/ تاریخِ اسلام / خلافتِ عثمانیہ

سلطنتِ عثمانیہ کے نویں سلطان سلیم اول کی ابتدائی زندگی کی تاریخ۔

سلطان سلیم اوّل: ایک عظیم عثمانی حکمران

جب تاریخ کے اوراق پلٹے جاتے ہیں تو سلطنتِ عثمانیہ کے وہ نامور حکمران سامنے آتے ہیں جنہوں نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ انہی میں سے ایک نام سلطان سلیم اوّل کا ہے، جو اپنی جنگی مہارت، فیصلہ سازی اور غیر معمولی قیادت کی وجہ سے مشہور ہوا۔

سلطان سلیم اوّل، جنہیں "یوز سلیم" یعنی "سخت گیر سلیم" بھی کہا جاتا ہے، 1512ء میں سلطنتِ عثمانیہ کے تخت پر جلوہ افروز ہوئے۔ انہوں نے صرف آٹھ سال کی قلیل مدت میں ایسی شاندار فتوحات حاصل کیں کہ عثمانی سلطنت کی حدود تین گنا بڑھ گئیں۔ وہ ایک بے باک، ذہین اور غیر متزلزل حکمران تھے، جنہوں نے خلافتِ عباسیہ کو باضابطہ طور پر عثمانیوں کے تحت لا کر خلافتِ اسلامیہ کو مضبوط تر کر دیا۔

ان کی فتوحات کا دائرہ ایران سے لے کر مصر تک پھیلا ہوا تھا، اور انہوں نے مملوک سلطنت کا خاتمہ کر کے حجاز، مکہ اور مدینہ کو عثمانی سلطنت میں شامل کر لیا۔ یوں وہ نہ صرف ایک فاتح حکمران کے طور پر سامنے آئے بلکہ خادم الحرمین الشریفین کا مقدس لقب بھی حاصل کیا۔

سلطان سلیم اوّل کا دورِ حکومت اگرچہ مختصر تھا لیکن ان کی کامیابیاں طویل عرصے تک سلطنتِ عثمانیہ کی بنیادوں کو مستحکم کرتی رہیں۔ وہ اپنی بہادری، غیر معمولی تدبر اور حکمت عملی کی وجہ سے آج بھی تاریخ میں ایک ناقابلِ فراموش شخصیت کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں۔

 

آج ہم سلطان سلیم کی تخت نشینی کے ابتدائی چند سالوں کی تاریخ کا احاطہ کریں گے۔

جس وقت سلیم نے بایزید کو تخت سے اتار کر زمام سلطنت اپنے ہاتھ میں لی وہ سینتالیس سال کی پختہ عمر کو پہنچ چکا تھا اور اس کی فوجی اور انتظامی قابلیت پوری طرح مسلم ہو چکی تھی ، اس نے صرف آٹھ سال حکومت کی لیکن اس قلیل مدت میں سلطنت عثمانیہ کی وسعت کو دو چند کر دیا کہ اس نے یورپین مقبوضات میں کوئی اضافہ نہیں کیا مگر ایشیا میں دیار بکر ، کردستان، شام، مصر اور عرب کا ایک بڑا حصہ جس میں حرمین شریفین بھی داخل تھے، فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا، اس کی فتوحات کی وسعت ، اعلیٰ فوجی قابلیت اور انتظام سلطنت کی غیر معمولی اہلیت نے اس کو سلاطین آل عثمان کی صف اول میں ایک ممتاز جگہ دی ہے، ان خصوصیات کے علاوہ علم و فضل میں بھی اس کا پایہ نہایت بلند تھا، وہ رات کو بہت کم سوتا اور زیادہ تر وقت کتابوں کے مطالعہ میں صرف کرتا ، اس کو تاریخ اور فارسی شاعری سے خاص دلچسپی تھی ، فارسی زبان میں اس نے کچھ نظمیں خود بھی لکھیں، محمد فاتح کی طرح وہ بھی سیزر اور سکندر کے کارنامے نہایت شوق سے پڑھا کرتا تھا، اس کو حرم کی زندگی سے بہت کم دلچسپی تھی ، دن میں سلطنت کے کاموں سے جو وقت بچتا، اس کا بیش تر حصہ وہ علما کی صحبت میں گزارتا ، وہ اہل علم کو بڑے بڑے عہدوں پر بھی مامور کرتا، مثلاً جب کردستان کا صوبہ فتح ہوا تو اس نے مؤرخ ادر یس کو وہاں کا والی مقرر کیا۔ لیکن علم کا شوق اور علما کی ہم نشینی اس کے مزاج میں نرمی پیدا نہ کر سکی، اس کی طبیعت حد درجه اشتعال پذیر تھی ، وہ کسی امر میں خفیف کی مخالفت بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا اور جو لوگ اس کی رائے سے ذرا بھی اختلاف کرنے کی جرات کرتے ، ان کو فوراً قتل کرا دیتا تھا، اس کے مختصر عہد حکومت میں سات وزیر اعظم اس کے حکم سے قتل ہوئے ، ان کے علاوہ متعدد فوجی اور ملکی عہدہ داروں کو بھی اس کی ناخوشی کی پاداش میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا، جو لوگ وزیر اعظم کے عہدہ پر مقرر کیے جاتے تھے، ان کو اپنے انجام کا اتنا یقین ہوتا تھا کہ وہ اس ہلاکت آفریں ذمہ داری کو قبول کرنے سے پہلے ایک وصیت نامہ لکھ کر چھوڑ جاتے تھے اور اکثر ان کی پیش بینی صحیح ثابت ہوتی تھی، چنانچہ ایک روز وز یر اعظم پیری پاشا نے سلیم سے عرض کیا کہ :۔

اے میرے بادشاہ! میں جانتا ہوں کہ جلد یا بدیر تجھے اس وفادار غلام کو قتل کرنے کا کوئی نہ کوئی حیلہ مل جائے گا، لہذا التجا ہے کہ قتل سے پہلے مجھے تھوڑی مہلت عطا فرما تاکہ میں اس دنیا سے متعلق اپنے کاروبار کا انتظام کرلوں اور تیرے حکم سے دوسری دنیا میں جانے کے لیے تیار ہو جاؤں ۔“

سلیم نے اس درخواست پر ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ میں کچھ دنوں سے تیرے قتل کی نسبت غور کر رہا ہوں۔ لیکن فی الحال تیرا کوئی جانشین مجے نظرنہیں آتا، ورنہ تیری یہ درخواس میں بہ خوشی منظور کر لیتا۔ لیکن اس کی سخت بینی ظل سے تعبیرکی جاتی ہے،جو ایک خاص اصول کے ماتحت تھی ، وہ جو کچھ کرتا تھا ، سلطنت کے لیے کرتا تھا، وہ دیکھ چکا تھا کہ اس کے باپ کے نرم رویے نے حکومت کے تمام شعبوں میں بدنظمی پیدا کر دی تھی ، فوج میں خود سری آگئی تھی، وزرا اپنے فرائض کو بھولے ہوئے تھے، قاضیوں کے فیصلوں میں جانبداری کی جھلک نمایاں تھی ، اس حالت کو سدھارنے کے لیے سختی ناگزیر تھی اور گو بعض اوقات سزا کی شدت جرم کی شدت سے بڑھ جاتی تھی ، تاہم اس سخت گیری کا عام اثر نہایت مفید ثابت ہوا اور وہ تمام خرابیاں دور ہوگئیں، جو حکومت کی بنیاد کو متزلزل کر دینے کے لیے کافی تھیں، مؤرخین نے سلطان سلیم کو ظالم لکھا ہے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ان مظالم کے باوجود وہ رعایا میں نہایت مقبول تھا، جو طرز عمل بڑے لوگوں کے لیے ظلم کا حکم رکھتا تھا ، وہی رعایا کے حق میں رحمت بن گیا تھا۔

 

بھائیوں کی بغاوت:۔

سلطان سلیم نے جس وقت بایزید کو تخت سے اُتار کر سلطنت پر قبضہ کیا تھا ، اس کے دونوں بڑے بھائی کر کود اور احمد ایشیائے کوچک کے دو صوبوں کے حاکم تھے، ابتدا میں ان دونوں نے اطاعت کا اظہار کیا،لیکن سلطان سلیم ان کی طرف سے مطمئن نہ ہوا، اس کو تخت پر بیٹھے چند ہی روز گزرے تھے کہ شہزادہ احمد نے ، جو اماسیا کا حاکم تھا علم بغاوت بلند کر کے بروصہ پر قبضہ کر لیا۔ سلیم فوراً ایشیائے کو چک پہنچا ، احمد بروصہ چھوڑ کر بھاگا اور اپنے دولڑکوں کو شاہ اسماعیل کے پاس مدد حاصل کرنے کے لیے ایران روانہ کیا سلیم نے گو بروصہ پر قبضہ کر لیا لیکن اس کی فوج کے بعض افسر شہزادہ احمد سے جاملے اور لڑائی پھر چھڑ گئی ، ابتدا میں احمد کو چند معمولی فتوحات حاصل ہوئیں لیکن بالآخر اسے اپنی جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا سلیم نے وزیر اعظم مصطفی پاشا کو، جو احمد سے مل گیا تھا، پھانسی دے دی اور اس کے بعد اپنے پانچ بھتیجوں کو، جو بروصہ کے بعض امرا کے گھروں میں چھپے ہوئے تھے، گرفتار کر کے مروا ڈالا، یہ شہزادے اس کے مرحوم بھائیوں شہنشاہ شاہ عالم اور محمود ( جو بایزید کی حیات ہی میں وفات پاچکے تھے ) کی اولا د تھے۔

شہزادہ کر کود اس وقت تک اپنے علاقہ صاروخان میں خاموش بیٹھا تھا لیکن ان شہزادوں کے قتل کی خبر سن کر اس نے سمجھ لیا کہ اس کی باری بھی اب آیا ہی چاہتی ہے، اس لیے وہ بھی اب اپنی جان کی حفاظت کا سامان کرنے لگا اور ینی چری کو اپنا طرفدار بنانے کی کوشش شروع کی سلطان سلیم کو اس کی تیاریوں کی اطلاع ہو گئی، وہ نہایت خاموشی سے شکار کا بہانہ کر کے دس ہزار سواروں کے ساتھ کر کود کی حکومت میں داخل ہوا اور اسے گرفتار کر لینا چاہا، کرکود بھا گا لیکن جلد پکڑ لیا گیا، سلطان سلیم نے سنان نامی ایک افسر کو اس کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ مرنے کے لیے فوراً تیار ہو جاؤ، رات کا وقت تھا اور کر کود سورہا تھا، سنان نے اس کو بیدار کر کے سلیم کا حکم سنایا، کر کود نے صرف ایک گھنٹہ کی مہلت مانگی ، اس فرصت میں اس نے اپنی بے کسی کی موت پر ایک طویل خط سلیم کے نام لکھا، جس میں اس کی بے دردی کی شکایت کی ، اس کے بعد اس نے اپنی گردن جلاد کے حوالے کر دی۔

سلطان سلیم یہ خط پڑھ کر، جو حقیقتاً ایک نہایت دردناک مرثیہ تھا ، بہت رویا ، اسے اس قدر صدمہ ہوا کہ تین روز تک خود بھی ماتم کرتا رہا اور تمام سلطنت کو بھی ماتم کا حکم دیا، جن ترکمانوں نے کرکود کے چھپنے کی جگہ کا پتہ بتایا اور اب انعام کے لیے حاضر ہوئےتو،سلطان سلیم نے ان سب کو قتل کرا دیا، اس درمیان میں احمد نے پھر فوج کو اکٹھا کر کے سلیم کا مقابلہ کیا اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوا لیکن 17 صفر  (24 اپریل 1513ء) کی جنگ میں اسے شکست ہوئ اور وہ قید کر لیا گیا اسے بھی گلا گھوٹ کر قتل کر دیا گیا۔

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

قسطنطنیہ کی فتح

سلطنت عثمانیہ نے  قسطنطنیہ کو فتح کرنے اور بازنطینی سلطنت کو ختم کرنے کے لیے کی بار اس شہر کا محاصرہ کیا۔ لیکن یہ محاصرے صلیبیوں کے حملے،تخت کے لیے خانہ جنگی،بغاوت اور امیر تیمور کے…

مزید پڑھیں
سلطنت عثمانیہ"600سالہ دور حکومت کی لاذوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ جسے دولتِ عثمانیہ اور خلافتِ عثمانیہ کہا جاتا ہے یہ تقریباً سات سو سال تک  قائم رہنے والی  مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت  تھی۔یہ سلطنت 1299ء سے1922 تک قائم رہنے والی مسلمان سلطنت تھی  جس کے حکمران ترک…

مزید پڑھیں
سلطنتِ عثمانیہ کے عروج و زوال کی لازوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ اسلام کی مضبوط ترین اور  عظیم الشان سلطنت تھی۔ترکوں کی یہ عظیم سلطنت جو 600 سالوں سے زیادہ عرصے پر محیط تھی،اس کی سرحدیں یورپ ایشیا اور افریقہ تک پھیلی ہوی تھیں ،یہ خانہ بدوش ایشیا مائنر سے…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں