

صلح نامه زیجیڈین:۔

مراد نے ہو نیاڈے کا تعاقب کرنے کے بجائے اتحادیوں سے صلح کر لینا زیادہ مناسب خیال کیا، کارڈینل جولین صلح کا مخالف تھا لیکن طویل گفت و شنید کے بعد بالآخر 26 ربیع الاول 848ھ (12 جولائی 1444ء) کو زیجیڈین (Szegeddin) کے مقام پر ایک صلح نامہ مرتب ہوا، جس کی رو سے سرو یا سلطنت عثمانیہ سے آزاد کر دیا گیا اور ولا چیا ہینگری کو دے دیا گیا ، اس کے علاوہ مراد نے ساٹھ ہزار دوکات عثانی جنرل محمد چلبی کا زرفد یہ ادا کیا، جو گزشتہ جنگ میں عیسائیوں کے ہاتھ گرفتار ہو گیا تھا، صلح  دس سال کے لیے کی گئی ، اس پر پابند رہنے کے لیے لاڈ سلاس نے انجیل اور مراد نے قرآن کو ہاتھ میں لے کر قسم کھائی تھی۔

 

مراد کی تخت سے کنارہ کشی:۔

ایشیائے کو چک میں امن پہلے ہی قائم ہو چکا تھا، اس صلح نامہ سے یورپ کی جنگ کا بھی بہ ظاہر خاتمہ ہو گیا اور مراد کو ایک گونہ اطمینان حاصل ہوا، بیس بائیس سال کی مسلسل لڑائیوں نے اس کو اب امور سلطنت کی طرف سے دل برداشتہ کر دیا تھا اور وہ چاہتا تھا۔کہ بقیہ زندگی سکون کے ساتھ گزار دے، صلح نامہ زیجڈین  کے  بعد جب وہ ایشیائے کو چک میں واپس گیا تو اسے اپنے بڑے بیٹے شہزادہ علاؤ الدین کی وفات کی خبر معلوم ہوئی، یہ شہزادہ نہایت لائق اور بہادر تھا، مراد کواس کی وفات کا بے حد رنج ہوا اور اس نے سلطنت سے مستقل طور پر کنارہ کش ہو جانے کا فیصلہ کر لیا، چنانچہ اپنے دوسرے لڑکے محمد کو جس کی عمر صرف 14 سال تھی ، تخت پر بٹھا کر وہ ریاست ایدین میں چلا گیا۔

 

عیسائیوں کی معاہدہ شکنی:۔

لیکن جس زندگی کی تلاش میں مراد نے گوشہ نشینی اختیار  کی تھی  وہ حاصل نہ ہو سکی ، جوں ہی یہ خبر مشہور ہوئی کہ مراد سلطنت سے کنارہ کش ہو گیا ہے اور اس کی جگہ نو عمر اور نا تجربہ کار محمد تخت نشین ہے، عیسائیوں کے دلوں میں ترکوں کو یورپ سے خارج کر دینے کا حوصلہ ایک بار پھر پیدا ہوا صلح نامہ زنجیڈین کی تحریر کو بھی ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ ہنگری کی مجلس قومی نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کا فیصلہ کر لیا ، اس غداری کا اصل محرک کارڈینل جولین تھا جو پوپ کی پوری تائید کے ساتھ معاہدہ شکنی پر زور دے رہا تھا۔کہ شہنشاہ قسطنطنیہ بھی اس تحریک میں پیش پیش تھا ، حالات تمام تر عیسائیوں کے لیے امید افزا تھے، سلطنت عثمانیہ کی زمام حکومت ایک نو عمر لڑکے کے ہاتھ میں تھی، ایشیائے کو چک میں امیر کرمانیہ نے پھر بغاوت شروع کر دی تھی اور عثمانی فوجیں اس کو فرد کرنے میں مصروف تھیں، درہ دانیال پر جنوا، وینس اور برگنڈی کے بحری بیڑوں کا قبضہ تھا، جن کی موجودگی میں ترکی افواج کا ایشیائے کو چک سے یورپ میں آنا محال تھا، پھر بھی لاڈ سلاس شاہ ہنگری کو صلح نامہ کی خلاف ورزی کرنے میں تامل تھا لیکن کارڈینل جولین نے اپنے مذہبی اثر سے کام لے کر اس کو مجبور کر دیا اور بادشاہ کے ضمیر کو اس فتویٰ سے مطمئن کر دیا کہ غیر عیسائیوں کے ساتھ معاہدہ کی پابندی نہیں کرنی چاہیے ۔ ہنگری کی مجلس قومی کے بعض ارکان کی مخالفت بھی اس فتوی سے دبا دی گئی اور جولین نے مجلس میں اعلان کیا کہ اس فتوی میں خود پوپ کی تائید بھی شامل ہے، اس نے مجلس کو مخاطب کر کے کہا:

