کیا شیخ الاسلام موسیٰ آفندی فری میسن تھے؟

شیخ الاسلام موسیٰ کاظم آفندی سلطنت عثمانیہ کے 19ویں شیخ الاسلام تھے، جو 1910ء سے 1911ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ان کا تعلق ایک معزز خاندان سے تھا اور وہ اپنے علمی مقام اور دینی خدمات کے لیے مشہور تھے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم:۔
موسیٰ کاظم آفندی نے ابتدائی تعلیم اپنے خاندان سے حاصل کی اور بعد میں اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے مختلف اسلامی مراکز کا رخ کیا۔انہوں نے فقہ، حدیث، تفسیر اور دیگر اسلامی علوم میں مہارت حاصل کی، جس کی بدولت وہ سلطنت عثمانیہ کے اعلیٰ علمی حلقوں میں شامل ہوئے تھے۔
عہدہ شیخ الاسلام:۔
سنہ 1910ء میں، موسیٰ کاظم آفندی کو شیخ الاسلام مقرر کیا گیا، جو سلطنت عثمانیہ میں اعلیٰ ترین دینی عہدہ تھا۔اس حیثیت میں، انہوں نے شرعی قوانین کی تدوین، دینی تعلیمات کی ترویج اور عدالتی نظام میں اصلاحات کے لیے کام کیا۔ان کی قیادت میں، دینی اداروں کی فعالیت میں اضافہ ہوا اور اسلامی قوانین کی تشریح میں جدت لائی گئی۔
وفات:۔
موسیٰ کاظم آفندی کا انتقال 1911ء میں ہوا۔ان کی وفات کے بعد، ان کی علمی خدمات اور دینی اصلاحات کو یاد کیا جاتا ہے اور وہ اسلامی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔
کیا شیخ اسلام فری میسن تھے؟
سلطان عبد الحمید ثانی کی معزولی کے بعد، عثمانی سلطنت میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔1909ء میں، اتحاد و ترقی جماعت نے سلطان عبد الحمید ثانی کو معزول کیا اور ان کی جگہ سلطان محمد پنجم کو تخت نشین کیا۔اسی دوران، موسیٰ کاظم افندی کو شیخ الاسلام مقرر کیا گیا۔
موسیٰ کاظم افندی کے بارے میں بعض ذرائع میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ فری میسن (ماسونی) تھے۔ان کے شیخ الاسلام بننے کو بعض مؤرخین نے عثمانی سلطنت کی دینی اور سیاسی ساخت میں تبدیلیوں کے تناظر میں دیکھا ہے۔مثلاً، مؤرخ احمد شیمشیرگیل کا کہنا ہے کہ عثمانی سلطنت کا حقیقی زوال 1909ء میں سلطان عبد الحمید ثانی کی معزولی کے ساتھ ہی شروع ہوا۔
سلطان عبد الحمید ثانی کی وفات 10 فروری 1918ء کو ہوئی۔ان کی نماز جنازہ موسیٰ کاظم افندی نے پڑھائی، جو اس وقت شیخ الاسلام تھے۔یہ واقعہ اس وقت کے سیاسی اور دینی ماحول کی عکاسی کرتا ہے، جہاں مختلف نظریات اور تحریکیں سرگرم تھیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ عثمانی سلطنت کے آخری دور میں فری میسن تحریک کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا، اور بعض اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کے ماسونی ہونے کے الزامات بھی لگائے گئے۔تاہم، ان دعووں کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق اور مستند حوالہ جات کی ضرورت ہے۔
تبصرہ کریں