/ تاریخِ اسلام / خلافتِ عثمانیہ

سلطنتِ عثمانیہ کے بانی عثمان غازی کی مکمل تاریخ۔

ارتغرل غازی کی وفات کے بعد انکا چھوٹا بیٹا عثمان تخت نشین ہوا۔ ارطغرل غازی نے اپنے زورِ قوت اور  سلاجقہ روم کے تفرق و انتشار کے باوجود بھی خود مختاری کا دعویٰ نہیں کیا اور متعددسلجوقی امرانے سلطنت کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر متعد خود سرحکومتیں قائم کر لی تھیں۔ لیکن وہ خود آخر دم تک سلطانِ قونیہ کے وفادار اور جاگیردارہی رہے۔عثمان نے بھی یہی روش اختیار کی اور اپنی فتوحات سے سلطان کی شان و شوکت کو ایک حد تک محفوظ رکھا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب دولت سلجوقیہ دم تو ڑ رہی تھی اور ایشیائے کو چک میں طوائف الملوکی پھیلی ہوئی تھی۔ اس بنا پر اپنی فتوحات کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے اس سے بہتر موقع عثمان کو نہیں مل سکتا تھا۔ لیکن اس نے اپنی توجہ زیادہ تر بازنطینی علاقوں کی طرف مبذول رکھی جس کے مختلف اسباب تھے، پہلی وجہ تو یہ تھی کہ خود اس کی جاگیر بازنطینی سرحد سے متصل واقع تھی اور بازنطینی سلطنت کی کمزوری روز بروز نمایاں ہوتی جا رہی تھی، یہ اسی کمزوری اور شہنشاہ قسطنطنیہ کی ایک سیاسی غلطی کا نتیجہ تھا کہ کوہِ  آلمپس (Olympus) کے دروں کی حفاظت نہ ہو سکی اور ترک بتھینیا (Bithynia) کے میدانوں میں داخل ہو گئے ، شہنشاہ پلیلوگس (Palaeologus) کے عہد تک ان دروں کی حفاظت اس علاقہ کے ردیف یعنی کہ یہاںکی ملیشا کے سپر د تھی اور وہ لوگ اس خدمت کے معاوضہ میں ٹیکسوں سے بری تھے لیکن اس کے بعد شہنشاہ نے اس رعایت کو منسوخ کر دیا اور دروں کی حفاظت اپنے ذمہ لے لی، نیز خراج کی رقم سختی سے وصول کرنی شروع کر دی گئی ، نتیجہ یہ ہوا کہ دروں کی حفاظت میں غفلت ہونے لگی اور وہ جفاکش پہاڑی لوگ محض کسان ہو کر رہ گئے، جن میں نہ کوئی جوش باقی رہا اورنہ فوجی نظم ضبط ، بازنطینی سلطنت جو کسی زمانہ میں دنیا کی عظیم ترین سلطنتوں میں شمار کی جاتی تھی، فرقہ وارانہ جنگوں اور انتہائی بدنظمیوں میں مبتلا ہو گئی ، جس کے باعث اس میں کسی طاقتور حریف کے مقابلہ کی قوت باقی نہیں رہی تھی، ایشیائے کو چک میں اسکے سابق مقبوضات میں سے صرف چند شہر مثلاً بروصہ، نائکو میڈیا اور ان کے نواحی اضلاع باقی رہ گئے تھے، جوشمال مغرب میں واقع تھے، نیز باسفورس اور بحر مار مورا کے ساحلی خطے ابھی تک قسطنطنیہ کے زیر نگین تھے، اناطولیہ کے بقیہ تمام علاقے جو پہلے بازنطینی سلطنت میں داخل تھے، اس کے ہاتھوں سے نکل چکے تھے۔ عثمان کے لیے بازنطینی علاقوں کی طرف متوجہ ہونے کی دوسری وجہ اسلام کی تبلیغ تھی، تیسری وجہ بازنطینیوں سے برسر پیکار ہونے کی یہ تھی کہ عثمان کے لیے دوسری جانب قدم بڑھانے کی گنجائش نہ تھی، سلجوقی امرا جنہوں نے خود سر حکومتیں قائم کر لی تھیں، طاقت میں اس سے بڑھے ہوئے تھے۔

 

قراجه حصار کی فتح:۔

لیکن ان ترغیبات کی بنا پر یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہ ہو گا کہ عثمان نے با اقتدار ہونے کے ساتھ ہی حملے شروع کر دیے، اس کی لڑائیاں ابتدا مدافعانہ تھیں، بازنطینی قلعہ دار دولت سلجوقیہ کے سرحدی علاقوں پر وقتاً فوقت حملہ آور ہوتے رہتے تھے، سلطان قونیہ کے ایک نائب کی حیثیت سے عثمان کو ان حملہ آوروں سے مقابلہ کے لیے آگے بڑھنا پڑا، پہلے ہی سال قراجہ حصار کا معرکہ پیش آیا، عثمان نے اس قلعہ کو فتح کر کے بازنطینیوں کو آئندہ کے لیے متنبہ کر دیا ، سلطان علاؤالدین نے قراجہ حصار اور اس کے گردو پیش کی تمام اراضی جو عثمان نے بزور شمشیر حاصل کی تھی ، اسے جاگیر میں دے دی، نیز بک کے خطاب سے سرفراز کر کے اسے اپنا سکہ جاری کرنے اور اپنا نام جمعہ کے خطبہ میں شامل کرنے کی بھی اجازت دی، اس طرح لقب کے علاوہ بادشاہی کے تمام امتیازات عثمان کو حاصل ہو گئے ۔

 

ینی شہر کی فتح:۔

عثمان غازی نے ینی شہر کو 1300 کے قریب بازنطینی سلطنت سے فتح کیا، جو اس وقت کی ایک اسٹریٹجک اہمیت رکھنے والی جگہ تھی۔ ینی شہر کا قلعہ مضبوط دیواروں اور دفاعی نظام کے ساتھ بازنطینی فوج کے زیر انتظام تھا، مگر عثمان غازی کی جنگی حکمت عملی اور مقامی ترک قبائل کی حمایت نے اس فتح کو ممکن بنایا۔ عثمان نے اپنی فوج کو مہارت سے تقسیم کر کے بازنطینی فوج کو پسپائی پر مجبور کیا، جس سے نہ صرف عثمانی سلطنت کا جغرافیائی دائرہ وسیع ہوا بلکہ عثمان غازی کی فوجی قیادت کی شہرت بھی بڑھی۔ ینی شہر کی فتح نے سلطنت عثمانیہ کی بنیادوں کو مستحکم کیا اور اس کے مزید فتوحات کے دروازے کھولے۔

 

نیکا شہر کی فتح:۔

عثمان غازی نے نیکا شہر (جو اب ازمیت کے نام سے جانا جاتا ہے) کو 1302 میں بازنطینی سلطنت سے فتح کیا۔ نیکا شہر اس وقت ایک اہم تجارتی اور اسٹریٹجک مقام تھا، جو بیزنطینی سلطنت کے لیے بہت قیمتی تھا۔ عثمان غازی نے اس شہر کا محاصرہ کیا اور بیزنطینی فوج کے ساتھ ایک فیصلہ کن جنگ لڑی۔ فتح کے بعد، نیکا شہر عثمانی سلطنت کا حصہ بن گیا، جس سے عثمان غازی کو نہ صرف جغرافیائی طور پر مزید تقویت ملی بلکہ یہ فتح سلطنت کی سیاسی حیثیت کو بھی مستحکم کر گئی۔ اس فتح نے عثمان غازی کی فوجی مہارت اور حکمت عملی کو اجاگر کیا، اور عثمانی سلطنت کے اثر و رسوخ کو مزید پھیلایا۔

 

نیکومیدیہ کی فتح:۔

عثمان غازی نے نیکومیدیہ (جو آج کل ازمیت کے نام سے معروف ہے) پر 1300 کے قریب بیزنطینی سلطنت کے خلاف کامیاب حملہ کیا۔ نیکومیدیہ ایک اہم تجارتی اور اسٹریٹجک شہر تھا، جو بیزنطینی سلطنت کے لیے بہت اہمیت رکھتا تھا۔ عثمان غازی کی قیادت میں، عثمانی فوج نے اس شہر کے قلعے کو محاصرے میں لے لیا اور بیزنطینی فوج کو شکست دی۔ اس فتح سے نہ صرف عثمان غازی کے اقتدار کی طاقت میں اضافہ ہوا بلکہ عثمانی سلطنت کو ایک اور اہم جغرافیائی مقام پر قبضہ حاصل ہوا، جس نے سلطنت کی توسیع کی راہ ہموار کی۔ نیکومیدیہ کی فتح نے عثمان غازی کی فوجی حکمت عملی کو اجاگر کیا اور اس کے اثر و رسوخ کو مضبوط کیا، جس سے سلطنت عثمانیہ کے قیام میں مزید قوت آئی۔

 

سلطنت کا قیام:۔

یہ کمی بھی چند سالوں کے بعد پوری ہو گئی ، 699ھ (1300ء) میں تارتاریوں نے ایشیائے کو چک پر حملہ کیا اور اسی جنگ میں سلطان علاؤ الدین مارا گیا، بعض روایتوں میں ہے کہ اس کا قاتل خود اس کا لڑکا غیاث الدین تھا، جس نے تخت سلطنت کی خاطر باپ کا قتل کیا تھا۔ بہر حال تا تاریوں نے غیاث الدین کو بھی قتل کر دیا اور ایشیائے کو چک میں دولت سلجوقیہ کا خاتمہ ہو گیا ، اب عثمان بالکل آزاد اور خود مختار تھا اور آئندہ اس نے تمام فتوحات ایک خود مختار فرماں روا کی حیثیت سے حاصل کیں۔

 

امیرِ کرمانیہ:۔

سلجوقی امرا میں عثمان کا سب سے بڑا حریف امیر کرمانیہ تھا، چنانچہ ایشیائے کو چک کے ترکوں کی سرداری اور پورے ملک حکومت کے لیے فریقین کے درمیان عثمان کی زندگی ہی میں جنگ کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا تھا، جو اس کے متعدد جانشینوں ۔ عہد تک جاری رہا، خود عثمان نے بھی امیر کرمانیہ کوکئی بار نیچا دکھایا، لیکن سلطنت بازنطینی کے زرخیز مقبوضات زیادہ تر اس کی توجہ کامت تھے اور اس کی زندگی کے آخری چھبیس سال کے کارناموں میں بازنطینی ہی شہروں اور قلعوں کی فتوحات نمایاں ہیں۔

 

مذید:۔

تا ہم عثمان کا مقصد زندگی صرف فتوحات کا حاصل کرنا اور گردو پیش کی ریاستوں کو اپنا مطیع بنانا نہ تھا، 690ھ بمطابق (1291ء) سے697 ھ(1298ء) تک اس نے اپنی توجہ تمام ترحکومت کے انتظام واستحکام کی جانب مبذول رکھی، حکومت کے مختلف شعبے قائم کر کے حکام کا تقرر کیا اور رعایا کی فلاح و بہبود کے انتظامات میں مصروف رہا لیکن دوسرے ترک سرداروں نے ، جو عثمان کی بڑھتی ہوئی قوت سے خائف تھے، اس کی خاموشی کو کمزوری پر محمول کیا اور بازنطینی قلعہ داروں سے اتحاد کر کے اس کے مقبوضات پر حملہ آور ہوئے ، اس طرح جنگ کا جو سلسلہ 697ھ (1298ء) میں چھڑا وہ ابتدا عثمان کی طرف سے بالکل مدافعانہ تھا۔ لیکن ان حملہ آوروں کو بہت جلد اپنی غلطی کا احساس ہو گیا، عثمان نے ان سب کو شکست دی ، نواح کے چھوٹے چھوٹے سرداروں کو مطیع کیا، بازنطینی قلعے یکے بعد دیگرے فتح کیے اور بالآخر ینی شہر پر قبضہ کر کے اسے اپنی مملکت کا پایہ تخت بنایا ، 701 ھ بمطابق (1301ء ) میں عثمان کو نائیکومیڈیا سے متصل قیون حصار کے مقام پر پہلی بار شہنشاہ قسطنطنیہ کی باقاعدہ افواج سے مقابلہ در پیش آیا، جس میں اسے شان دار کام یابی حاصل ہوئی اور چھ سال کے اندر اس کی فتوحات کا دائرہ بحر اسود کے ساحل تک پہنچ گیا، بازنطینی قلعے پے در پے مسخر ہوتے گئے اور بروصہ، نا کیا اور نائیکو میڈیا کے گرد فوجی چوکیوں کا ایک مضبوط حصار قائم ہو گیا ، اس خطرے کو دور کرنے کی غرض سے بازنطینیوں نے تاتاریوں کو عثمانی مقبوضات پر حملہ کرنے کے لیے آمادہ کیا ، عثمان نے اپنے لڑکے اور خان کو حملہ آوروں کے مقابلہ میں بھیجا، تاتاریوں کو شکست فاش ہوئی اور بازنطینیوں کی اُمید کی یہ آخری کڑی بھی ٹوٹ گئی۔

 

فتح بروصہ اور عثمان  غازی کی وفات:۔

سنہ1314ء میں عثمان نے بروصہ کا محاصرہ کیا جو ایشیائے کو چک میں سلطنت بازنطینی کا ایک نہایت اہم شہر تھا۔ محاصرہ تقریبا دس سال تک جاری رہا۔ بالآخر 1324 ء میں عاجز آکر محصورین نے ہتھیار ڈال دیے اور شہر کو خالی کر دیا اور ترکی فوج اور خان کی سرکردگی میں فاتحانہ طور پر بروصہ میں داخل ہو گئی ۔ عثمان اس وقت سوغوت میں بستر مرگ پر تھا لیکن وفات سے قبل اور خان یہ خوش خبری لے کر اس کے پاس پہنچ گیا۔ عثمان نے اور خان کی ہمت و شجاعت کی داد دے کر اسے اپنا جانشین مقرر کر دیا اور بلا تفریق تمام رعایا کے ساتھ یکساں عدل و انصاف اور بھلائی کرنے کی وصیت کی۔ پھر یہ ہدایت کی کہ اسے بروصہ میں دفن کیا جائے اور اس شہر کو عثمانی ملکت کا پایہ تخت بنایا جائے ، چنانچہ اس وصیت کے مطابق اسے بروصہ میں دفن کیا گیا اور اس کی قبر پر ایک عالی شان مقبرہ تعمیرکیا گیا۔

 

سلطنتِ عثمانیہ:۔

عثمان غازی دولت عثمانیہ کا پہلا تاج دار ہے، اس بنا پر عموماً اس کے نام کے ساتھ سلطان کا لقب بھی شامل کر دیتے ہیں۔ لیکن خود اس نے اور اس کے بعد اور خان اور مراد اول نے صرف امیر ہی کا لقب اختیار کیا۔ ارطغرل کی وفات پر ان کے مقبوضات کا دائرہ سوغوت ، اس کے شہر اور چند مواضعات پر ختم ہو جاتا تھا۔ عثمان نے اپنی چھبیس سال کی حکومت میں اس دائرہ کو جنوب میں کوتاہیہ اور شمال میں بحر مارمورا اور بحر اسود کے ساحلوں تک وسیع کر دیا۔ اس کی قلمرو کا طول تقریباً 120 میل اور عرض تقریبا 60 میل تھا۔

 

عثمان غازی کی عاجزی:۔

عثمان غازی میں وہ تمام اوصاف پائے جاتے تھے جو ایک بانی سلطنت کے لیے ضروری ہیں ، اس کی ہمت اور شجاعت غیر معمولی تھی ، اسے قیادت کا ملکہ خدا داد حاصل تھا، میدان جنگ میں اس کی بہادری سپاہیوں میں دلیری کی روح پھونک دیتی تھی اور انتظام حکومت میں اس کی دانش مندی رعایا کے دلوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتی تھی ، اس کے عدل و انصاف کی شہرت تمام ملک میں پھیلی ہوئی تھی، اس کی عدالت میں ترک و تا تار مسلم و عیسائی سب برابر تھے، رعایا کی بہبودی اس کا نصب العین اور ملک کی خوش حالی اس کا مطمع نظر تھا، قرون اولٰی کے مجاہدوں کی طرح اس کا طرز زندگی نہایت سادہ اور نمائش سے یکسر پاک تھا، دولت اس نے کبھی جمع نہیں کی، تمام مالِ غنیمت غریبوں اور یتیموں کا حصہ نکالنے کے بعد سپاہیوں میں تقسیم کر دیتا تھا، ینی شہر میں اس کے رہنے کا جو مکان تھا، اس میں سونے، چاندی یا جواہرات کی قسم کی کوئی چیز بھی اس کے مرنے کے بعد نہیں ملی ، صرف ایک کفتان ، ایک سوتی عمامہ، لکڑی کا ایک چمچہ ، ایک نمک دان ، چند خالص عربی گھوڑے، زراعت کے لیے چند جوڑی بیل اور بھیڑوں کے کچھ گلے، علم اور اسلحہ کے علاوہ، بس یہی اس کی ساری کائنات تھی ، وہ نہایت فیاض، نہایت رحم دل اور نہایت مہمان نواز تھا، ان خصوصیات کی وجہ سے اس کی ہر دل عزیزی عام تھی، چنانچہ تخت نشینی کے موقع پر جب اس کی تلوار جو ابھی تک محفوظ ہے، اس کے جانشینوں کی کمر سے باندھی جاتی تھی تو ساتھ ساتھ یہ دُعا بھی کی جاتی تھی کہ خدا اس میں بھی عثمان ہی جیسی خوبیاں پیدا کر دے۔“

اللہ عثمان غازی کی قبر پر رحمتیں نازل فرمائے۔

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

قسطنطنیہ کی فتح

سلطنت عثمانیہ نے  قسطنطنیہ کو فتح کرنے اور بازنطینی سلطنت کو ختم کرنے کے لیے کی بار اس شہر کا محاصرہ کیا۔ لیکن یہ محاصرے صلیبیوں کے حملے،تخت کے لیے خانہ جنگی،بغاوت اور امیر تیمور کے…

مزید پڑھیں
سلطنت عثمانیہ"600سالہ دور حکومت کی لاذوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ جسے دولتِ عثمانیہ اور خلافتِ عثمانیہ کہا جاتا ہے یہ تقریباً سات سو سال تک  قائم رہنے والی  مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت  تھی۔یہ سلطنت 1299ء سے1922 تک قائم رہنے والی مسلمان سلطنت تھی  جس کے حکمران ترک…

مزید پڑھیں
سلطنتِ عثمانیہ کے عروج و زوال کی لازوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ اسلام کی مضبوط ترین اور  عظیم الشان سلطنت تھی۔ترکوں کی یہ عظیم سلطنت جو 600 سالوں سے زیادہ عرصے پر محیط تھی،اس کی سرحدیں یورپ ایشیا اور افریقہ تک پھیلی ہوی تھیں ،یہ خانہ بدوش ایشیا مائنر سے…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں