/ تاریخِ اسلام / خلافتِ عثمانیہ

ویانا کا محاصرہ جب سلطان سلیمان طاقت کے باوجود آسٹریا کے دار الحکومت کو فتح کرنے میں ناکام ہوئے۔

آج ہم تاریخ کے دھندلکوں میں چھپے ایک ایسے سنسنی خیز مگر پُرسکون سفر پر نکل رہے ہیں، جہاں طاقت، حکمت اور حوصلے کی کہانیاں بُنتی ہیں۔ یہ کہانی ہے سلطنتِ عثمانیہ کے سنہرے دور کی، جب اس کی فوجوں نے یورپ کی سرزمین پر قدم رکھا، جب ہنگری اور آسٹریا کے قلعے لرز اٹھے، اور جب ویانا کے در و دیوار ایک عظیم محاصرے کے گواہ بنے۔

یہ وہ وقت تھا جب عثمانی سلطنت اپنی وسعت کی انتہا کو چھو رہی تھی، جب سلطانوں کے جھنڈے دُور دُور لہرا رہے تھے، اور جب بہادر سپاہیوں نے یورپ کے دروازے پر دستک دی۔ کیا یہ فتح مقدر تھی؟ یا پھر قسمت نے کوئی اور فیصلہ کر رکھا تھا؟

تو آئیے، آرام سے بیٹھ جائیں، گہری سانس لیں… اور ماضی کے اُس عظیم دور میں کھو جائیں، جہاں سلطان سلیمان کے حکم پر بہادر غازیوں نے یورپ کی سب سے مضبوط سلطنتوں کو چیلنج کیا تھا…

ہنگری میں خانہ جنگی:۔

ہنگری کے تخت کے لیے زا پولیا کا انتخاب خانہ جنگی کا باعث ثابت ہوا، آرک بوک فرڈینینڈ جو شہنشاہ چارلس پنجم کا بھائی تھا اور جسے چارلس نے آسٹریا کی آرچ ڈچی منتقل کر دی تھی ، ایک صلح نامہ کے رو سے جو چارلس اور سابق شاہ لوئی کے درمیان ہو چکا تھا، ہنگری کے تخت کا دعوے دار ہوا، دوسری طرف زا پولیا اور اس کے حامیوں نے اپنی موافقت میں ہنگری کا ایک قدیم قانون پیش کیا ، جس کی رو سے ہنگری کے باشندے کے علاوہ کوئی دوسرا شخص وہاں کا بادشاہ منتخب نہیں ہو سکتا تھا لیکن باوجود اس قانون کے مغربی ہنگری کے امرا نے فرڈینینڈ کو منتخب کر لیا ، اس کے بعد جنگ ناگزیر ہوگئی ، فرنڈ ینڈ کے ساتھ آسٹریا کی مدد شامل تھی ، اس نے زا پولیا کو شکست دے کر ملک سے باہر بھگا دیا ، زاپولیا نے پولینڈ میں پناہ لی اور وہاں سے سلطان کی خدمت میں مدد کی درخواست بھیجی ، یہ سن کر فرڈینڈ نے بھی اپنا ایک سفیر سلیمان کے دربار میں بھیجا اور نہ صرف ہنگری کے تخت کے لیے حمایت کی استدعا کی بلکہ بلغراد اور ہنگری کے دوسرے شہروں کی واپسی کا بھی جو سلطنت عثمانیہ میں شامل ہو چکے تھے، مطالبہ کیا۔ سلیمان نے فرڈینڈ کے مطالبہ سے برافروختہ ہو کر اس کے سفیر کو رخصت کر دیا اور زاپولیا کے سفیر کو اطمینان دلایا کہ وہ ضرور اس کی مدد کرے گا۔

 

فرڈینڈ کی شکست:۔

چناچہ10 مئی 1529ء کوسلطان سلیمان قسطنطنیہ سے روانہ ہوے اور ڈھائی لاکھ فوج اور تین سوتو پوں کے ساتھ ہنگری میں داخل ہو کر 3 ستمبر کو پایہ تخت بودا پہنچا اور اسکا محاصرہ کر لیا، چھ روز میں بودا فتح ہو گیا اور زاپولیا دوبارہ تخت پر بٹھا دیا گیا، اس کے بعد سلیمان آسٹریا کے مشہور دارالسلطنت ویانا کی طرف بڑھا۔

ویانا کا محاصرہ:۔

آسٹریا کا شہنشاہ چارلس پنجم اس وقت یورپ کا سب سے بڑا فرماں روا تھا، وہ اسپین، نیدر لینڈ ، سلی اور جرمنی کی مملکتوں کا تنہا مالک تھا، محاصرہ ویانا کے وقت وہ اٹلی میں فرانس اول ، شاہ فرانس سے جنگ میں مصروف تھا، اس لیے ترکوں کے مقابلہ کے لیے کوئی فوج نہ بھیج سکا اور آسٹریا کو صرف اپنی ذاتی قوت پر بھروسہ کرنا پڑا، چنانچہ محاصرہ سے قبل ہر دس آدمیوں سے ایک آدمی فوج میں بھرتی کیا گیا، ہمسایہ ریاستوں نے فوجی دستوں سے مدد کی، پھر بھی یہ فوج ترکوں کے مقابلہ کے لیے بالکل نا کافی تھی ، فرڈیننڈ نے مجلس سلطنت سے مدد کی درخواست کی ، جس نے صرف بارہ ہزار پیدل اور چار ہزار سوار فوج بھیجنا منظور کیا، مجلس کو بہ مشکل یقین دلایا جا سکا کہ سلیمان ویانا کی طرف بڑھتا آرہا ہے، بہر حال جلد ہی یہ معلوم ہو گیا کہ آسٹریا اتنی فوجیں جمع کرنے سے قاصر ہے، جو ترکوں کو آگے بڑھنے سے روک سکیں ، اس لیے عیسائیوں نے اب صرف دار السلطنت کی حفاظت کی تیاریاں شروع کیں ۔ فرڈینینڈ خود تو سلیمان کے خوف سے دیانا سے بھاگ گیا تھا لیکن خوش قسمتی سے چند جاں باز افسر اور اسپین اور جرمنی کے آزمودہ کار دستے محاصرہ کے مکمل ہونے سے قبل شہر میں پہنچ گئے تھے اور ان کی مدد حد درجہ اہم ثابت ہوئی ، ویانا کے فوجی دستوں کا سپہ سالار کانٹ ڈی سام (Count De Salm) تھا اور مدافعت کی اصلی نگرانی اس کے ہاتھ میں تھی۔

ترکوں کے ویانا پہنچنے سے پہلے ہی تمام امکانی تیاریاں کر لی گئی تھیں ، شہر کے استحکامات زیادہ تر بوسیدہ حالت میں تھے، فصیل بھی ایک ہی تھی جو بہ مشکل چھ فٹ موٹی تھی، چنانچہ وہ تمام مکانات جو فصیل سے بہت قریب واقع تھے، گرا کر زمین کے برابر کر دیے گئے ، شہر کے اندر مٹی کی ایک نئی دھس تیار کی گئی ، دریا کے ساحل پر خندق کھود کر لکڑی کے بڑے بڑے مضبوط لٹھوں سے باڑھ لگا دی گئی، آتش زدگی کے خیال سے چوبی کھر ملیں  شہر کے ہر مکان سے نکال لی گئیں، سڑک کی سنگی پٹڑیاں بھی اکھاڑ لی گئیں تا کہ دشمن کے گولوں کا اثر زائل ہو جائے ، سامان رسد اور گھوڑوں کے لیے چارہ فراہم کرنے کی غرض سے متعدد ٹولیاں گرد و نواح میں بھیج دی گئیں، پھر اس خطرہ سے کہ محاصرہ زیادہ دنوں تک قائم رہ جائے ، ایسے تمام لوگوں کو جو مدافعت کے کام کے نہ تھے، بلکہ جن کی ذات پر فوجی نقطۂ نظر سے بیکار صرف ہو رہا تھا، مثلاً عورتیں، بچے ، بوڑھے اور پادری لوگوں کو شہر چھوڑ کر نکل جانے پر مجبور کیا گیا، اور جب ترک ویانا کے قریب پہنچ گئے تو نواح شہر کو بھی مسمار کر دیا گیا تا کہ محاصرین اس سے روک اور پناہ کا کام نہ لے سکیں ، وہاں کے باشندوں کو ایسے وقت میں بے خانماں ہونا پڑا جب انہیں بھاگ جانے کا بھی موقع نہ تھا، ان میں اکثر ترکوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے ۔

اس دوران27 ستمبر کو سلطان سلیمان و یا نا پہنچا اور محاصرہ شروع ہوا، کثرت بارش کی وجہ سے سڑکیں اس قدر خراب ہوگئیں تھیں کہ ترکوں کو اپنی بڑی بڑی تو پیں ہنگری میں چھوڑ دینی پڑی تھیں اور اب انہیں زیادہ تر سرنگیں کھود کر دیواروں کو گرانے کی کوشش کرنی پڑی لیکن محصورین بھی ہر مقام پر نگاہ رکھتے تھے اور اکتو بر تک ترکوں کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئیں، بالآخر 10 اکتو بر سرنگ کے ذریعہ سے شہر پناہ میں ایک چوڑا رخنہ پیدا ہو گیا ، جس کے بعد ترکوں نے فورا پے درپے حملے کیے مگر ہر بار انہیں پسپا ہونا پڑا اور وہ رخنہ پر کر دیا گیا، اسی طرح 11 اور 12 اکتوبر کو بھی ترکوں نے ان مقامات پر جہاں سرنگوں نے بڑے بڑے رخنے کر دیے تھے سخت حملے کیے لیکن عیسائی ایسی جاں بازی سے لڑے کہ ترک شہر کے اندر داخل نہ ہو سکے، سلطان سلیمان یہ حالت  دیکھ کر بہت پیچ و تاب کھا رہا تھا، ترک بھی موسم کی شدت ، سامان رسد کی قلت اور سب سے بڑھ کران مسلسل ناکامیوں کی وجہ سے روز بروز زیادہ دل شکتہ ہورہے تھے، آخر کار یہ طے پایا کہ 14 اکتوبر 20 صفر المظفر 937ھ) کو ایک آخری حملہ کیا جائے ،سلیمان نے سپاہیوں کا دل بڑھانے کے لیے بہت فیاضی سے روپیہ تقسیم کیا اور وعدہ کیا کہ جوشخص سب سے پہلے دیوار پر چڑھ جائے گا اسے دولت سے مالا مال کر دیا جائے گا اور ایک بہت بڑا منصب عطا کیا جائے گا۔

چنانچہ  صبح کو ینی چری اور عثمانی فوج کے بہترین دستے حملہ کے لیے بڑھے، صدر اعظم ابراہیم پاشا اور فوج کے تمام بڑے بڑے افسر بھی ساتھ تھے لیکن عیسائیوں کی سرفروشی نے ترکوں کے قدم شہر کے اندر نہ آنے دیے، حالانکہ سہ پہر میں عثمانی انجینئروں نے سرنگوں کے ذریعہ سے شہر پناہ کا ایک بڑا حصہ گرا دیا تھا، مغربی مورخین کا بیان ہے کہ ترکوں کی ہمتیں ٹوٹ چکی تھیں، یہاں تک کہ ینی چری نے بھی دل برداشتہ ہو کر حملہ کرنے سے انکار کر دیا ، بر خلاف اس کے عیسائیوں کے حوصلے بڑھے ہوئے تھے، آخرکار مایوس ہو کر سلیمان کو محاصرہ اٹھا لینا پڑا اور اس نے فوج کو واپسی کا حکم دیا، دیانا کو اس کے مدافعین کی سرفروشی نے بچالیا لیکن جیسا کہ کریسی نے لکھا ہے کہ محاصرہ کی ناکامی میں موسم کی شدت، جس کے ایشیائی ترک عادی نہ تھے اور ینی چری کی سرکشی کو بھی بہت زیادہ دخل تھا ، وسط یورپ میں عثمانی فتوحات کی موج دیانا کی دیواروں سے ٹکرا کر واپس آگئی۔

آسٹریا کی فتح:۔

تین سال کے بعد سلطان سلیمان پھر ایک زبردست فوج کے ساتھ ہنگری پر حملہ آور ہوا اور وہاں سے ویانا کا رخ کیا ، اب کی بار شهنشاه چارلس نے آسٹریا کی فوج کی کمان خود اپنے ہاتھ میں لی لیکن قلعہ گنس (Guns) کی فتح میں جو راستہ میں واقع تھا، تین ہفتہ کی مدت صرف ہوگئی اور اس پر قبضہ کرنے کے بعد سلیمان نے ویانا کی طرف بڑھنے کا ارادہ ترک کر دیا۔

ہنگری میں ترکی حکومت:۔

سلطان سلیمان کے قسطنطنیہ لوٹ جانے کے بعد بھی چند سالوں تک زا پولیا اور فرڈینڈ میں لڑائی کا سلسلہ کم و بیش جاری رہا، بالآخر 945ھ (1538ء) میں ان دونوں کے درمیان ایک صلح نامہ ہو گیا ، جس کی رو سے ہنگری کے دو حصے کر دیے گئے مشرقی حصہ کا بادشاہ زا پولیاتسلیم کر لیا گیا اور مغربی حصہ فرڈینینڈ کی فرماں روائی میں دے دیا گیا، مگر دوسرے ہی سال زا پولیا کا انتقال ہو گیا اور اس کی بیوہ اور فرڈیننڈ کے درمیان جنگ پھر چھڑ گی، فرڈینینڈ پورے ہنگری کا دعوے دار ہوا اور زاپولیا کی بیوہ نے اپنے بچہ کے لیے سلیمان سے مدد کی درخواست کی ، چنانچہ 948ھ (1541ء) میں سلیمان پھر ہنگری میں داخل ہوا اور فرڈ مینڈ کو شکست دے کر بودا اور دوسرے بڑے بڑے شہروں پر قبضہ کر لیا اور ان میں ترکی دستے متعین کر دیے، اگر چہ ساتھ ہی اس نے اس امر کا بھی اعلان کر دیا کہ زا پولیاکے بچہ کے بالغ ہونے کے بعد وہ اسے ٹر اسلوانیا اور ہنگری کے تخت پر بٹھا دے گا، بہر حال اس وقت سلیمان نے ہنگری کو سنجھوں میں تقسیم کر دیا اور ان میں ترکی گورنر مقرر کر دیے، اس جنگ میں گو عثمانیوں کو کہیں کہیں شکستیں بھی ہوئیں لیکن مجموعی طور پر سلطان سلیمان کی طاقت اتنی زیادہ تھی کہ 951ھ (1544ء) میں شہنشاہ چارلس اور فرڈینینڈ نے صلح کی گفتگو شروع کر دی اور 954ھ (1547ء) میں پانچ سال کے لیے صلح کر لی گئی اور صلح نامہ کی رو سے تقریباً تمام ہنگری اور ٹرانسلوانیا پر سلطان سلیمان کا قبضہ بدستور قائم رہا اور فرڈینینڈ نے باب عالی کو 30 ہزار دوکات سالانہ خراج دینا منظور کیا۔

سلطان سلیمان صاحب قران:۔

یہ صلح نامہ جس میں شہنشاہ چارلس پنجم ، پوپ، جمہور یہ دیس اور شہنشاہ فرانس شریک تھے، اس بات کا ثبوت ہے کہ مسیحی پورپ نے سلیمان کا ” صاحب قران “ ہونا تسلیم کرلیا تھا، آسٹریا کو سلطنت عثمانیہ کے سامنے اس حد تک جھکنا پڑا کہ اس سے قبل صلح کے متعلق جو مراسلات ہوئی تھی اس میں فرڈینینڈ نے اپنے آپ کو صدراعظم ابراہیم پاشا کا بھائی لکھنا منظور کیا اور اس طرح اپنا مرتبہ ایک ترکی وزیر کے مرتبہ کے برابر قرار دیا، فرانس اول نے بھی کئی بار نہایت ادب اور عاجزی کے ساتھ سلطان سلیمان سے مدد کی درخواست کی تھی اور سلطان سلیمان نے اس کی درخواست پر ہنگری اور جرمنی پر حملہ کر کے چارلس کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ اپنی فوجیں فرانس سے ہٹالے، نیز فرانس کے دشمنوں پر حملہ کرنے کے لیے اس نے ایک جنگی بیڑہ بحرہ روم میں بھی روانہ کیا تھا ، یورپ کی خوش قسمتی تھی کہ اسی دوران میں سلطان سلیمان کو ایران کی جانب بھی متوجہ ہونا پڑا اور دولت عثمانیہ کی عسکری قوت دو محاذوں میں تقسیم ہو گئی ، فرڈینڈ کا سفیر بوس بکیس (Busbequius ) جو سلیمان کے دربار میں مامور تھا، لکھتا ہے:

 

"ہمارے اور تباہی و بربادی کے درمیان اہل ایران ہی صرف ایک روک ہیں، ترک ہمیں ضرور آدبوچتے مگر ایرانی انہیں روکے ہوئے ہیں، ایرانیوں کے ساتھ ترکوں کی اس جنگ سے ہمیں صرف مہلت مل گئی ہے، مخلصی اور نجات نہیں حاصل ہوئی ہے ۔"

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

قسطنطنیہ کی فتح

سلطنت عثمانیہ نے  قسطنطنیہ کو فتح کرنے اور بازنطینی سلطنت کو ختم کرنے کے لیے کی بار اس شہر کا محاصرہ کیا۔ لیکن یہ محاصرے صلیبیوں کے حملے،تخت کے لیے خانہ جنگی،بغاوت اور امیر تیمور کے…

مزید پڑھیں
سلطنت عثمانیہ"600سالہ دور حکومت کی لاذوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ جسے دولتِ عثمانیہ اور خلافتِ عثمانیہ کہا جاتا ہے یہ تقریباً سات سو سال تک  قائم رہنے والی  مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت  تھی۔یہ سلطنت 1299ء سے1922 تک قائم رہنے والی مسلمان سلطنت تھی  جس کے حکمران ترک…

مزید پڑھیں
سلطنتِ عثمانیہ کے عروج و زوال کی لازوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ اسلام کی مضبوط ترین اور  عظیم الشان سلطنت تھی۔ترکوں کی یہ عظیم سلطنت جو 600 سالوں سے زیادہ عرصے پر محیط تھی،اس کی سرحدیں یورپ ایشیا اور افریقہ تک پھیلی ہوی تھیں ،یہ خانہ بدوش ایشیا مائنر سے…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں