سلطنت عثمانیہ کے آخری بااثر اور عاشقِ رسولﷺسلطان عبد الحمید ثانی کی تاریخ۔

سلطان عبد الحمید ثانی: ایک تاریخی جائزہ:۔
سلطان عبد الحمید ثانی (1842-1918) سلطنت عثمانیہ کے 34ویں سلطان تھے جنہوں نے 31 اگست 1876 سے 27 اپریل 1909 تک حکومت کی۔ ان کا دور سلطنت عثمانیہ کے زوال کا آخری مرحلہ تھا، لیکن وہ اپنے دور میں ایک مؤثر اور دانشمند حکمران کے طور پر جانے جاتے ہیں جنہوں نے اسلامی دنیا کے تحفظ کے لیے بے شمار قربانیاں دیں۔ ان کی خلافت کئی اہم واقعات اور چیلنجز سے عبارت ہے، جن میں اندرونی بغاوتیں، یہودیوں کی سازشیں، مغربی دباؤ، اور مسلم دنیا کو متحد رکھنے کی کوششیں شامل ہیں۔
ابتدائی زندگی:۔
سلطان عبد الحمید ثانی 21 ستمبر 1842 کو استنبول کے توپ کاپی محل میں پیدا ہوئے۔ وہ سلطان عبد المجید اول کے بیٹے تھے۔ ان کی والدہ کی وفات کے بعد، ان کی سوتیلی والدہ نے ان کی پرورش کی۔ عبد الحمید ثانی نے عربی اور فارسی زبانوں کی تعلیم حاصل کی اور دیگر علوم کے ساتھ ساتھ تصوف کے رموز سے بھی آگاہی حاصل کی۔ وہ ایک ہنر مند بڑھئی تھے اور انہوں نے ذاتی طور پر اعلیٰ معیار کا فرنیچر تیار کیا، جو آج بھی استنبول کے یلدز محل، سیل کوسکو اور بیلربے محل میں موجود ہے۔ اوپیرا میں بھی ان کی دلچسپی تھی اور انہوں نے متعدد اوپیرا کلاسیکیوں کے پہلے ترک ترجمے لکھے۔تخت نشینی سے قبل، عبد الحمید نے اپنے چچا سلطان عبد العزیز کے ہمراہ یورپ کے کئی ممالک کا دورہ کیا، جن میں پیرس، لندن اور ویانا شامل ہیں۔ یہ دورہ ان کے لیے اہم ثابت ہوا، کیونکہ اس دوران ان کے مشاہدات نے سلطنت کی پالیسیوں پر اثر ڈالا۔ 31 اگست 1876 کو، اپنے بھائی مراد پنجم کی معزولی کے بعد، عبد الحمید ثانی سلطنت عثمانیہ کے سلطان بنے۔ ان کی تخت نشینی کی تقریب حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار پر منعقد ہوئی، جہاں انہیں عثمانی تلوار پیش کی گئی۔
خلافت کی ابتدا:۔
عبد الحمید ثانی 1876 میں اپنے بھائی مراد پنجم کی معزولی کے بعد تخت نشین ہوئے۔ ان کے ابتدائی اقدامات میں 1876 کا آئین شامل تھا، جس کے تحت پہلی مرتبہ سلطنت عثمانیہ میں ایک پارلیمنٹ قائم ہوئی۔ تاہم، روس کے ساتھ جنگ (1877-78) میں شکست کے بعد، انہوں نے آئین کو معطل کر دیا اور مطلق العنان حکمرانی قائم کی۔
سلطان کے چند اہم کارنامے:،
حجاز ریلوے کی تعمیر:۔
سلطان عبد الحمید ثانی نے 1900ء میں حجاز ریلوے کی تعمیر کا آغاز کیا، جس کا مقصد دمشق سے مدینہ منورہ تک کا سفر آسان اور محفوظ بنانا تھا۔اس ریلوے نے حاجیوں کے لیے 40 دن کا سفر کم کر کے صرف پانچ دن کر دیا، جو اس وقت کے لیے ایک بڑی سہولت تھی۔تعمیر کے دوران، جب مزدور مدینہ منورہ کے قریب پہنچے، تو سلطان نے حکم دیا کہ مزدور اپنے ہتھوڑوں پر کپڑا باندھ لیں تاکہ کام کے دوران پیدا ہونے والی آواز سے رسول اللہ ﷺ کے روضہ مبارک کی بے حرمتی نہ ہو۔ یہ واقعہ سلطان عبد الحمید ثانی کی رسول اللہ ﷺ سے محبت اور احترام کی عکاسی کرتا ہے۔حجاز ریلوے کا منصوبہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے سفری سہولت کا باعث بنا بلکہ اسلامی دنیا میں اتحاد اور یکجہتی کی علامت بھی ثابت ہوا۔
یہودیوں کی سازش کا مقابلہ:۔
سلطان عبد الحمید ثانی کے دورِ حکومت میں، صیہونی تحریک کے بانی تھیوڈور ہرزل نے فلسطین میں یہودیوں کے لیے قومی وطن کے قیام کی کوششیں تیز کیں۔1896ء میں، ہرزل نے استنبول کا دورہ کیا اور سلطان سے ملاقات کی، جس میں انہوں نے فلسطین میں یہودی آبادکاری کے لیے بھاری مالی امداد کی پیشکش کی۔سلطان عبد الحمید ثانی نے اس پیشکش کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہاکہ:
“میں فلسطین کی ایک انچ زمین بھی نہیں دوں گا کیونکہ یہ میری ذاتی ملکیت نہیں بلکہ امت مسلمہ کی امانت ہے۔”
سلطان کے اس انکار کے بعد، ہرزل نے دوبارہ کوشش کی اور مزید مالی فوائد کی پیشکش کی، لیکن سلطان نے ہر بار انکار کیا اور ہرزل کو ملاقات سے بھی روک دیا۔سلطان عبد الحمید ثانی کے اس مؤقف نے ان کی خلافت کے خلاف تحریکوں کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں انہیں معزول کر دیا گیا۔سلطان نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ ان کے خلاف چلنے والی تحریک اور معزولی میں یہودیوں کا ہاتھ تھا۔سلطان عبد الحمید ثانی کا یہ مؤقف ان کی اصول پسندی اور اسلامی مقدسات کے تحفظ کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔
تعلیمی اور سماجی اصلاحات:۔
سلطان نے سلطنت عثمانیہ میں تعلیمی اداروں کی تعداد بڑھائی، جس میں جدید اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں شامل تھیں۔ انہوں نے اسلامی تعلیمات کے فروغ کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی تعلیم کو بھی اہمیت دی۔
عبد الحمید ثانی نے خلافت عثمانیہ کو ایک مذہبی مرکز کے طور پر برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے خلافت کے وقار کو بڑھانے کے لیے اسلامی شعائر کی حفاظت کی اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے ساتھ روابط مضبوط کیے۔
یہودی سازش اور بین القوامی دباؤ:۔
سلطان عبد الحمید ثانی کے اس مؤقف نے ان کی خلافت کے خلاف تحریکوں کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں انہیں معزول کر دیا گیا۔ سلطان نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ ان کے خلاف چلنے والی تحریک اور معزولی میں یہودیوں کا ہاتھ تھا۔اس کے علاوہ، بین الاقوامی سطح پر سلطنتِ عثمانیہ کو مختلف سیاسی اور معاشی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، جس میں یورپی طاقتوں کی مداخلت اور داخلی مسائل شامل تھے۔ ان چیلنجوں کے باوجود، سلطان عبد الحمید ثانی نے سلطنت کی خودمختاری اور اسلامی مقدسات کے تحفظ کے لیے کوششیں جاری رکھی۔
معزولی اور جلا وطنی:۔
سلطان نے ابتدا میں 1876ء میں آئین نافذ کیا، لیکن 1878ء میں اسے معطل کر کے مطلق العنان حکومت قائم کی۔ ان کی حکمرانی کے آخری سالوں میں "انجمنِ اتحاد و ترقی" نامی تنظیم نے اصلاحات اور آئینی حکومت کے قیام کے لیے تحریک چلائی۔ 1908ء میں اس تنظیم نے "انقلابِ ترکی" کے ذریعے سلطان کو آئین بحال کرنے پر مجبور کیا۔ تاہم، 1909ء میں استنبول میں 31 مارچ کا واقعہ پیش آیا، جس میں سلطان کے حامیوں نے بغاوت کی کوشش کی۔ انجمنِ اتحاد و ترقی نے اس بغاوت کو کچل دیا اور سلطان کو معزول کرنے کا فیصلہ کیا۔ 27 اپریل 1909ء کو عثمانی پارلیمان نے سلطان عبد الحمید ثانی کو معزول کر کے ان کے بھائی محمد پنجم کو سلطان مقرر کیا۔ معزولی کے بعد، سلطان عبد الحمید ثانی کو پہلے سلونیکا (موجودہ تھیسالونیکی، یونان) اور بعد میں استنبول منتقل کیا گیا، جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے باقی سال نظربندی میں گزارے۔
سلطان کی وفات:۔
سلطان عبد الحمید ثانی کا انتقال 10 فروری 1918 کو استنبول میں ہوا۔ وہ ایک عظیم حکمران تھے جنہوں نے اپنے دور میں سلطنت عثمانیہ کو بکھرنے سے بچانے کی بھرپور کوشش کی۔ ان کی اسلامی دنیا کے لیے خدمات اور فلسطین کے تحفظ کے لیے قربانیاں آج بھی مسلمانوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔عبد الحمید ثانی کا دور حکمرانی اسلامی دنیا کے لیے ایک اہم سبق ہے۔ انہوں نے نہ صرف مغربی طاقتوں کے دباؤ کا سامنا کیا بلکہ اندرونی سازشوں کا بھی مقابلہ کیا۔ ان کی بصیرت، دانشمندی، اور اسلامی اتحاد کے لیے کی گئی کوششیں تاریخ کے صفحات میں سنہرے حروف سے لکھی گئی ہیں۔
تبصرہ کریں