"کیا تم اس موقع پر ان امیدوں کو توڑ دو گے جو لوگوں نے تمہارے ساتھ قائم کر رکھی ہیں اور اس خوش بختی سے فائدہ اٹھاؤ گے جو تمہیں نصیب ہوئی ہے، تمہارا عہد و پیمان تمہارے خدا اور تمہارے بہن بھائیوں کے ساتھ ہے اور وہ سابق معاہدہ اس نا عاقبت اندیشانہ اور مخالف مذہب عہد کو ساقط کر دیتا ہے، جو مسیح کے دشمنوں سے باندھا گیا ہو،دنیا میں اس کا نائب پاپائے رومہ ہے، جس کی اجازت کے بغیر تم نہ کوئی وعدہ کر سکتے ہو اور نہ اسے پورا کر سکتے ، اس کی طرف سے میں تم کو دروغ حلفی سے بری الذمہ کرتا ہوں اور تمہاری فوج کو برکت دیتا ہوں، شہرت اور نجات کی راہ پر میرے پیچھے پیچھے چلو اور اگر اب بھی تمہیں کچھ پس و پیش ہے تو میں اس گناہ کا وبال اپنے سر لیتا ہوں "

 

ابتدا میں ہو نیاڈے نے بھی معاہدہ زیجیڈین کی خلاف ورزی سے اختلاف کیا لیکن جب یہ وعدہ کیا گیا کہ بلغاریا کو ترکوں سے فتح کرنے کے بعد اسے وہاں کا بادشاہ بنا دیا جائے گا تو وہ راضی ہو گیا، البتہ اس نے یہ شرط کی کہ معاہدہ شکنی کا اعلان یکم ستمبر تک ملتوی کر دیا جائے،تا کہ اس وقت اتحادی صلح نامہ سے پورا فائدہ اٹھالیں اور ان تمام قلعوں اور علاقوں پر قابض ہو جائیں جنہیں ترک معاہدہ کے مطابق دیانت داری ے ساتھ خالی کر رہے تھے ۔

لین پول لکھتا ہے کہ جس طریقہ سے یہ غداری عمل میں لائی گئی اس سے زیادہ معیوب بات یورپ کے سورماؤں اور ایک بڑے سپہ سالار کی شہرت کے لیے تصور میں بھی نہیں لائی جاسکتی، جس قت عثمانی دستے مذکورہ بالا قلعوں اورعلاقوں سے نکل آئے اور اتحادیوں نے صلح نامہ سے پوری طرح فائدہ اٹھا لیا، شاہ لاڈ سلاس، کارڈینل جولین اور ہو نیا ڈے یکم ستمبر کو 20 ہزار فوج کے ساتھ سلطنت عثمانیہ پر حملہ کرنے کی غرض سے روانہ ہوئے، ترک اس فریب سے بالکل بے خبر تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ متعدد قلعے ان کے ہاتھ سے نکل گئے قلعوں کے ترکی دستے قتل کر دیے گئے یا چٹانوں سے گرا کر ہلاک کر دیے گئے ، بحر اسود کے ساحل پر پہنچ کر حملہ آوروں نے جنوب کا رخ کیا اور کئی اہم مقامات کو فتح کرتے ہوئے وارنا پہنچے اور اس مشہور شہر کا محاصرہ کر لیا، یہاں بھی ترک اس اچانک اہم حملہ کے لیے بالکل تیار نہ تھے، مجبوراً انہیں ہتھیار ڈال دینے پڑے اور وارنا پر بھی عیسائیوں کا قبضہ ہو گیا ۔

 

جنگ وارنا:۔

اس درمیان میں دولت عثمانیہ کے بہی خواہوں نے ان واقعات کی خبر سن کر مراد سے گزارش کی کہ یہ وقت گوشہ عزلت سے نکل کر میدانِ جنگ میں آنے کا ہے، ورنہ شہزادہ محمد کی نوعمری اور نا تجربہ کاری سے فائدہ اٹھا کر دشمن بڑھتے چلے آئیں گے، چنانچہ مراد به عجلت تمام چالیس ہزار جنگ آزمودہ سپاہیوں کو لے کر اتحادیوں کے مقابلہ کے لیے روانہ ہوا، دورۂ دانیال پر عیسائی بیڑوں کا قبضہ تھا۔ لیکن اس نے جنوا کے جہازوں کو فی سپاہی ایک دوکات کی شرح سے محصول ادا کر کے اپنی پوری فوج کو یورپ میں منتقل کر دیا، اتحادیوں کو مراد کی آمد کا گمان بھی نہ تھا کہ اچانک انہیں اس کے قریب پہنچنے کی اطلاع ملی ، مراد نے وارنا سے چار میل کے فاصلہ پر اپنے خیمے نصب کر دیے اور جنگ کی تیاری کرنے لگا۔

ہو نیاڈے کو سابق کامیابی کی بنا پر اپنی فتح کا پورا یقین تھا، چنانچہ اس نے مجلس حربی کے بعض اراکین کا یہ مشورہ بھی قبول نہ کیا کہ لشکر گاہ کے گردنا کہ بندی کر کے مراد کے حملہ کا انتظار کرنا چاہیے بلکہ خود ہی مراد پر حملہ کرنے کے لیے پوری فوج کے ساتھ چل کھڑا ہوا، 26 رجب 848ھ بمطابق 10 نومبر 1444ء کو دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہوئیں کہ عیسائی فوج کے پاس ہنگری اور ولا چیا کے بہترین دستے تھے ، ہنگری کے دستوں کے ساتھ کارڈینل جولین کی سرکردگی میں صلیبی مجاہدوں کی ایک خاص جماعت بھی تھی ، لاڈ سلاس شاہی دستہ اور ہنگری اور پولینڈ کے نوجوان امرا کو لے کر قلب لشکر کو قوت پہنچا رہا تھا، ہو یاڈے پوری فوج کا سپہ سالار اعظم تھا، ترکوں کی طرف پہلی دو میں بے ضابط سوار اور پیدل فوجوں کی تھیں، داہنے باز و کی کمان رومیلیا کے بیلر بے کے ہاتھ میں اور بائیں بازو کی اناطولیہ کے بیلر بے کے ہاتھ میں تھی او ان صفوں کے پیچھے مرکز میں خود سلطان مراد کے زیر کمان ینی چری اور شاہی سوار دستے تھے، ایک اونچے نیزہ کے سرے پر صلح نامہ زیجڈین  کی نقل فوجی نشان کی طرح ہوا میں لہرارہی تھی۔لڑائی شروع ہونے کے قریب ہی تھی کہ ایک  ایساواقعہ پیش آیا،جس سے عیسائیوں کے دلوں میں بد شگونی کا خطرہ پیدا ہوا، ایک جھونکا آیااور سوائے بادشاہ کےباقی علم کے زمین پر گر گئے۔

ابتدا میں عیسائیوں کا حملہ بہت کامیاب رہا، ترکوں کی پہلی دو صفوں کے قدم اکھڑ گئے اور فوج میں اتنا انتشار پیدا ہوا کہ مراد کو اپنی شکست کا یقین ہونے لگا، زندگی میں پہلی اور آخری بارصبر و استقلال کا دامن ایک لمحہ کے لیے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور اس نے گھوڑا موڑ کر بھاگنے کا قصد کیا لیکن اناطولیہ کے بیلر بے نے جو قریب ہی تھا، بڑھ کر لگام پکڑ لی اور عرض کی کہ ابھی مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں، مراد کو بھی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے فوراً گھوڑا روک کر ینی چری کو ہمت دلانا شروع کی ، دیکھتے دیکھتے جنگ کا نقشہ بدل گیا، ینی چری نے پے در پے اتنے سخت حملے کیے کہ عیسائی پسپا ہونے لگے، لاڈ سلاس نہایت بہادری سے لڑ رہا تھا لیکن اس کا گھوڑا زخمی ہو کر گرا اور بعض ینی چری سپاہیوں نے اسے گھیر کر گرفتار کر لیا ، لاڈ سلاس نے خواہش کی کہ اسے قید کر لیا جائے ، مگر ترکوں میں عیسائیوں کی معاہدہ شکنی سے اس درجہ برہمی پھیلی ہوئی تھی کہ انہوں نے اس کی خواہش پر مطلق توجہ نہ کی ، ایک پرانے ینی چری خواجہ خیری نے فورا اس کا سرکاٹ کر ایک نیزے پر رکھا اور نیزے کو بلند کر کے عیسائیوں کی طرف بڑھا۔ امرائے ہنگری کے دل اس منظر کو دیکھتے ہی بیٹھ گئے اور وہ نہایت بدحواسی کے عالم میں میدان چھوڑ کر بھاگے ۔ ہو نیا ڈے نے تھوڑی دیر تک جم کر مقابلہ کیا اور اس بات کی کوشش کرتا رہا کہ کم سے کم لا ڈسلاس کا سر ترکوں سے چھین کر اپنے قبضہ میں کرلے، مگر اسے کامیابی نہ ہوئی اور آخرکار وہ بھی بقیہ عیسائی دستوں کے ساتھ بمشکل جان بچا کر بھا گا لیکن اس سے قبل اتحادی فوجوں کا دو ثلث حصہ قتل ہو چکا تھا ، شاہ لاڈ سلاس کے علاوہ مقتولین میں دو مشہور بشپ اور بعض نہایت ممتاز فوجی افسر بھی تھے لیکن سب سے زیادہ عبرت انگیز نعش کارڈینل جولین کی تھی ، جو معاہدہ ریجیڈین کی شکست کا خاص محرک اور عیسائیوں کی ہلاکت کا اصلی سبب تھا، جس گناہ کو اپنے سر لے کر اس نے ہنگری کی قومی مجلس کو عثمانی مقبوضات پر حملہ کرنے کے لیے آمادہ کیا تھا، اس کی نعش اس کے وبال کا ایک ایسا مرقع تھی جو مکافات عمل کے خدائی قانون کو فاتح و مفتوح دونوں کے سامنے مجسم شکل میں پیش کر رہا تھا۔

اس جنگ کے نتائج:۔

جنگ وارنا کے بعد ہنگری پر ترکوں کا قبضہ تو فوراً نہ ہو سکا لیکن سرویا اور بوسنیا کی مملکتیں مکمل طور پر فتح کر لی گئیں، یہ دونوں جو یونانی کلیسا سے وابستہ تھیں دولت عثمانیہ کے زیر تسلط آنا بھی چاہتی تھی کیونکہ ہو نیاڈے کی کامیابی کی صورت میں انہیں یہ جبر لاطینی کلیسا میں داخل کرنے کی دھمکی دی گئی تھی، سرویا کا مؤرخ را نکی (Ranke) نقل کرتا ہے کہ ایک بار جارج بر نیکوویچ نے ہو نیا ڈے سے دریافت کیا کہ اسے کامیابی حاصل ہوئی تو مذہب کے متعلق اس کا رویہ کیا رہے گا، ہو نیاڈے نے جواب دیا کہ میں سرویا کو رومن کیتھولک مذہب قبول کرنے پر مجبور کروں گا، اس کے بعد بر نیکوویچ نے یہی سوال مراد سے کیا، اس نے جواب دیا کہ میں ہر مسجد کے پاس ایک گر جا بنوادوں گا اور لوگوں کو پوری آزادی حاصل ہوگی کہ اپنے اپنے مذہب کے مطابق خواہ مسجد میں جا کر عبادت کریں خواہ گر جائیں، اسی طرح کلیسائے رومہ کی مذہبی تعدیوں نے بوسنیا کی تسخیر میں بھی ترکوں کی مدد کی اور آٹھ روز کے اندر بوسنیا کے ستر قلعوں نے عثمانی فوجوں کے لیے اپنے بھا ٹک  کھول دیے، بوسنیا کا شاہی خاندان مٹ گیا اور اس کے بہت سے ممتاز امرا اسلام کے حلقہ بگوش ہو گئے۔

 

ینی چری کی بغاوت:۔

اس مہم سے فارغ ہونے کے بعد مراد نے تاج و تخت پھر شہزادہ کے حوالہ کیا اور ایدین کی پُر کیف فضا میں علما و مشائخ کی صحبتیں دوبارہ شروع ہوئیں لیکن اب کی بار بھی یہ عزلت پسندی راس نہ آئی، وارنا کی شکست نے عیسائیوں کی قوت کو بالکل توڑ دیا تھا اور سلطنت عثمانیہ کواب کسی خارجی خطرہ کا خوف نہ تھا لیکن شہزادہ محمد کی کم سنی سے خود ینی چری نے فائدہ اُٹھانا چاہا اور تنخواہ کے اضافہ کا مطالبہ پیش کیا،شہزادہ محمد کے انکار پر انہوں نے بغاوت کر دی اور ادر نہ میں قتل و غارت کا بازار ایسا گرم کیا کہ وزرائے سلطنت نے مجبور ہو کر مراد سے بمنت استدعا کی کہ زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے کر اس فتنہ کو فر وکرے، چنانچہ مراد کو بادل ناخواسته ایدین کاپر سکون پرور ماحول پھر چھوڑنا پڑا ، اس کے ادر نہ پہنچتے ہی باغیوں نے سر اطاعت خم کر دیا اور شہر میں امن قائم ہو گیا، دوبار کے تجربہ سے مراد کو اندازہ ہو گیا تھا کہ شہزادہ محمد میں ابھی سلطنت کے سنبھالنے کی کافی قابلیت پیدا نہیں ہوئی، چنانچہ اس نے پھر تخت چھوڑنے کا قصد نہیں کیا، بلکہ بقیہ زندگی امور سلطنت کے سرانجام دینے میں گزار دی، بادشاہوں کے تخت سے دست بردار ہو جانے کی متعدد مثالیں تاریخ میں ملتی ہیں، ان میں سے بعض کا حالات سے مجبور ہو کر دوبارہ عنان سلطنت کو ہاتھ میں لینا بھی ثابت ہے لیکن دوسری بار تخت چھوڑ کر پھر سلطنت کی ذمہ داریوں کو اپنے سر لینا ایک ایسا استثنائی واقعہ ہے جو صرف مراد ثانی کے ساتھ مخصوص ہے اور جس کی کوئی نظیر تاریخ کے کسی دور میں نہیں ملتی ، گبن کے نزدیک مراد کی زندگی اور سیرت کا سب سے زیادہ مؤثر واقعہ یہی ہے کہ یہ فلسفی سلطان دُنیاوی عظمت کی بے حقیقتی سے آگاہ ہو کر چالیس سال کی عمر میں دو بار تخت سے علیحدہ ہو گیا۔

 

موریا کی فتح:۔

لیکن اب تخت پر آنے کے بعد مرد کی زندگی کے بقیہ 6 سال تقریباً تمام تر میدان جنگ ہی میں گزرےو سب سے پہلے اسے موریا کی طرف توجہ کرنی پڑی، جہاں شہنشاہ قسطنطنیہ کے دو بھائی قسطنطین اور طامس علیحدہ علیحدہ حصوں پر حکمران تھے۔ قسطنطین نے اپنے مقبوضات کے تحفظ کے لیے خاکنائے کو رنتھ کی قلعہ بندی کی اور ادھر سے اطمینان کر لینے کے بعد تھییز (Thebes) کے شہر پر جو اس سرحد سے قریب سلطنت عثمانیہ کا مقبوضہ تھا، دفعتاً حملہ کر کے قبضہ کر لیا، اس واقعہ کی اطلاع پا کر مرادفوراً موریا کی طرف روانہ ہوا کورنتھ کا مضبوط قلعہ اسکی راہ میں کسی قدر حائل ہوا مگر عثمانی توپوں کی گولہ باری کے سامنے وہ زیادہ دیر تک ٹھہر نہ سکا، عثمانی فوج میں توپوں کے استعمال کا یہ پہلا موقع تھا۔ کورنتھ  کی فتح کے بعد موریا کا راستہ بالکل صاف ہو گیا اور قسطنطین اور طامس کے لیے اظہار اطاعت کے علاوہ کوئی چارہ باقی نہ رہ گیا، انہوں نے خراج دینا منظور کیا اور موریا بھی دولت عثمانیہ کی باج گزار ریاستوں میں شامل کر لیا گیا۔

 

کسوا کی دوسری جنگ:۔

وارنا کی شکست کے بعد ہو نیاڈے ترکوں سے انتقام لینے کی تیاریوں میں مصروف رہا، اس کے دامن شہرت پر وارنا کا داغ  تھا، چنانچہ اس نے 4سال کے اندر80 ہزار کی ایک زبردست فوج پھر جم کر لی اور دریائے ڈینیوب کو عبور کرکے سرویا میں داخل ہوا، یہاں ہنگری، سرویا اور بوسنیا کی فوجیں متحد ہو کر مراد کے مقابلہ کے لیے روانہ ہوئیں، سرویا اور بوسنیا نے جنگ وارنا کے بعد دولت عثمانیہ کی سیادت قبول کر لی تھی، مگر ہو نیاڈے کی کوششوں سے یہ دونوں حکومتیں اپنے معاہدہ سے منحرف ہو گئیں اور مکمل آزادی کی خواہش انہیں مراد کے بالمقابل میدان جنگ میں پھر کھینچ لائی ، یہ قوت آزمائی کسووا کے اسی میدان میں ہوئی جہاں تقریباً ساٹھ سال پیش تر مراد اول نے سرویا کی طاقتور سلطنت کو شکست دے کر اسے اپنا مطیع بنا لیا تھا، تین روز کی شدید جنگ کے بعد 18 شعبان 852ھ (17 اکتوبر 1448ء) میں مراد نے ہو نیاڈے کی متحدہ افواج کو بری طرح شکست دی، کسووا کی اس دوسری عظیم الشان جنگ کا نتیجہ یہ ہوا کہ سرویا کی آزادی سلب کر لی گئی اور وہ چند سال بعد سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لیا گیا ، مراد نے بوسنیا سے سالانہ خراج قبول کرنے پر اکتفا کیا۔

اسکندر بک:۔

اس درمیان میں البانیا میں ایک نیا فتنہ پیدا ہو گیا تھا، مراد کے ابتدائی عہد حکومت میں البانیا کی ایک ریاست کا امیر جان کستریو (John Castriot) دولت علیہ کا مطیع ہو گیا تھا، بطور ضمانت اس نے اپنے چار لڑ کے مراد کی خدمت میں بھیج دیے تھے، ان میں سے تین تو بچپن ہی میں انتقال کر گئے، چوتھا لڑکا جارج کستر یو زندہ رہا اور اس کی ہونہاری اور فراست نے بہت جلد سلطان کو اپنی طرف متوجہ کر لیا، مراد نے اپنی ذاتی نگرانی میں جارج کو اسلامی اور فوجی تعلیم دلوائی اور اس کی لیاقت اور شجاعت سے خوش ہو کر محض اٹھارہ سال کی عمر میں اسے ایک سنجق کا حاکم بنا دیا اور اسکندر بک کے لقب سے سرفراز فرمایا، جان کستر یو کا جب انتقال ہوا تو مراد نے اس کی ریاست سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لی، یہ بات اسکندر بک کو بہت ناگوار گزری لیکن اس نے ایک عرصہ تک اپنے اندرونی جذبات کو ظاہر نہیں ہونے دیا، جب 848ھ (1443ء) میں ہو نیاڈے کے مقابلہ میں عثمانی فوج کو شکست ہوئی تو اسکندر بک نے موقع کو غنیمت سمجھا اور اپنے باپ کی ریاست پر قبضہ کرنے کے لیے تیار ہو گیا، چنانچہ ایک روز وہ رئیس آفندی یعنی سلطان کے چیف سیکریٹری کے خیمہ میں دفعتاً داخل ہوا اور اس کے گلے پر خنجر رکھ کر البانیا کے مضبوط شہر آق حصار ( جس کا قدیم نام کرویا (Croia) تھا، کے ترک افسر کے نام ایک حکم نامہ لکھوالیا کہ شہر اور اس کے ملحق علاقے بہ حیثیت گورنر کے اسکندر بک کو دے دیے جائیں، یہ تحریر حاصل کر لینے کے بعد اس نے رئیس آفندی کو فوراً قتل کر دیا اور اسی وقت البانیا کی طرف روانہ ہو گیا، آق حصار پہنچ کر اس فرمان کے ذریعہ سے وہ شہر پر قابض ہو گیا ، اس کے بعد اس نے اپنے ارتداد کا اعلان کیا اور دین عیسوی کی حمایت اور البانیا کی آزادی کے لیے اپنی خدمات پیش کیں، البانیا کے مختلف جرگوں کے سردار اس کے علم کے نیچے جمع ہونے لگے، ان کی مدد سے اس نے متعدد قلعوں پر قبضہ کرلیا اور پھر ایک فاتح کی حیثیت سے اپنے آبائی علاقوں میں داخل ہوا، اس کے بعد تمام قومی امرا نے اسے اپنا سردار تسلیم کر لیا، تقریباً پچیس سال تک وہ ترکوں کا مقابلہ کرتا رہا، البانیا کے پیچ در پیچ پہاڑی دروں کی وجہ سے عثمانی فوجوں کو کھل کر لڑنے کا موقع ہی نہ ملا تھا اور متعدد کوششوں کے باوجود البانیا مراد کی حیات میں پوری طرح مسخر نہ ہوسکا۔

 

سلطان مراد کی وفات:۔

 

سنہ 5 محرم 855ھ/بمطابق (9 فروری 1451ء) کو سلطان مراد نے ادر نہ میں وفات پائی جہیز و تلقین قدیم پایہ تخت بروصہ میں ہوئی۔مراد کے عدل و انصاف اور شریفانہ اوصاف کا اعتراف اس کے دُشمنوں نے بھی کیا ہے، یونانی مورخین بھی اس کی فوجی قابلیت کے علاوہ اس کی اخلاقی عظمت کی شہادت دیتے ہیں اور اس بات میں ترک مؤرخین کے ہم نوا ہیں، لارڈ ایور سلے جس کے قلم سے آل عثمان کے محاسن کا اعتراف بہت شاذو نادر ہوتا ہے، مراد کے عہد حکومت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:

"اس کی حکومت پر نظر ڈالنے سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اس نے توسیع سلطنت کے مقصد سے لڑائیاں لڑیں ، تقریباً ہر جنگ کے لیے وہ مجبور کیا گیا، تین بار امیر کرمانیہ نے اس کے خلاف جنگ کا اعلان کیا، ہر بار مراد نے اس کو شکست دی اور کرمانیہ کو صرف ایک باج گزار ریاست بنا لینے پر قناعت کی اور اس کی آزادی کو فنا کر کے اسے سلطنت میں ضم کر لینے پر اصرار نہیں کیا، یہ دکھایا جا چکا ہے کہ شہنشاہ قسطنطنیہ کا طرز عمل کس قدر غدارا نہ تھا اور مراد اس کے مقبوضات کے دائرہ کو تنگ سے تنگ کر دینے میں کسی درجہ حق بجانب تھا، اسی طرح سالونیکا پر بھی مراد کا حملہ، جب کہ وہ شہر جمہوریہ وینس کے ہاتھ میں تھا، بالکل حق بجانب تھا کیونکہ شہنشاہ قسطنطنیہ کو اسے فروخت کرنے اور یوں اور ایک غیر حکومت کو وہاں قدم جمانے کی جگہ دینے کا کوئی حق نہ تھا، شمالی سرحد پر جو لڑائیاں ہوئیں ان میں مراد کو اہل ہنگری اور ان کی حلیف مسیحی طاقتوں کے جارحانہ اقدام سے مجبور ہو کر میدان میں آنا پڑا، اتحادیوں نے تلوار سے فیصلہ چاہا اور فیصلہ ان کے خلاف ہوا ۔

گبن ایک ترک مؤرخ کا بیان نقل کرتا ہے:

سلطان مراد نے انچاس سال کی عمر پائی اور 30 سال چھ مہینے اور آٹھ روز حکومت کی ، وہ ایک عادل اور شجاع فرماں روا تھا، نہایت کشادہ دل مستقل مزاج ، عالم، رحم دل، پابند مذہب اور فیاض ، وہ اہل علم اور ان تمام لوگوں سے جو کسی علم یا فن میں کمال رکھتے ، محبت کرتا اور ان کی حوصلہ افزائی کرتا ، وہ ایک نیک شہنشاہ اور ایک جلیل القدرسپہ سالار تھا، کسی شخص نے مراد سے زیادہ اس سے بڑی فتوحات نہیں حاصل کیں، اس کے عہد حکومت میں سپاہی ہمیشہ فتح یاب رہے اور شہری خوش حال، جب وہ کسی ملک کو فتح کرتا تو سب سے پہلے وہاں مسجدیں اور سرائیں، ہسپتال اور مدرسے تعمیر کراتا، ہر سال وہ ایک ہزار طلائی سکتے سادات کی نذر کرتا اور ڈھائی ہزار مکہ معظمہ، مدینہ منورہ اور بیت المقدس کے دین دارلوگوں کے لیے بھیجا۔“

اس کے بعد گبن خود اپنی تحقیق لکھتا ہے:

مراد کے عدل و انصاف اور بردباری کی تصدیق اس کے طرز عمل نیز خود عیسائیوں کی شہادت سے ہوتی ہے، جن کا خیال ہے کہ اس کے عہد کی خوش حالی اور اس کی پُر سکون موت اس کے غیر معمولی اوصاف کا صلہ تھی، اپنی عمر اور فوجی قوت کے دور شباب میں بھی اس نے شاذ ہی کسی میدانِ جنگ میں قدم رکھا، جب تک پہلے دشمن کی طرف سے اس کو جنگ کے لیے کافی طور پر برانگیختہ نہ کیا گیا، دشمن کے مطیع ہو جانے کے بعد فاتح سلطان اپنے ہتھیار کو کھول کر رکھ دیتا تھا اور صلح ناموں کی پابندی میں اس کا عہد نا قابل شکست اور مستحکم تھا ، حملہ کی ابتدا عموماً اہل ہنگری کی طرف سے ہوا کرتی تھی، اسکندر بک کے خلاف اس کو اشتعال خود اسکندر بک کی بغاوت کی وجہ سے پیدا ہوا اور کرمانیہ کے غدار امیر کو سلطان نے دوبار زیر کیا اور دونوں مرتبہ معاف کر دیا، قبل اس کے کہ وہ موریا پر چڑھائی کرے تھیپیز پر موریا کا فرماں روا اچانک حملہ کر چکا تھا، جہاں تک سالونیکا کی فتح کا تعلق ہے، بایزید کا پوتا اہل وینس کی تازہ خریداری کو زیر بحث لا سکتا تھا اور قسطنطنیہ کے پہلے محاصرہ کے بعد سلطان کو پھر کبھی پلیو لوگس کی مصیبت ، غیر موجودگی یا اذیتوں کی بنا پر سلطنت بازنطینی کے بجھتے ہوئے چراغ کو گل کر دینے کی ترغیب نہیں ہوئی ۔

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

قسطنطنیہ کی فتح

سلطنت عثمانیہ نے  قسطنطنیہ کو فتح کرنے اور بازنطینی سلطنت کو ختم کرنے کے لیے کی بار اس شہر کا محاصرہ کیا۔ لیکن یہ محاصرے صلیبیوں کے حملے،تخت کے لیے خانہ جنگی،بغاوت اور امیر تیمور کے…

مزید پڑھیں
سلطنت عثمانیہ"600سالہ دور حکومت کی لاذوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ جسے دولتِ عثمانیہ اور خلافتِ عثمانیہ کہا جاتا ہے یہ تقریباً سات سو سال تک  قائم رہنے والی  مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت  تھی۔یہ سلطنت 1299ء سے1922 تک قائم رہنے والی مسلمان سلطنت تھی  جس کے حکمران ترک…

مزید پڑھیں
سلطنتِ عثمانیہ کے عروج و زوال کی لازوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ اسلام کی مضبوط ترین اور  عظیم الشان سلطنت تھی۔ترکوں کی یہ عظیم سلطنت جو 600 سالوں سے زیادہ عرصے پر محیط تھی،اس کی سرحدیں یورپ ایشیا اور افریقہ تک پھیلی ہوی تھیں ،یہ خانہ بدوش ایشیا مائنر سے…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں