ناحق قتل ہونے والے مظلوم عثمانی شہزادے"مصطفیٰ" کی مکمل تاریخ۔

شہزادہ مصطفیٰ: ایک مظلوم ولی عہد کی داستان
ایک سنہری دور کا آغاز:۔
یہ 1515ء کا سال تھا، جب سلطنتِ عثمانیہ کی فتوحات کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ اس شان و شوکت کے دور میں، جب سلطان سلیمان قانونی تخت پر بیٹھے تھے، ان کے محل میں ایک ننھے شہزادے کی پیدائش ہوئی یہ تھا "شہزادہ مصطفیٰ"۔مصطفیٰ کی والدہ "مہی دیوران سلطان" تھیں، جو سلطان سلیمان کی ابتدائی بیویوں میں شامل تھیں۔ وہ ایک نہایت حسین، باوقار اور ذہین خاتون تھیں، جنہوں نے مصطفیٰ کی تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ سلطان سلیمان اپنے بیٹے سے بےحد محبت کرتے تھے اور سبھی درباری یہ سمجھتے تھے کہ یہی شہزادہ مستقبل کا سلطان ہوگا۔
بچپن اور ابتدائی تربیت:۔
شہزادہ مصطفیٰ ایک ذہین، نڈر اور خوبصورت نوجوان تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی، جو اس کے غیر معمولی ہونے کا ثبوت دیتی تھی۔ سلطنتِ عثمانیہ کے ولی عہد ہونے کے ناطے، اسے بہترین تعلیم دی گئی:
فنونِ حرب:۔ گھڑسواری، تلوار بازی، اور جنگی حکمتِ عملی میں ماہر بنایا گیا۔
ادب اور شاعری:۔ عربی، فارسی اور ترک زبانوں میں مہارت حاصل کی۔
فقہ اور تاریخ:۔ اسلامی تعلیمات اور عثمانی تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا۔
کہا جاتا ہے کہ مصطفیٰ میں اپنے دادا، سلطان سلیم اوّل کی بہادری اور اپنے والد سلطان سلیمان کی دانائی دونوں موجود تھیں۔ عوام میں بھی وہ بےحد مقبول تھا، کیونکہ وہ عدل و انصاف کا حامی، سخی اور رعایا کے دلوں پر حکمرانی کرنے والا ولی عہد تھا۔
شہزادہ مصطفیٰ کی ترقی اور ہر دلعزیزی:۔
سلیمان نے مصطفیٰ کو ایک صوبے کا حاکم بنا دیا تھا، جہاں اس کی غیر معمولی صلاحیتیں نمایاں ہونے لگیں۔ اس میں سلطان کے تمام اعلیٰ اوصاف پائے جاتے تھے، اور وہ فوج کا محبوب اور رعایا کے لیے امید کی کرن تھا۔ لیکن یہ مقبولیت ہی اس کے زوال کی سب سے بڑی وجہ بنی۔
ہُرم سلطان کی آمد: اقتدار کی کشمکش:۔
مصطفیٰ کی زندگی میں اصل طوفان اس وقت آیا جب"ہُرم سلطان (روکسیلانا)" نے حرم میں قدم رکھا۔ ہُرم سلطان ایک طاقتور، ذہین اور چالاک خاتون تھیں، جنہوں نے سلطان سلیمان کے دل میں اپنی جگہ بنالی۔ جلد ہی، وہ سلطان کی سب سے محبوب بیوی بن گئیں اور اپنے بیٹوں کو تخت پر بٹھانے کے لیے سازشیں شروع کر دیں۔ہُرم سلطان چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا سلیم مستقبل کا سلطان بنے، جبکہ مصطفیٰ پہلے ہی ولی عہد تھا۔ ہُرم نے وزیرِاعظم رستم پاشا کو اپنا اتحادی بنایا، جو سلطنت کے طاقتور ترین افراد میں سے ایک تھا۔ ہُرم اور رستم پاشا نے سلطان کو یقین دلایا کہ مصطفیٰ بغاوت کی تیاری کر رہا ہے۔
ایک باپ کے ہاتھوں بیٹے کا قتل:۔
یہ سال 1553ء تھا۔ سلطان سلیمان ایران کے خلاف جنگ میں مصروف تھے اور ان کا لشکر کونیا کے قریب خیمہ زن تھا۔ رستم پاشا نے سلطان کو مزید ورغلایا کہ مصطفیٰ تخت کے لیے بغاوت کر سکتا ہے۔مصطفیٰ کو سلطان سلیمان کا پیغام ملا کہ وہ دربار میں حاضر ہو۔ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ دربار اس کی زندگی کا آخری دربار ہوگا۔ جیسے ہی وہ خیمے میں داخل ہوا، اسے سلطان کے محافظوں نے گھیر لیا۔مصطفیٰ نے مزاحمت کی، مگر وہ بے بس تھا۔ سلطان کے حکم پر ریشمی ڈوری سے اس کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ وہ عظیم سپہ سالار، وہ بے مثال ولی عہد، اپنے ہی باپ کے حکم پر مارا گیا۔
بایزید کی بغاوت اور انجام۔
مصطفیٰ کی ہلاکت کے بعد دوسرا شہزادہ بایزیدبھی سلیم کی خاطر قتل کر دیا گیا۔بایزید جانتا تھا کہ وہ زیادہ دن محفوظ نہیں رہے گا۔ کچھ مشیروں نے اسے قسمت آزمائی کے لیے آمادہ کیا، اور 1561ء میں اس نے سلیم کے خلاف بغاوت کر دی۔- لیکن سلیم کے ساتھ سلطان سلیمان کی طاقت بھی تھی، اور بایزید کو شکست ہو گئی۔ بایزید ایران فرار ہوا، جہاں شاہ طہماسپ نے اس کا خیر مقدم کیا۔
مگر عثمانی سلطنت کی دھمکیوں اور رشوت کے باعث شاہ طہماسپ نے بایزید اور اس کے چاروں بیٹوں کو سلطان سلیم کے سفیروں کے حوالے کر دیا، جنہوں نے فوراً انہیں قتل کر دیا۔
تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ:۔
سلطان سلیمان افسردہ ہو گئے: وہ بعد میں پچھتاتے رہے، مگر جو ہو چکا تھا، اسے بدلا نہیں جا سکتا تھا۔
فوج میں بغاوت کی فضا:مصطفیٰ کی فوج نے بغاوت کا ارادہ کیا، مگر جلد ہی انہیں دبایا گیا۔
سلطنت کا زوال: بعض مؤرخین کا ماننا ہے کہ مصطفیٰ کا قتل سلطنت عثمانیہ کے زوال کی ابتدا تھی۔
ہُرم سلطان کا خواب پورا ہوا: اس کے بیٹے سلیم کو سلطان بنانے کا راستہ صاف ہو گیا۔
کیا مصطفیٰ واقعی بغاوت کر رہا تھا؟
تاریخ آج بھی اس سوال کا جواب تلاش کر رہی ہے کہ کیا مصطفیٰ واقعی اپنے باپ کے خلاف سازش کر رہا تھا، یا وہ ایک معصوم ولی عہد تھا جو محلاتی سازشوں کا شکار ہو گیا؟
بیشتر مؤرخین کا ماننا ہے کہ مصطفیٰ بے گناہ تھا اور اسے صرف اقتدار کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ وہی مصطفیٰ جسے ایک دن سلطان مصطفیٰ اول بننا تھا، تاریخ میں مظلوم شہزادےکے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
تبصرہ کریں