ازبکوں کی تاریخ کا سب سے خونخار اور طاقتور بادشاہ"شیبانی خان" کون تھا؟

شیبانی خان: وسطی ایشیا کا عظیم فاتح اور ازبک سلطنت کا بانی:۔
تاریخ کی کتابوں میں کچھ شخصیات ایسی ہیں جو اپنی بہادری، جنگی مہارت اور سیاسی بصیرت کی بدولت ہمیشہ یاد رکھی جاتی ہیں۔ انہی میں سے ایک نام محمد شیبانی خان کا ہے، جنہوں نے ازبک قبائل کو متحد کر کے ایک مضبوط سلطنت کی بنیاد رکھی اور وسطیٰ ایشیاء میں اپنی حکمرانی قائم کی۔ چنگیز خان کی نسل سے تعلق رکھنے والے اس عظیم جنگجو نے نہ صرف تیموریوں اور مغلوں کے خلاف بڑی فتوحات حاصل کیں بلکہ ایک ایسی سلطنت کی بنیاد ڈالی جو آنے والے کئی سالوں تک قائم رہی۔
ابتدائی زندگی اور خاندانی پسِ منظر:۔
محمد شیبانی خان (1451-1510) وسطیٰ ایشیاء کے ایک نامور حکمران تھے۔ جنہوں نے ازبک قبائل کو متحد کر کے ایک طاقتور سلطنت کی بنیاد رکھی۔ وہ شیبانی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور چنگیز خان کے سب سے بڑے بیٹے، جوجی کے پڑپوتے تھے۔ ان کے والد شاہ بداغ اور دادا ابو الخیر خان بھی ازبک قبائل کے معروف رہنما تھے۔
ازبکوں کی طاقت کا عروج:۔
شیبانی خان نے ابتدائی طور پر ازبک جنگجوؤں کی ایک چھوٹی سی فوج کے ساتھ اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔ وہ پہلے تیموری حکمران سلطان احمد مرزا کے دربار میں شامل ہوئے، مگر جلد ہی اپنی حکمت عملی کے ذریعے ایک آزاد حکمران بن گئے۔ 1488ء میں انہوں نے چرقیق کی جنگ میں سلطان احمد مرزا کو دھوکہ دے کر مغل حکمران، محمود خان سے اتحاد کر لیا اور ترکستان پر قبضہ جما لیا۔
سمرقند اور بخارا کی فتح:۔
شیبانی خان نے 1500ء میں سمرقند پر حملہ کر کے تیموری حکمران بابر کو شکست دی، جو بعد میں ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے بانی بنے۔ 1501ء میں بخارا پر قبضہ کرنے کے بعد، انہوں نے اپنی حکومت کو مزید مستحکم کیا اور تیموریوں کو مکمل طور پر ماوراء النہر سے بے دخل کر دیا۔
شیبانی سلطنت کا قیام:۔
1507ء میں شیبانی خان نے ہرات پر حملہ کر کے تیموری سلطنت کا خاتمہ کر دیا اور ازبک حکمرانی کو مضبوط بنیادیں فراہم کیں۔ وہ نہ صرف ایک کامیاب جنگجو تھے بلکہ ایک ماہر سیاستدان بھی تھے، جنہوں نے مختلف قبائل کو متحد کر کے ازبک سلطنت کی بنیاد رکھی۔ ان کی حکومت میں بخارا اور سمرقند علمی اور ثقافتی مراکز بن گئے۔
بابر کے ساتھ معرکہ آرائی:۔
شیبانی خان اور مغل حکمران بابر کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں۔ بابر نے سمرقند پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کی، لیکن شیبانی خان نے انہیں 1501ء اور 1506ء میں شکست دی۔ بابر کو مجبوراً سمرقند چھوڑنا پڑا اور بالآخر ہندوستان کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔شیبانی خان کی سیاسی حکمت عملی کے تحت، انہوں نے بابر کی بہن خانزادہ بیگم سے شادی کی۔ بابر کی قید سے رہائی کے لیے یہ شادی ایک سیاسی معاہدے کے طور پر عمل میں آئی۔ تاہم، شیبانی خان کی وفات کے بعد، شاہ اسماعیل صفوی نے خانزادہ بیگم کو آزاد کر کے بابر کے پاس واپس بھیج دیا۔
شیبانی خان نے سلطنت عثمانیہ اور منگول چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے۔ انہوں نے شیعہ صفوی حکمران، شاہ اسماعیل اول کے خلاف سخت موقف اپنایا اور سنی اسلام کی ترویج کی۔ ان کے دربار میں معروف علماء، صوفیا اور دانشور شامل تھے۔ شیبانی خان کو علم و ادب سے بھی گہرا شغف تھا۔ انہوں نے "رسالہ معارف شیبانی" اور "بحر الہدیٰ" جیسے علمی اور دینی کتابیں تحریر کیں۔ ان کی سرپرستی میں فارسی اور ترکی زبانوں میں کئی کتب کے تراجم بھی ہوئے۔
شیبانی خان کی شکست اورر وفات:۔
1510ء میں شاہ اسماعیل صفوی نے ایک طاقتور فوج کے ساتھ مرو پر حملہ کیا۔ شیبانی خان نے اس حملے کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی، مگر ان کی فوج کمزور پڑ گئی۔ بالآخر، مرو کی جنگ میں وہ شکست کھا گئے اور قتل کر دیے گئے۔ شاہ اسماعیل نے ان کے سر کو کاٹ کر اپنے دربار میں سجا دیا اور ان کی کھوپڑی کو جواہرات سے مزین کر کے جام کی شکل دے دی۔
شیبانی خان کی میراث:۔
اگرچہ شیبانی خان کی زندگی کا اختتام المناک تھا، مگر ان کی فتوحات نے وسطیٰ ایشیا میں ازبک حکمرانی کی بنیاد رکھی۔ ان کے بعد شیبانی خاندان کے افراد بخارا اور خیوا میں کئی صدیوں تک حکمران رہے۔ ان کی حکمت عملی اور جنگی مہارت نے وسطیٰ ایشیا کی تاریخ پر گہرے نقوش چھوڑے۔ شیبانی خان ایک عظیم فاتح، ذہین سیاستدان اور علم دوست حکمران تھے۔ ان کی جنگی مہارت، سیاسی بصیرت اور ازبک قبائل کو متحد کرنے کی کوششوں نے انہیں تاریخ میں ایک ناقابل فراموش شخصیت بنا دیا۔ آج بھی وسطیٰ ایشیا میں ان کی فتوحات کو یاد کیا جاتا ہے، اور ان کا نام ازبک قوم کی پہچان بنا ہوا ہے۔
تبصرہ کریں