تُرکوں کے عظیم جدِ امجد "اوغوز خان" کی مکمل تاریخ۔

اوغوز خان،تُرکوں کے عظیم جدِ امجد:۔
ترک قوم کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے، لیکن اگر ہم ترکوں کے اصل جدِ امجد کی بات کریں، تو ایک نام سب سے پہلے آتا ہے "اوغوز خان" وہ شخص جسے ترکوں کی تمام بڑی سلطنتوں کا بانی اور سب سے پہلا حکمران مانا جاتا ہے۔اوغوز خان کون تھے؟ ان کی پیدائش کہاں ہوئی؟ انہوں نے کن فتوحات کو سر انجام دیا؟ اور کیسے وہ ترک قبائل کو متحد کر کے ایک عظیم قوم بنانے میں کامیاب ہوئے؟
یہ سب جاننے کے لیے آئیے، ترکوں کی شاندار تاریخ کے ابتدائی صفحات پلٹتے ہیں!
اوغوز خان کی پیدائیش اور ابتدائی زندگی:۔
اوغوز خان کی پیدائش کا سال معلوم نہیں، لیکن ترک روایات کے مطابق وہ قدیم ترک نسل کے سب سے پہلے اور عظیم رہنما تھے۔ ان کے بارے میں معلومات زیادہ تر اوغوز روایات اور قدیم ترک داستانوں سے لی جاتی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ وہ آلتائی پہاڑوں کے علاقے میں پیدا ہوئے، جو آج کے منگولیا، چین اور قازقستان کے درمیان واقع تھا۔ ان کا تعلق گوک ترک نسل سے تھا، اور وہ ایک مضبوط، طاقتور اور غیر معمولی ذہانت رکھنے والے شخص تھے۔بچپن سے ہی وہ دوسرے بچوں سے مختلف تھے۔ وہ زیادہ طاقتور، زیادہ ذہین اور زیادہ بہادر تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بچپن میں ہی تیر اندازی، گھڑ سواری، اور جنگی مہارت میں ماہر ہو چکے تھے۔
ترک قبائل کا اتحاد اور اوغوز خان کا مشن:۔
جب اوغوز خان جوان ہوئے، تو انہوں نے دیکھا کہ ترک قبائل آپس میں منتشر تھے، ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے تھے، اور دشمنوں کے ہاتھوں کمزور ہو رہے تھے۔انہوں نے فیصلہ کیا کہ اگر ترکوں کو عظیم قوم بننا ہے، تو انہیں اتحاد کی ضرورت ہے۔اوغوز خان نے سب سے پہلے تمام ترک قبائل کو ایک جگہ پر اکٹھا کیا اور انہیں بتایا کہ اگر وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے دشمنوں کے خلاف متحد ہونا پڑے گا۔انہوں نے ترکوں کے لیے ایک نیا نظام بنایا جس میں جنگجو قبائل کو مضبوط کیا، فوجی تربیت دی، اور دشمنوں کے خلاف زبردست حکمتِ عملی تیار کی۔
فتوحات اور ترکوں کی پہلی عظیم سلطنت:۔
اوغوز خان صرف ایک عظیم رہنما ہی نہیں، بلکہ ایک زبردست فاتح بھی تھے۔انہوں نے سب سے پہلے چین کے علاقوں پر حملہ کیا اور ترکوں کے لیے نئی زمینیں حاصل کیں۔اس کے بعد انہوں نے ایران، قفقاز، اور وسط ایشیا کے کچھ حصوں کو فتح کیا۔انہوں نے اپنے دشمنوں کو سخت شکست دی، اور ترک قبائل کو ایک بڑی اور طاقتور سلطنت میں تبدیل کر دیا۔اوغوز خان کی سلطنت اتنی بڑی ہو چکی تھی کہ یہ منگولیا سے لے کر بحیرہ کیسپین تک پھیلی ہوئی تھی۔
اوغوز خان کے چھے بیٹے اور ترک قبائل کی بنیاد:۔
اوغوز خان کی سلطنت کو مزید مضبوط کرنے کے لیے انہوں نے اپنی فوجی اور انتظامی طاقت کو اپنے بیٹوں میں تقسیم کیا۔ان کے چھ بیٹے تھے، اور انہوں نے انہیں دو گروہوں میں تقسیم کیا۔پہلا گروہ بوزوک قبیلے کے تین بیٹے تھے۔دوسرا گروہ اچوک قبیلے کے تین بیٹے تھے۔
یہی وہ تقسیم تھی جس سے بعد میں تمام ترک قبائل وجود میں آئے اور اوغوز ترکوں کا آغاز ہوا۔اوغوز ترکوں سے ہی سلجوقی، عثمانی، تیموری اور دوسرے عظیم ترک خاندان نکلے، جنہوں نے تاریخ میں سب سے بڑی اسلامی سلطنتیں بنائیں۔
اوغوز خان کی آخری جنگ اور وفات:۔
اوغوز خان نے اپنی ساری زندگی ترکوں کو متحد کرنے اور دشمنوں کے خلاف جنگیں لڑنے میں گزاری۔ان کی آخری جنگیں وسطی ایشیا میں ہوئیں، جہاں انہوں نے منگول اور چینی حکمرانوں کو شکست دی۔وہ ایک طاقتور، غیر معمولی بہادر، اور ناقابلِ تسخیر حکمران تھے، لیکن ہر بادشاہ کی طرح، ان کا وقت بھی ایک دن ختم ہونا تھا۔اوغوز خان اپنی آخری جنگ کے بعد شدید بیمار ہو گئے۔کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کو آخری نصیحت کی:
“ہمیشہ متحد رہنا، کبھی آپس میں مت لڑنا، اور ترک قوم کو کبھی کمزور نہ ہونے دینا!”
اور پھر، وہ اپنی آخری سانسیں لے کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔ان کی وفات کا صحیح سال معلوم نہیں، لیکن ترک روایات کے مطابق وہ تقریباً سو سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ان کی قبر کے بارے میں بھی کئی روایات موجود ہیں، بعض کے مطابق وہ موجودہ ترکمانستان یا قازقستان میں دفن ہیں، جبکہ کچھ روایات انہیں ایک دیومالائی شخصیت کے طور پر دیکھتی ہیں۔
اوغوز خان کی موت کے بعد ان کے بیٹوں نے ترکوں کی حکومت کو مزید بڑھایا۔ ان کے خاندان سے کئی عظیم ترک سلطنتیں نکلیں، جن میں مندرجہ ذیل سلطنتیں شامل ہیں۔
سلجوق:۔
سلجوقی سلطنت اوغوز ترکوں کی قبیلہ کینک (Kinik) سے نکلی تھی۔ یہ ترک قبائل نویں صدی میں بحیرہ خزر اور بحیرہ ارال کے شمال میں آباد تھے۔ گیارہویں صدی میں تغرل بیگ اور چغری بیگ کی قیادت میں انہوں نے عظیم سلجوقی سلطنت قائم کی۔
انوشتگین اور خوارزمی سلطنت:۔
تاریخی حوالوں کے مطابق، انوشتگین خاندان، جو 1077ء سے 1231ء تک وسطیٰ ایشیا پر حکومت کرتا رہا، اوغوز ترکوں کے بیگدیلی قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس خاندان کے بانی انوشتگین غرچائی، سلجوقی سلطان کے ایک ترک غلام تھے جنہیں خوارزم کا گورنر بنایا گیا تھا۔ ان کے بیٹے قطب الدین محمد نے خوارزم شاہی سلطنت کی بنیاد رکھی۔
قارا قویونلو اور آق قویونلو:۔
قارا قویونلو ایک اوغوز ترک قبائلی اتحاد تھا جو 14ویں اور 15ویں صدی میں موجودہ آذربائیجان، ایران، عراق اور ترکی کے علاقوں میں قائم تھا۔ آق قویونلو سلطنت کے سلاطین نے اپنے نسب کو اوغوز خان کے پوتے بایندیر خان سے جوڑا۔
عثمانی تُرک:۔
عثمانی تاریخ دان شوکر اللہ کے مطابق، ارطغرل غازی کا نسب اوغوز خان کے بیٹے گوک الپ سے جا ملتا ہے۔ عثمانی دور کے دیگر مؤرخین جیسے یازیجی اوغلو علی نے بھی عثمان غازی کے شجرہ نسب کو اوغوز خان سے جوڑا۔ سلطان بایزید اول نے تیمور کے خلاف اپنے نسب کی برتری کے لیے اوغوز خان کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا۔
اوغوز خان نے اپنے امراء کو جمع کر کے اعلان کیا:
"میں تمہارا خان ہوں؛ ہماری علامت قوت ہوگی؛ سرمئی بھیڑیا ہمارا جنگی نعرہ ہوگا؛ لوہے کے نیزے ہمارا جنگل ہوں گے؛ سورج ہمارا پرچم اور آسمان ہمارا خیمہ ہوگا۔"
اوغوز خان نے دنیا کے چاروں کونوں کے بادشاہوں کو خط بھیجا اور اپنی بالادستی تسلیم کرنے کا حکم دیا۔ کچھ بادشاہوں نے اطاعت قبول کی، لیکن یوروم خان (رومی بادشاہ) نے انکار کر دیا۔ اس پر اوغوز خان نے جنگ کا اعلان کیا اور سرمئی بھیڑیا کی رہنمائی میں مغرب کی طرف فوج کشی کی۔ انہوں نے دریائے وولگا کے کنارے رومی فوج کو شکست دی اور مختلف علاقوں کو فتح کیا۔
آخری ایام :۔
اوغوز خان نے اپنے بڑھاپے میں ایک خواب دیکھا اور اپنے بیٹوں کو مشرق و مغرب کی طرف روانہ کیا۔ ان کے بڑے بیٹوں کو ایک سنہری کمان ملی، جبکہ چھوٹے بیٹوں کو تین چاندی کے تیر ملے۔ انہوں نے اپنے بڑے بیٹوں کو کمان دی اور کہا، "تم زمین کے محافظ ہو، جیسے یہ کمان تیر چھوڑتی ہے، تم بھی طاقتور بنو۔" جبکہ چھوٹے بیٹوں کو تیر دیتے ہوئے کہا، "تمہیں تیر کی طرح تیز اور فیصلہ کن بننا ہے۔"
اوغوز خان نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنی سلطنت اپنے بیٹوں کے درمیان تقسیم کی۔ ان کے جانشینوں نے ترک قبائل کی سیاسی تنظیم میں بنیادی کردار ادا کیا، اور ان کی نسل سے کئی مشہور ترک حکمران اور سلطنتیں نکلیں۔
اوغوز خان کو بعض ماہرین چینی شہنشاہ ماودون سے جوڑتے ہیں، جبکہ کچھ انہیں قدیم سکھیائی قبائل کا قائد سمجھتے ہیں۔ کچھ تاریخی ذرائع انہیں سائرس اعظم سے پہلے کا حکمران بتاتے ہیں۔ ترک اور وسطیٰ ایشیائی تاریخ میں اوغوز خان کو وہی مقام حاصل ہے جو مغربی دنیا میں سکندر اعظم یا جولیس سیزر کو دیا جاتا ہے۔
اوغوز خان کی یاد میں ترکمانستان میں اشک آباد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کا نام رکھا گیا ہے، اور 100 ترکمانی منات کے نوٹ پر ان کی تصویر موجود ہے۔ "اوغوز" اور "اوغوز خان" آج بھی ترک اور وسطیٰ ایشیائی ممالک میں عام نام ہیں۔اوغوز خان وہ شخصیت تھے جنہوں نے ترکوں کو متحد کیا، انہیں ایک قوم بنایا، اور ان کے لیے ایک عظیم سلطنت قائم کی۔ اگر وہ نہ ہوتے، تو شاید ترک قبائل بکھرے ہی رہتے اور تاریخ میں کبھی بھی سلجوقی، عثمانی، اور دیگر ترک سلطنتیں نہ بنتیں۔اوغوز خان صرف ایک دیومالائی کردار نہیں، بلکہ ترکوں کے لیے ایک عظیم تاریخی حقیقت ہیں۔وہ ترک قوم کے پہلے عظیم حکمران، بہادر جرنیل، اور ایک منفرد شخصیت تھے۔
آج بھی ترکی، ترکمانستان، آذربائیجان، اور قازقستان میں انہیں ترکوں کے جدِ امجد کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔کیا آپ کے خیال میں آج کے دور میں بھی کوئی اوغوز خان جیسا حکمران آ سکتا ہے؟ اپنی رائے کمنٹ میں دیں۔
تبصرہ کریں