سلطان سلیم کے ہاتھوں مصر کی مملوک سلطنت کے خاتمے کی مکمل تاریخ۔

"جب تاریخ کے میدان میں دو عظیم سلطنتیں آمنے سامنے آئیں، تو فیصلہ صرف تلواروں کی گھن گرج نے نہیں بلکہ قیادت، حکمت اور حوصلے نے کیا!"
16ویں صدی کا مشرق وسطیٰ ایک طوفانی دور سے گزر رہا تھا۔ عثمانی سلطان سلیم اوّل، ایک ایسا جنگجو بادشاہ، جس کی نگاہیں محض فتح پر نہیں بلکہ اسلامی دنیا کی قیادت پر مرکوز تھیں، مملوكوں کی طاقتور سلطنت کو چیلنج کرنے کے لیے تیار تھا۔ مملوك، جو صدیوں سے مصر، شام اور حجاز کے حکمران تھے، ایک ناقابل تسخیر قوت سمجھے جاتے تھے—لیکن تاریخ نے کچھ اور فیصلہ کر رکھا تھا۔
یہ محض ایک جنگ نہیں تھی، بلکہ ایک ایسی مہم تھی جس نے اسلامی دنیا کا سیاسی نقشہ ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ سلطان سلیم کی برق رفتاری، غیر متزلزل قیادت، اور حیران کن جنگی چالوں نے مملوكوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ لیکن آخر وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے عثمانیوں کو اس شاندار فتح سے ہمکنار کیا؟ سلطان سلیم کی حکمت عملی کیا تھی؟ مملوك کہاں غلطی کر بیٹھے؟ اور یہ جنگ اسلامی تاریخ میں کیوں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے؟
آئیے، اس تاریخی داستان میں غوطہ لگائیں اور جانیں کہ کیسے سلطان سلیم نے نہ صرف ایک سلطنت کو شکست دی، بلکہ ایک نئے دور کی بنیاد رکھی!
شام و مصرکی فتح:۔
ایران کے بعد سلطان سلیم شام اور مصرکی طرف متوجہ ہوا، یہ ممالک ڈھائی سو برس سے سلاطین مملوک کے زیر حکومت تھے۔ سلطان سلیم کے زمانہ میں ان کا حکمران قانصوہ غوری تھا، اسےسلطانِ مصر و حجاز کی فرماں روائی بھی حاصل تھی ، دولت عثمانیہ اور سلطنت مصر کے تعلقات کے سلطان سلیم اور بایزید ثانی ہی کے دور سے غیر خوش گوار تھے، جولڑائیاں ان کے درمیان ہوئی تھیں ان میں عثمانیوں کو ہزیمت اٹھانی پڑی تھی۔ لیکن سلطان سلیم کی تخت نشینی کے بعد قانصوہ غوری کو معلوم ہو گیا کہ اب سلطنت عثمانیہ کی عنان حکومت ایک ایسے فرماں روا کے ہاتھ میں ہے، جو بایزید ثانی سے بالکل مختلف ہے، یہی وجہ تھی کہ اس نے شاہ اسماعیل کی دعوت پر دولت عثمانیہ کے خلاف ایران سے اتحاد کر لیا تھا۔ کردستان اور دیار بکر کی فتح کے بعد عثمانی اور شامی مقبوضات ایک دوسرے سے بالکل قریب ہو گئے تھے، قانصوہ غوری نے 522ھ بمطابق (1516ء) میں ایک زبردست فوج شام کے علاقہ میں متعین کر دی تھی، تا کہ افواج عثمانی کی نقل و حرکت کی نگرانی ہوتی رہے، سنان پاشا نے جو ایشیائے کو چک کے جنوب مشرق میں ترک لشکر کا سپہ سالار تھا، اس واقعہ کی اطلاع سلیم کو دی اور لکھ بھیجا کہ ایسی صورت میں سلطان کے حسب ہدایت وادی فرات کی طرف کوچ کرنا خطرہ سے خالی نہ ہوگا سلطان سلیم نے قسطنطنیہ میں دیوان منعقد کر کے اس مسئلہ کو غور و بحث کے لیے پیش کیا۔
مسلمانوں میں انتشار:۔
یہ مسئلہ محض سلطنت مملوکیہ اور دولت عثمانیہ کی قوت آزمائی کا نہ تھا۔ خلافت عباسیہ کے مصر میں منتقل ہونے کے بعد اسلام کی متحدہ سیاسی قوت پارہ پارہ ہوگئی تھی اور خلیفہ کا اقتدار صرف مذہبی رہ گیا تھا، سلطان سلیم کے ابتدائے عہد میں دنیائے اسلام کے ضعف و انتشار کی جو حالت تھی ، اس کا اندازہ مولانا سید سلیمان ندوی کے محققانہ رسالہ خلافت عثمانیہ کے حسب ذیل اقتباسات سے ہو سکتا ہے:
نویں صدی کے اواخر میں دُنیائے اسلام کے نقشہ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اس عظیم الشان جمہوریت کا قالب بے جان ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا ، اس کے دل و دماغ (خلافت مصر ) کی کمزوری اور ضعف کا یہ حال پہنچا ہے کہ وہ دور کے اجزائے بدن کی تو کیا آس پاس کے اعضا کی قوت کا سہارا بھی نہیں رہے ہیں، بڑی بڑی سلطنتیں اور حکومتیں چھوٹی چھوٹی ریاستوں ، امارتوں اور ٹکڑیوں میں بٹ گئی ہیں، ہندوستان سے لے کر اسپین تک آپ کو یہی کیفیت اور یہی نقشہ نظر آئے گا، ہندوستان کی طاقت سندھ، گجرات، مالوہ، احمدنگر، بیجاپور، برہان پور، بیدر، کشمیر، جون پور، بنگال، دہلی وغیرہ صوبہ دار حکومتوں میں منقسم ہو گئی ہے، ترکستان میں بخارا، بلخ ، خوارزم ، مرو اور کاشغر میں بیسیوں خان چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر حکمران ہیں، روس کا علاقہ کریمیا، قازان، استراخان میں بٹ گیا ہے، علاقہ قفقاز میں آذربائیجان، داغستان، گرجستان، سب بکھرے ہوئے اجزا ہیں، افغانستان و خراسان میں مختلف تیموری شہزادے اور ترکمانی امرا ادھر ادھر قسمت آزمائی کر رہے ہیں ، عراق ایک مستقل حکومت ہے، مصر و شام میں مملوک سلطانوں کی سلطنت ہے ، عرب چھوٹے چھوٹے شیوخ میں بٹا ہوا ہے، یہاں تک کہ یمن میں تو ایک ایک شہر کا الگ الگ امیر ہے، حجاز شرفا کے ایک خاندان کے ماتحت تھا، جو کبھی مصر کے زیر اثر بن جاتے تھے اور جب کبھی موقع ملتا تھا امام یمن سے ساز باز کر لیتے تھے، امام یمن اور سلطان مصر میں ایک سلسلہ جنگ بر پا تھا، مصر کے پار سوڈان، طرابلس، تیونس، الجزائر ، فارس کتنی ہی ریاستیں تھیں، اسپین کی ایک سلطنت کے غرناطہ، قرطبہ، طلیطلہ، شاطبہ جمس ، بطلیموس کتنے ہی ٹکڑے ہو گئے تھے، جن میں سے اب صرف ایک یا دو باقی تھے، غرض خانوادہ اسلام کا ایک ایک گھر اجڑ گیا تھا اور جامۂ خلافت کا تار تارا الگ ہو گیا تھا ۔یہ تو دنیائے اسلام کے انتشار کا نقشہ تھا ، اس انتشار سے جو نتائج پیدا ہوئے ان کی تصویر بھی مولانائے موصوف کے قلم نےھینچ دی ہے:
یورپ کے مسیحی سپاہیوں نے ایک ہی دفعہ اس پر چار گوشوں سے حملہ کیا ، 893 ھ سے روس نے ایشیائے وسطیٰ کے صحرا سے اسلام پر اپنا حملہ شروع کیا ، یہ قازان کی اسلامی ریاست تھی اور ایک طویل سلسلہ جنگ کے بعد 993ھ میں اس کا خاتمہ ہو گیا ، اس کے بعد استر خان اور کریمیا وغیرہ کی باری آئی، یہاں تک کہ اس کے ڈانڈے بحر اسود اور سرحد ایران سے آکر مل گئے ، اسپین اور پرتگال ملک اندلس میں اسلام کا 857ھ میں خاتمہ کر کے آگے کو بڑھے، اسپین نے دوستی کے پردہ میں تیونس اور الجزائر پر قبضہ کر لیا، پرتگال نے پورے افریقہ کو ناپ کر بحر عرب اور بحر ہند میں آکر اپنے ڈیرے ڈالے اور عرب اور ہندوستان کے اسلامی ساحلوں پر قتل و غارت گری کا آغاز کیا، دوسری طرف مراکش کے ساحلوں پر آکر وطاسی خاندان پر حملہ آور ہوئے ، جو مغرب میں ایک نئی اسلامی حکومت کی بنیاد ڈال رہا تھا اور آسفی ، از مور اور معمورہ پر قبضہ کر لیا صلیبی سپاہیوں کی چوتھی کمین گاہ بحر روم کے جزائر تھے، قبرص ( سائپرس ) روڈس، مالٹا اور وینس کے صلیبی دستے مصر و شام کی ناکہ بندی میں مصروف تھے، خصوصاً قبرص ، روڈس اور مالٹا تو سینٹ جان کے صلیبی مجاہدین کے بڑے بڑے مستحکم قلعے تھے، جو دن رات صرف مسلمانوں کے خون کے پیاسے رہتے تھے، اور یہی ان کی زندگی کا مذہبی فرض تھا، یہ در حقیقت گزشتہ صلیبی سپاہیوں کی یادگار اور فلسطین کی مسیحی نوے سالہ حکومت کی شکست خوردہ فوج کی نسل سے تھے، یہ بحر روم کے دربان تھے، جن کے سامنے سے کوئی اسلامی جہاز مسلمان ملکوں کو روانہ نہیں ہو سکتا تھا، قبچاق، کریمیا اور روم کے مسلمان حج نہیں کر سکتے تھے، وینس کا بازار مسلمان عورتوں کی ناموس اور مسلمان مردوں کی آزادی کی خرید وفروخت کی بڑی منڈی بن چکی تھی ، جو قیدی کسی حال میں اسلام سے پھر نا گوارا نہیں کرتا تھا، اگر مرد ہوتے وہ مصر لا کر بیچ ڈالے جاتے تھے، جہاں وہ مملوک سپاہیوں میں بھرتی کر لیے جاتے تھے اور اگر لڑکیاں ہوتیں تو وہ اٹلی کے امرا اور دولت مندوں کے عیش خانوں میں بھیج دی جاتی تھیں اور جب کبھی موقع ملتا وہ اسکندریہ تک دھاوا کرتے چلے آتے ۔
اس سے زیادہ بد قسمتی یہ کہ اس زمانہ میں 905ھ میں ایران و خراسان میں صفوی خاندان کا ظہور ہوا، جس نے تنگ بد نظری سے اسلام کے بجائے شیعیت کو اپنے سیاسی کارناموں کا مرکز قرار دیا ، اہل سنت یا تو اس ملک جلا وطن ہونے پر مجبور ہوئے یا ہنگاموں میں شہید ہوئے یا وہ شیعہ بنا ڈا لے گئے، اس سے بڑھ کر یہ کہ صفویوں نے سلطنت عثمانیہ کے باغی شہزادوں کو اپنے یہاں پناہ دی اور سلطان مصر سے خط و کتابت کر کے سلطنت عثمانیہ کے خلاف ایک متحدہ حملہ کا سامان کیا، اس کا نتیجہ با ہمی ہنگامہ آرائیاں ہوئیں اور مجموعی حیثیت سے اسلام کو نقصان پہنچایا گیا۔“
عثمانی دیوان کا فیصلہ:۔
دنیائے اسلام کی یہ حالت سلیم سے پوشیدہ نہ تھی، وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس ضعف و انتشار کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ خلافت اور سلطنت دو علیحدہ علیحدہ شخصیتوں میں تقسیم کر دی گئی ہے، اسلام کے گزشتہ اقتدار کو از سرنو قائم کرنے کے لیے اس کے نزدیک ان دونوں شخصیتوں کو ایک ہی ہستی میں مدغم کر دینا نہایت ضروری تھا اور چونکہ دولت عثمانیہ سے زیادہ طاقتور اس وقت کوئی دوسری اسلامی ریاست نہ تھی اور دفاع و جہاد کا فرض جو منصب خلافت کا پہلا مقصد ہے، ڈیڑھ سو برس سے وہی ادا کر رہی تھی ، اس لیے دنیائے اسلام کی امامت کا حق دار بھی اس سے زیادہ کوئی دوسرا نہ تھا۔ لیکن حجاز و مصر و شام پر، جو اسلامی دنیا کے اصلی عناصر تھے، مصر کے مملوک سلاطین کی حکومت تھی اور ان اجزا کو شامل کیے بغیر خلافت کا دائرہ اقتدار مکمل نہیں ہو سکتا تھا، چنانچہ جب سلطان سلیم نے سنان پاشا کی تحریر دیوان کے سامنے پیش کی تو نہ صرف قانصوه غوری کے معاندانہ روش پر غور کیا گیا جو اسماعیل سے ملا ہوا تھا اور جس نے ایران کی جنگ کے موقع پر سامان رسد کے قافلہ کو عثمانی لشکر میں جانے سے روک دیا تھا، بلکہ خلافت و امامت کے مسئلہ پر بھی مذکورہ بالا حالات کی روشنی میں بہت دیر تک بحث ہوتی رہی، بالآخر یہ طے پایا کہ حرمین شریفین کی خدمت کا حق سلطان عثمانی سے زیادہ کسی دوسرے مسلمان حکمران کو نہیں پہنچتا اور اس کے لیے جنگ ناگزیر ہے، رئیس آفندی محمد پاشا نے اس رائے کی موافقت میں ایک نہایت پر زور تقریر کی اور کہا کہ وہ دولت علیہ کا فرض ہے کہ اس حق کو بہ ذریعہ فتح حاصل کرے ، سلطان سلیم محمد پاشا کی تقریر سے اس قدر خوش ہوا کہ اسی وقت اس کو وزیر اعظم مقرر کر دیا ، غرض دیوان نے یہ فیصلہ کیا کہ پہلے قانصوہ غوری سے اطاعت کا مطالبہ کرنا چاہیے اور اگر وہ انکار کرے تو لڑائی شروع کر دی جائے۔
شام کی فتح:۔
قانصوه غوری اس وقت حلب میں مقیم تھا۔ سلطان سلیم کے ایلچی جب یہ پیغام لے کر اس کے پاس پہنچے تو اس نے برافروختہ ہو کر ان کو قید میں ڈال دیا لیکن سلطان سلیم لڑائی کا عزم پہلے ہی کر چکا تھا، ایلچیوں کے روانہ کرنے کے فوراً ہی بعد وہ خود بھی فوج کے ساتھ قسطنطنیہ سے شام کی طرف روانہ ہو گیا تھا، جب عثمانی لشکر شام کی سرحد میں داخل ہوا تو قانصوہ غوری کو اپنی غلطی کی اہمیت معلوم ہوئی ، اس نے سلیم کے ایلچیوں کو فوراً رہا کر دیا اور صلح کی گفتگو شروع کی، مگر سلطان سلیم صلح کے لیے قسطنطنیہ سے نہیں روانہ ہوا تھا، 25 رجب المرجب 922ھ (24) اگست 1516ء) کو حلب سے قریب "مرج دابق" کے میدان میں پہلا معرکہ پیش آیا ، جس نے شام کی قسمت کا فیصلہ کر دیا، مملوک نہایت بہادری سے لڑے لیکن آپس کے اختلافات سے ان کی قوت پہلے ہی کمزور ہوگئی تھی ، علاوہ بریں قانصوہ غوری کے دو فوجی سرداروں یعنی خیر ہے اور غزالی نے لڑائی شروع ہونے سے قبل سلیم سے ساز باز کر لی تھی، خیر بے حلب کا گورنر تھا اور غزالی فوج کا ایک بڑا افسر تھا، ان دونوں نے عین موقع پر غداری کی، جلبانوں کے دستوں کو لے کر جو چر کسی مملوکوں سے نیچے درجہ کے مملوک تھے اور چرکسوں سے حریفانہ رقابت رکھتے تھے، میدان جنگ سے بھاگ گئے ، قانصوہ غوری کے پاس تو پیں نہ تھیں، عثمانی توپوں کی گولہ باری نے مصری فوج کو جس کی قوت خیر بے اور غزالی کی غداری سے ٹوٹ چکی تھی ، زیادہ دیر تک میدان جنگ میں ٹھہر نے نہ دیا، صرف ایک گھنٹہ کے اندر لڑائی ختم ہوگئی ، بوڑھا سلطان قانصوه غوری بھی یہ دیکھ کر کہ اب مقابلہ بے سود ہے، بھا گا لیکن شاید اپنے ہی سپاہیوں کی بھیٹر میں دب کر مارا گیا۔
حلب کا خیر مقدم:۔
سلطان سلیم فاتح کی حیثیت سے حلب میں داخل ہوا، خیر بے نے شہر کی کنجیاں پیش کیں، باشندگان شہر نے حاضر ہو کر وفاداری کا حلف لیا مفتی وحلان مکی لکھتے ہیں کہ حلب کے باشندے اپنے علما اور صلحا کے ساتھ سروں پر قرآن رکھے ہوئے سلطان کے استقبال کو آئے ، فتح کی تہنیت پیش کی اور رحم و درگزر کے خواستگار ہوئے سلطان سلیم ان سب سے مہربانی کے ساتھ پیش آیا، پھر جب وہ جامع مسجد میں گیا تو اس کے نام کا خطبہ پڑھا گیا، پہلے سلاطین مصر کے القاب میں ” خادم الحرمین الشریفین کا لقب شامل کیا جا تا تھا۔ لیکن حلب کی فتح کے بعد جامع مسجد کا خطیب جب خطبہ دینے کھڑا ہوا تو سلطان سلیم خان کے نام کے ساتھ اس لقب کا اضافہ کیا گیا،سلطان سلیم نے اسے آئندہ کامیابی کی بشارت خیال کیا اور اس قدر خوش ہوا کہ جو حلہ پہنے ہوئے تھا ، اتار کر اسی وقت خطیب کو دے دیا۔
دیگر فتوحات:۔
حلب میں چند دنوں قیام کرنے کے بعد سلطان سلیم شام کے دوسرے شہروں کی فتح کے لیے روانہ ہوا، ہر شہر نے بغیر کسی مزاحمت کےدروازے کھول دیے اور وہاں کے لوگوں نے آگے بڑھ کر اس کا خیر مقدم کیا ، سلطان سلیم نے ان کے ساتھ بہت نرمی کا سلوک کیا ، اور اپنے الطاف و اکرام سے انہیں بالکل مطمئن کر دیا، چنانچہ دمشق، بیت المقدس، حمص اور متعدد دوسرے شہر نہایت آسانی سے فتح ہو ے۔
طومان بے:۔
شام کے اس آسانی سے فتح ہو جانے کی ایک بڑی وجہ یہ ہوئی کہ قانصوہ غوری کی وفات پر اس کے جانشین کے انتخاب کے لیے مملوکوں کے تمام بڑے بڑے فوجی سردار فوراً قاہرہ روانہ ہو گئے اور میدان عثمانیوں کے لیے خالی ہو گیا مملوکوں میں دستور یہ تھا کہ سلطان کا انتخاب چو بیس بلند پایہ امرا کیا کرتے تھے، جو فوج وحکومت کے اعلیٰ عہدوں پر مامور ہوتے تھے، چنانچہ اس موقع پر بھی یہ امرا قاہرہ میں جمع ہوئے اور انہوں نے طومان ہے کو جو اپنی حیرت انگیز شجاعت، فوجی قابلیت اور شریفانہ اوصاف و خصائل کی وجہ سے خاص طور پر متاز تھا، سلطان منتخب کیا ، طومان بے کے انتخاب سے مملوکوں میں ایک تازہ روح پیدا ہوگئی ۔
معرکه روانیه:۔
شام کی فتح کے بعد سلطان سلیم نے مصر کی طرف کوچ کی تیاری کی، ادھر طومان بے بھی مدافعت کا سامان کر رہا تھا، سب سے پہلے اس نے ایک فوج غزہ روانہ کی تاکہ عثمانی لشکر کو مصر کی طرف بڑھنے سے روکے اور خود قاہرہ کے قریب مصری افواج کے بڑے حصہ کو جمع کرنا شروع کیا ، غزہ میں مملوکوں اور عثمانیوں کے درمیان سخت مقابلہ ہوا لیکن صدر اعظم سنان پاشا کی سپہ سالاری اور ترکی توپوں کی گولہ باری نے مملوکوں کے قدم اکھاڑ دیے، اس کے بعد مصر کی سرحد تک پھر کوئی مزاحمت نہیں ہوئی اور سلطان سلیم کی فوج نے دس روز کے اندر ریگستان کو عبور کرلیا، سلطان سلیم نے اس مہم کے لیے کئی ہزار اونٹ خرید لیے تھے، ان پر فوج کے لیے پانی کے مشکیزے لدے ہوئے تھے ، مصری فوجیں قاہرہ سے تھوڑے فاصلہ پر روانیہ میں خیمہ زن تھیں، وہیں 29 ذی الحجہ 942ھ بمطابق(22) جنوری 1517ء) کو مقابلہ ہوا، اس معرکہ میں بھی اگر چہ پہلی جنگوں کی طرح توپ خانوں کی وجہ سے میدان ترکوں کے ہی ہاتھ رہا تاہم مملوکوں نے جیسی غیر معمولی شجاعت اور جاں بازی کا ثبوت دیا ، اس کی مثال تاریخ کے صفحات میں کم ملتی ہے، لڑائی کے شروع میں ہی سواروں کا ایک دستہ جو سر سے پاؤں تک لوہے میں غرق تھا، عثمانی فوج کے قلب پر جہاں سلطانی علم لہرا رہا تھا، حملہ آور ہوا، اس دستہ کی قیادت خود طومان بے اور اس کے دو بہترین افسرالان بے اور قرط بے کر رہے تھے ، ان لوگوں نے قسم کھائی تھی کہ یا تو سلیم کو زندہ گرفتار کریں نے گے یا اسے قتل، یہ قسم پوری ہوکر رہتی مگر حس اتفاق سے اس وقت بجائے سلیم کے صدر اعظم سنان پاشا وہاں چند خاص خاص فوجی افسروں کے حلقہ میں کھڑا ہوا تھا، طومان بے نے اس کو سلیم سمجھ کر ایک نیزہ ایسا مارا کہ سینہ کے پار ہو گیا، الان بے اور قرط بے نے بھی ایک ایک پاشاکو قتل کیا اوریہ تینوں بحفاظت اپنی فوج میں واپس آگئے، البتہ الان بے کو بندوق کی گولی سے ایک زخم لگ گیا تھا، یہ سب کچھ دیکھتے دیکھتے ہو گیا، طومان بے سمجھتا تھا کہ سلیم کے قتل کے بعد ترکوں کی ہمت چھوٹ جائے گی ، دوسرے مملوکوں نے بھی اپنے سرداروں کی طرح سپہ گری اور جاں بازی کا حق ادا کر دیا لیکن ان کی بے مثل شجاعت اور سرفروشی ترک توپوں کے مقابلہ میں بے سود ثابت ہوئی، پچیس ہزار مملوک سواروں کی لاشیں تحفظ وطن کی قیمت نہ ادا کر سکیں اور طومان بے کو بالآخر اپنے بقیہ سواروں کے ساتھ میدان چھوڑنا پڑا۔
قاہرہ میں قتل عام:۔
جنگ روانیہ کے ایک ہفتہ بعد عثمانی فوج کا ایک دستہ بلا مزاحمت قاہرہ میں داخل ہوا لیکن طومان بے نے آکر دفعتناً اس پر چھاپا مارا اور پورے دستہ کو تہ تیغ کر دیا ، اب سلطان سلیم نے اپنی بہترین فوجیں قاہرہ پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے روانہ کیں ،مملوکوں نے گویا ہر سڑک کو میدان جنگ اور ہر مکان کو قلعہ بنا دیا تھا، عثمانیوں کو ہر قدم پر مزاحمت کا سامنا تھا، تین دن تک نہایت سخت لڑائی ہوتی رہی، آخر کار خیر بے کے مشورے سے سلیم نے یہ اعلان کرا دیا کہ جو مملوک ہتھیار ڈال دیں گے، ان کی جانیں بخش دی جائیں گی، اس اعلان پر اعتبار کر کے مملوکوں نے لڑائی موقوف کر دی اور ان میں سے آٹھ سو ممتاز آدمیوں نے خود کو سلیم کے حوالہ کر دیا سلیم نے خلاف عبد ان سب کو قتل کر دیا ، اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ شہر کے تمام باشندے تر تیغ کر دیے جائیں، کریسی کا بیان ہے کہ پچاس ہزار آدمی اس قتل عام میں مارے گئے۔
قرط بے:۔
قرط بے کچھ دنوں تک قاہرہ میں چھپا رہا لیکن پھر سلیم کے وعدوں پر اعتماد کر کے اس نے بھی خود کو پیش کر دیا ، اس موقع پر سلیم اور قرط بے کے درمیان جو گفتگو ہوئی اسے ہم ذیل میں نقل کرتے ہیں، کریسی نے ان دونوں کی ملاقات کا حال اور ان کی گفتگو فان ہیمر کے حوالہ سے نقل کی ہے اور فان بیمر من جملہ اور اسناد کے ایک ایسے شخص کی سند بھی پیش کی ہے جو طومان بے کے دربار کا ایک عہدہ دار تھا، قرط بے جب سلیم کے سامنے آیا تو وہ فوج کے تمام بڑے بڑے افسروں کے حلقہ میں تخت پر بیٹھا ہوا تھا لیکن فاتح سلطان کی یہ شان اس بہادر مملوک کو مطلق متاثر نہ کر سکی ، سلیم نے اس کے بے خوف چہرے پر نظر ڈالی اور پوچھا:
” تو ایک نامور شہ سوار تھا ، تیری شجاعت اب کہاں ہے؟ فرط بے نے جواب دیا کہ وہ ہمیشہ سے میرے ساتھ ہے۔“
سلطان سلیم نے کہا: ”کیا تجھے معلوم ہے کہ تو نے میری فوج کے ساتھ کیا کیا ہے؟ مجھے خوب معلوم ہے ۔ یہ جواب بھی پہلے جواب کا سا مختصر تھا ، اس کے بعد سلیم نے اس دلیرانہ حملہ پر اظہار تعجب کیا جو فرط بے نے روانیہ کے میدان میں طومان بے اور الان بے کے ساتھ اس پر کرنا چاہا تھا اور جو سنان پاشا کے لیے اس قدر مہلک ثابت ہوا۔ قرط بے اپنی خوش بیانی کے لیے بھی اس قدر مشہور تھا جس قدر اپنی بہادری کے لیے ، اس نے اس کے جواب میں مملوکوں کی شجاعت پر ایک پر زور تقریر کی ، جس میں توپ اور بندوق کا ذکر نفرت اور حقارت کے ساتھ کیا کیونکہ ان کا وار بہادرانہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ بزدلانہ طریقہ پر مارتی ہیں، اس نے سلیم کو بتایاکہ بندوقیں مصر میں سب سے پہلے "اشرف قانصوہ" کے عہد میں لائی گئی تھیں، جب کہ "ماریشش" کے ایک شخص نے مملوکوں کو بندوق سے صلح کر دینے کے لیے آمادگی ظاہر کی تھی۔ لیکن سلطان اور اس کے فوجی افسروں نے جنگ میں اس بدعت کے جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ کیونکہ ایک تو یہ حقیقی شجاعت کے شایان شان نہیں ، دوسرے حضور نبی کریمؐ کے طریقہ کے بھی خلاف ہے۔ اس پر وہ شخص چیخا اوت کہنے گا تم میں سے کچھ اس وقت تک زندہ رہیں گے اور دیکھیں گے یہ سلطنت ان ہی گولیوں سے ختم ہو کر رہے گی، یہ بیان کر کے قرط بے نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور کہا کہ افسوس وہ پیشین گوئی پوری ہوئی لیکن تمام قدرت اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھوں میں ہے۔“
سلطان سلیم نے پوچھا کہ اگرتم اللہ پر بھروسہ رکھتے ہو پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم نے تمہیں شکست دی اور تمہارے قلعوں سے تم کو مار بھگایا اورخود تو اس وقت میرے سامنے ایک قیدی کی حیثیت سے کھڑے ہوئے ہو ۔ قرط بے نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم ! ہمیں شکست اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ تم لڑائی میں ہم سے زیادہ بہادر یا ہم سے زیادہ بہتر شہ سوار تھے، بلکہ ہم اس لیے ہارے کہ یہی ہماری تقدیر میں تھا۔ کیونکہ ہر وہ شے جو ابتدا رکھتی ہے، ایک روز ختم ہو کر رہے گی اور سلطنت کی مدت بھی محدود ہے، خلفا یعنی اسلام کے وہ زبردست حامی آج کہاں ہیں؟ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتور سلطنتیں کہاں ہیں؟ اے آل عثمان ! تمہارا وقت بھی آنے والا ہے اور تمہاری حکومت بھی اپنے وقت پر ختم ہو کر رہے گی، جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے اے سلطان سلیم ! میں تیرا قیدی نہیں ہوں بلکہ تیرے وعدوں اور عہد و پیمان کی بنا پر یہاں آزاد اور بے خطر کھڑا ہوں ۔
اس کے بعد قرط بے خیر بے کی طرف متوجہ ہوا جو سلیم کے پاس ہی کھڑا ہوا تھا اور اس پر نہایت سخت لعن و طعن کرنے کے بعد سلیم سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ اس غدار کا سر اُڑا دے ورنہ کہیں تجھے بھی اپنے ساتھ یہ جہنم میں گھیٹ نہ لے جائے ۔ اس پر سلیم نے غضبناک ہو کر کہا: میں نے سوچا تھا کہ تجھے آزاد کر دوں گا، بلکہ اپنے اعلیٰ فوجی عہدہ داروں میں بھی شامل کرلوں گا لیکن تو نے بے ادبی کے ساتھ گفتگو کی ہے اور میری موجودگی کا احترام ملحوظ نہیں رکھا ہے، جو شخص بادشاہوں کے حضور میں خلاف ادب طریقہ اختیار کرتا ہے ، وہ فضیحت کے ساتھ نکالا جاتا ہے۔ قرط بے نے دلیری کے ساتھ جواب دیا : اللہ مجھے تیرا عہدہ دار ہونے سے بچائے۔ یہ سن کر سلیم کا غصہ نا قابل برداشت ہو گیا اور اس نے جلادوں کو طلب کیا، قرط بے نے سلیم سے کہا: ” تنہا میرے قتل سے تجھے کیا فائدہ پہنچے گا ، جب کہ بہت سے بہادر خود تیرے سر کی فکر میں ہیں اور طومان بے اب بھی اپنی کامیابی کے لیے اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے۔ سلطان سلیم نے جلادوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا، جلاد نے جوں ہی تلوار اُٹھائی قرط بے نے ایک بار پھر خیر بے کی طرف متوجہ ہو کر کہا: "اے غدار ! میرے خون آلود سر کو لے جا اور اپنی بیوی کی گود میں ڈال دے، خدا غدار کو اس کے فعل کا ویسا ہی بدلہ دے۔ یہ آخری الفاظ تھے جو اس بہادر مملوک کی زبان سے ادا ہوئے۔
طومان بے کا قتل:۔
قاہرہ کے مفتوح ہو جانے کے بعد بھی طومان بے مایوس نہیں ہوا تھا، چونکہ کہ ملوکوں کی بہت بڑی تعداد قتل ہو چکی تھی ، اس لیے اس نے مملوک سلاطین کی سابق روایات کے برخلاف عربوں کو اپنی فوج میں داخل کیا اور چند دنوں تک کامیابی کے ساتھ عثمانی دستوں کا مقابلہ کرتا رہا سلیم نے اس کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر دولت عثمانیہ کی سیادت قبول کر لو تو مصر کا تخت تمہارے لیے چھوڑ دیاجائے لیکن قاہرہ کے غداران قتل عام اور قرط بے کے قتل سے نہ صرف سلیم کے وعدوں کا اعتبار اٹھ گیا تھا بلکہ مملکوں کی آتش غضب بھڑک اٹھی تھی، چنانچہ سلطان سلیم کا ایلچی یہ پیام لے کر طومان بے کے دربار میں پہنچا تو اس نے اسے اور اس کے تمام ہمراہیوں کو قتل کرا دیا۔ سلطان سلیم نے اس کے جواب میں تین ہزار ملوک قیدیوں کو تہ تیغ کرا دیا، ان واقعات سے یہ صاف ظاہر تھا کہ صلح کی کوئی اُمید نہیں کچھ عرصہ تک لڑائی کا سلسلہ جاری رہا، مگر بد قسمتی سے اس زمانہ میں جب عثمانی فوج حملہ کر رہی تھی ، خود عربوں اور مملوکوں میں باہم جھگڑے شروع ہو گئے ، جس سے طومان بے کی قوت کو سخت نقصان پہنچا، آخر میں اس کی تمام فوج منتشر ہو گئی اور اسے بھاگ کر روپوش ہونا پڑا لیکن بعض ساتھیوں نے اس کے ساتھ دعا کیا اور اسے عثمانیوں کے حوالہ کر دیا، سلیم کو جب کہ اس کی گرفتاری کی اطلاع ہوئی تو وہ جوش مسرت میں چلا اٹھا کہ الحمد للہ ! مصراب فتح ہوا گا ۔“
بہر حال اس نے شروع میں طومان بے کے ساتھ مناسب عزت واحترام کا سلوک کیا لیکن چند دنوں کے بعد غزالی اور خیر بے نے طومان بے کے خلاف اس کے کان بھرنا شروع کیے اور اسے یقین دلایا کہ طومان بے کو آزاد کرانے کے لیے ایک زبر دست سازش کی جارہی ہے سلیم نے ان غداروں کے فریب میں آکر طومان بے کو قتل کر دیا، سلاطین مصر کے مملوکی سلسلہ کی یہ آخری کڑیتھی جو 17 اپریل 1517ء کوٹوٹ گئی۔
خلافتِ عثمانیہ:۔
غرض حرمین شریفین کی خدمت کا شرف جب سلطان سلیم کو حاصل ہو گیا تو آخری عباسی خلیفہ المتوکل نے جو قاہرہ میں سلاطین مملوک کے زیر سایہ ظاہری شان و شوکت کے ساتھ مگر حقیقتاً بغیر کسی اختیار واقتدار کے زندگی بسر کر رہا تھا، خلافت کے تمام حقوق و امتیازات بھی اسے تفویض کر دیے اور مقامات مقدسہ وحرمین شریفین کی کنجیاں، نیز بعض آثار نبویہ مثلاً حضور نبی کریمؐ کی تلوار مبارک، علم مبارک اور چادر مبارک بطور سند خلافت اس کے حوالہ کر دیے، اس تاریخ سے سلاطین عثمانی خلیفہ کے لقب سے دنیا میں مشہور ہوئے اور خطبوں میں ان کا ذکر بحیثیت امیر المومنین کے ہونے لگا ، اس میں شبہ نہیں کہ اس وقت دنیائے اسلام کی خلافت کا حق بھی انہی کو پہنچتا تھا، کوئی دوسری اسلامی سلطنت طاقت اور وسعت میں دولت عثمانیہ کے برابر نہ تھی، یہی سلطنت تمام دوسری سلطنتوں سے زیادہ شرع وملت کی حفاظت کی طاقت رکھتی تھی اور قریباً ڈیڑھ صدی سے جہاد کا فرض ادا کرتی آرہی تھی، چنانچہ یہی وجہ تھی کہ جب سلطان سلیم کی خلافت کا اعلان کیا گیا تو دُنیائے اسلام کے کسی گوشہ سے اس کی مخالفت نہیں ہوئی ، اس منصب کے لیے سلاطین عثمانی کا حق اس قدر مسلم سمجھا گیا کہ سلطان سلیم کے عہد سے لے کر گزشتہ صدی تک پوری چار صدیوں میں ایک مدعی خلافت بھی ان کے مقابلہ میں نہ اٹھا، بنوامیہ اور عباسیہ کے عہدوں میں خلافت کے بہت سے دعوے دار نظر آتے ہیں لیکن خلفائے عثمانیہ کی پوری تاریخ میں کسی ایک حریف کو بھی سامنے آنے کی جرات نہیں ہوئی۔
منصب خلافت پر فائز ہو جانے سے سلطان کا اثر و اقتدار بہت بڑھ گیا، حکومت کے علاوہ اب اسے اپنی مسلمان رعایا کی مذہبی پیشوائی بھی حاصل ہوگئی اور اس دینی اقتدار کا دائرہ صرف سلطنت عثمانیہ کے مسلمان باشندوں تک محدود نہ رہا بلکہ اس کے اندر تمام دنیائے اسلام کے باشندے آگئے ، خواہ وہ کسی قوم یا ملک کے ہوں ، علاوہ ایرانیوں اور بعض دوسری شیعی جماعتوں کے جو ہمقابلہ اہل سنت والجماعت کے تعداد میں بہت کم ہیں۔
سلطان سلیم کی واپسی:۔
مصر اور حجاز کے ضروری انتظامات سے فارغ ہو کر شعبان 923ھ (ستمبر 1517ء) میں سلطان سلیم شام کی طرف واپس ہوا، ہزار اونٹ سونے اور چاندی سے لدے ہوئے ساتھ تھے، مال غنیمت کا زیادہ قیمتی حصہ جہازوں کے ذریعہ اس سے پہلے قسطنطنیہ بھیجا جا چکا تھا، انہی جہازوں پر قاہرہ کے بہترین صناع اور کاریگر بھی روانہ کیے گئے تھے، جو قسطنطنیہ لے جا کر آباد کیے گئے ، 20 رمضان المبارک کو سلطان سلیم دمشق پہنچا اور وہاں 22 صفر 924ھ تک قیام کیا ، دمشق سے حلب گیا اور وہاں بھی دو مہینہ قیام کیا، اس مدت میں اس نے شام کی حکومت کے انتظامات کیے 17 رجب المرجب 924ھ (25 جولائی 1518ء) کو وہ قسطنطنیہ پہنچا، اس کو وہاں سے روانہ ہوئے صرف دو سال گزرے تھے، اس تھوڑی مدت میں اس نے شام ، مصر اور حجاز کو فتح کر کے سلطنت مملوکیہ کا خاتمہ کر دیا اور سلطنت عثمانیہ کے رقبہ کو تقریبا دو چند کر دیا۔
اسپین سے معاہدہ:۔
سلطان سلیم جب قسطنطنیہ واپس آیا تو اسپین کا سفیر عیسائیوں کے لیے بیت المقدس کی زیارت کی اجازت حاصل کرنے کی غرض سے اس کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کے معاوضہ میں وہ رقم جو پہلے سلاطین مصر کو دی جاتی تھی ، دولت عثمانیہ کو ادا کرتے رہنے کا وعدہ کیا سلیم نے اس درخواست کو منظور کر لیا۔
روڈس پر حملے کی تیاریاں:۔
اس کے بعد سلطان سلیم دولت عثمانیہ کی بحری طاقت کو ترقی دینے کی طرف متوجہ ہوا، اس نے مختلف سائز کے ڈیڑھ سونئے جہاز بنوائے ، ان کے علاوہ سو جہاز اور بھی بنوائے اور حکم دیا کہ وہ کسی مہم پر روانہ ہونے کے لیے ہر وقت پوری طرح مسلح اور تیار رکھے جائیں، ساٹھ ہزار فوج بھی بمع ایک بڑے توپ خانہ کے ایشیائے کو چک میں اکٹھا کی گئی، بعض لوگ خیال کرتے تھے کہ یہ تیاریاں ایران پر حملہ کی غرض سے کی جارہی ہیں لیکن عام رائے یہ تھی کہ حملہ روڈس پر ہونے والا ہے، جہازوں، بندرگاہوں اور سلاح خانوں کی تعمیر سے اس رائے کی تائید ہوتی تھی۔ سلطان سلیم نہایت انتہاک کے ساتھ ان تیاریوں میں مصروف تھا اور اس مہم کو اس وقت تک ملتوی کھنا چاہتا تھا ، جب تک روڈس جیسے مضبوط قلعہ پر کامیابی کے ساتھ حملہ کرنے کے لیے کافی سامان فراہم نہ ہو جائے ، چنانچہ ایک روز سلطان سلیم نے اپنے وزیروں کو بلا کر کہا کہ تم روڈس کی فتح کے لیے مجھ سے عجلت کرانا چاہتے ہو، مگر تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ایسی مہم کے لیے کتنے سامان کی ضرورت ہے تم بتا سکتے ہو کہ اس وقت کسی قدر با رود تمہارے پاس موجود ہے؟ وزرا اس سوال کے جواب کے لئے تیار نہ تھ۔ے لیکن دوسرے روز انہوں نے آکر سلیم سے کہا کہ ہمارے پاس چار مہینے کے محاصرہ کے لیے کافی سامان موجود ہے۔“ سلطان سلیم یہ سن کر برافروختہ ہوا اور کہنے لگا کہ چار ماہ کے سامان جنگ سے کیا ہوتا ہے، جب کہ اس کی دو چند مقدار بھی کافی نہ ہوگی، کیا تم چاہتے ہو کہ سلطان محمد ثانی کی سی رُسوائی مجھے بھی نصیب ہو، میں اس وقت تک لڑائی نہیں شروع کروں گا اور نہ ایسی نا کافی تیاریوں کے ساتھ روڈس کا سفر کروں گا، علاوہ بریں میرا خیال ہے کہ اب مجھے صرف ایک ہی سفر اختیار کرنا ہے یعنی سفر آخرت ۔
وفات:۔
اس کا یہ خیال صحیح ثابت ہوا وہ ادرنہ کے لیے قسطنطنیہ سے روانہ ہوا، مزاج پہلے ہی سے ناساز تھا، مگر طبیبوں کی ممانعت کے باوجود اس نے گھوڑے کی سواری نہ چھوڑی، راستہ میں مرض کی شدت اتنی بڑھی کہ اسے ایک چھوٹے سے گاؤں میں اُتر جانا پڑا اور و ہیں 9 شوال 926ھ (22) ستمبر 1530ء) کو اپنی حکومت کے نویں اور عمر کے چونویں سال میں اس کا انتقال ہو گیا۔
تبصرہ کریں