/ تاریخِ اسلام / خلافتِ عثمانیہ

سلطنتِ عثمانیہ کےآٹھویں سلطان بایزید دوم کی مکمل تاریخ۔

سلطان محمد فاتح نے اپنی وفات پر دولڑ کے چھوڑے، بڑالڑکا شہزادہ بایزید اماسیا کاحاکم تھا اور چھوٹا شہزادہ جم (جمشید) کرمانیہ کا، بایزید کا میلان طبع زیادہ تر مذہب اور فلسفہ کی جانب تھا۔ جس کی وجہ سے لوگ اسے صوفی کہتے تھے، وہ نہایت سادہ مزاج ،نرم خو اور پابند شرع تھا، شاعری سے بھی خاص ذوق رکھتا تھا۔ لیکن ان خصوصیات کے باوجود سپاہیانہ شجاعت میں بھی کم نہ تھا اور میدان جنگ میں پہنچ کر یہ صوفی مجاہد بن جاتا تھا، شہزادہ جم میں زیادہ تر سلطان محمد فاتح کے اوصاف پائے جاتے تھے، وہ فنون حرب کا ماہر اور شجاعت میں اپنے باپ کا مماثل تھا، حکمرانی کا ملکہ اور ملک گیری کی اہمیت اسے خداد داد حاصل تھی ، اس کے ساتھ شاعری میں بھی اس کا پایہ بلند تھا۔

 

جس وقت سلطان محمد کے انتقال کی خبر قسطنطنیہ میں مشتہر ہوئی ، ینی چری نے تمام شہر میں لوٹ مار شروع کر دی اور وزیر اعظم کو جس نے سلطان کی وفات کو مخفی رکھنے کی کوشش کی تھی قتل کر دیا، چونکہ وزیر اعظم کے متعلق معلوم تھا کہ وہ شہزادہ جم کا طرفدار وزیراعظم ہے، اس لیے شہزادہ بایزید کے حامیوں نے بہ آسانی ینی چری کی حمایت حاصل کر لی ، اس کے بعد باقی افواج نے بھی ینی چری کے تبع میں یزید کے سلطان ہونے کا اعلان کر دیا ، شہزادہ جم کو سلطان کی وفات کی اطلاع دیر میں ہوئی ، اس درمیان میں شہزادہ بایزید نے قسطنطنیہ پہنچ کر تخت پر قبضہ کر لیا، ینی چری نے اس کی حمایت کی لیکن تخت نشینی کے موقع پر اپنی تنخواہوں میں اضافہ اور بخشش کا مطالبہ بھی پیش کیا، اس رسم کی بنا سلطان محمد کی تقریب تاج پوشی میں پڑ چکی تھی، بایزید کو مجبوراً یہ مطالبہ پورا کرنا پڑا، اس کے بعد تین سو برس تک یہ دستور قائم رہا کہ ہر نئے سلطان کی تخت نشینی کے وقت ینی چری کو بڑی بڑی رقمیں بطور انعام کے دی جاتی تھیں ، بقول کر یسی یہ رسم جس قدر خزانہ شاہی کے لیے بار تھی اس قدر سلاطین کے لیے باعث شرم تھی ۔

 

اوٹر انٹوکی فتح:۔

سلطان بایزید ثانی کا عہد حکومت فتوحات اور توسیع سلطنت کے لحاظ سے کوئی اہمیت نہیں رکھتا، تخت نشینی کے بعد اس نے احمد کدک پاشا کو شہزادہ جم کی بغاوت فرو کرنے کے لیے اوٹرانٹو سے واپس بلا لیا اور اس کی جگہ خیر الدین پاشا کو مقرر کیا، خیرالدین پاشا کو حسب ضرورت مد نہ پہنچ سکی ، وہ بہت دنوں تک نہایت بہادری کے ساتھ دشمن کے حملوں کا مقابلہ کرتا رہا، مگر بالآخر شہر ڈیوک آف کلبریا (Calabria) کو سپرد کر دینا پڑا، اوٹرانٹو کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد پھر کبھی ترکوں کا قدم اٹلی کے کسی حصہ میں نہ جم سکا۔

 

ہرزیگووینا:۔

ہرزیگووینا اب تک ایک باج گزار حکومت تھی ، بایزید نے اسے مستقل طور پر سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لیا۔

 

ہنگری:۔

ہنگری سے کئی سال تک چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا لیکن اس سے کوئی خاص نتیجہ حاصل نہ ہوا اور آخر میں دونوں

سلطنتوں میں صلح ہو گئی۔

 

بحری فتوحات:۔

البتہ جمہور یہ وینس سے جو لڑائی 904ھ (1497ء) میں چھڑی وہ بہ اعتبار اپنے نتیجہ کے بہت زیادہ اہم تھی، ترکوں نے موریا میں وینس کے تین باقی ماندہ قلعوں یعنی مورانس (Mavarins) موڈن (Moden) اور کورن (Coran) کو بھی فتح کر لیا اور اس طرح یونان میں وینس کے اثر کا خاتمہ ہو گیا، تر ک بیڑاسلطان محمد فاتح کے عہد ہی میں بحر روم کی تمام بحری طاقتوں پر فوقیت حاصل کر چکا تھا، بایزید ثانی نے اس کو اور زیادہ فروغ دیا، چنانچہ 905ھ (1499ء) میں مشہور تر کی امیر البحر کمال رئیس نے وینس کے بیڑے کو ز بر دست شکست دے کر لیپانٹو (Lepanto ) کی بندرگاہ پر قبضہ کر لیا ، دوسرے سال ونیس، آسٹریا، اسپین اور پوپ کے بیڑوں نے متحدہ طور پر تر کی بیڑے پر حملہ کیا، باوجود اس کے کہ عثمانی جہازوں کی مجموعی تعداد اتحادی بیڑوں سے بہت کم تھی ، کمال رئیس نے کامیابی کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور پھر آگے بڑھ کر مسلمانان غرناطہ کی درخواست پر ، جو عیسائیوں کے ظلم و ستم سے عاجز آچکے تھے، سواحل اسپین پر حملے کیے لیکن مظلومین غرناطہ کو ان حملوں سے کوئی فائدہ نہ پہنچا اور ان کو آخر کار اپنا وطن چھوڑ کر اسپین سے نکل جانا پڑا۔

 

مصر سے صلح:۔

ایشیاء میں اب تک سلاطین عثمانی کو جن مخالفین سے سابقہ پڑا تھا وہ صرف ایشیائے کو چک کے امرا تھے، جنہوں نے دولت سلجوقیہ کی تباہی کے بعد خود مختار ریاستیں قائم کر لی تھیں، یہ تمام ریاستیں سلطان محمد فاتح کے عہد تک مستقل طور پر سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لی گئی تھیں اور سلطان کو اپنے ایشیائی مقبوضات کی طرف سے اطمینان حاصل ہو چکا تھا لیکن بایزید ثانی کے تخت پر آتے ہی عثمانیوں کوایک نئے دشمن کا سامنا کرنا پڑا ، حکومت مصر  اب تک سلطنت عثمانیہ کے معاملات سے بالکل بے تعلق تھی، شہزادہ جم نے پہلی بار اس کو عثمانی مقبوضات میں قدم رکھنے کی دعوت دی، اگر چہ اس مہم میں مصری فوج کو شکست کھا کر پسپا ہونا پڑا تاہم سلطنت عثمانیہ سے قوت آزمائی کی جرات پیدا ہو گئی اور مصریوں نے ایشیائے کو چک کے جنوبی مشرقی علاقوں پر دست درازیاں شروع کر دیں ، دولت عثمانیہ اور مصر کے مملوک سلطانوں کے درمیان پہلی جنگ 890ھ (1485ء) میں شروع ہوئی، جس میں ترکوں کو سخت شکست ہوئی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کر مانیہ نے بغاوت کر دی، عثمانی فوجیں اس بغاوت کے فرو کرنے میں تو کامیاب ہوئیں، لیکن مصریوں کے مقابلہ میں انہیں پیچھے ہٹنا پڑا، بالآخر پانچ سال کے بعد اس جنگ کا سلسلہ ختم ہوا اور بایزید ثانی نے اپنے تین قلعے سلطان مصر و شام کی نذر کر کے صلح کر لی۔

 

سلیم کی بغاوت اور تخت نشینی:۔

بایزید کا عہد حکومت جس طرح خانہ جنگی سے شروع ہوا تھا، اسی طرح خانہ جنگی پر ختم بھی ہوا، اس کے تینوں لڑ کے کرکود، احمد اور سلیم ایشیائے کو چک کے مختلف صوبوں کے حکمران تھے، کرکود بڑا لڑکا تھا لیکن اس کا ذوق تمام تر علمی تھا، اس لیے بایزید احمد کو جسے وہ سب سے زیادہ عزیز رکھتا تھا، اپنا جانشین بنانا چاہتا تھا لیکن سلیم باوجود سب سے چھوٹا ہونے کے اپنی شجاعت اور فوجی قابلیت کی وجہ سے تمام فوج خصوصاً ینی چری میں نہایت محبوب تھا، یہ دیکھ کر بایزید اپنی عمر اور خرابی صحت کے باعث امور سلطنت پر کافی توجہ مبذول کرنے سے معذور ہے، سلیم کو خطرہ لاحق ہوا کہ ممکن ہے احمد بایزید کی حیات ہی میں تخت پر قابض ہو جائے ، لہذا اس نے سلطان کی اجازت کے بغیر طرابزون سے قسطنطنیہ کی طرف کوچ کر دیا اور ایک منتخب فوج کے ساتھ ادر نہ پہنچ گیا ، بایزید نے اس کو طرابزون واپس جانے کا حکم دیا۔ لیکن سلیم جنگ پر آمادہ ہو گیا اور بایزید کو مجبوراً اس سے مقابلہ کرنا پڑا، اس جنگ میں سلیم کو شکست ہوئی اور وہ بھاگ کر کریمیا پہنچا، کریمیا کا فرماں روا سلیم کا سسر تھا، اس نے سلیم کی مدد کی، کچھ دنوں کے بعد وہ پھر قسطنطنیہ لوٹا اور اب کی بار تمام فوج نے اس کا ساتھ دیا۔بایزید نے ینی چری کے ایک وفد کو باریاب کیا اور ان سے دریافت کیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں، انہوں نے جواب دیا کہ:۔

"ہمارابادشاہ ضعیف العمر اور کمزور ہے، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ سلیم تخت نشین ہو"

 یہ دیکھ کر کہ فوج قابو سے باہر ہو چکی ہے، بایزید نے اعلان کیا کہ میں اپنے لڑکے سلیم کے حق میں تخت سلطنت سے دست بردار ہوتا ہوں ، خدا اس کو ایک خوش حال عہد حکومت عطا فرمائے ، اس کے بعد وہ تخت سے اتر آیا، وہ چاہتا تھا کہ اپنی زندگی کے بقیہ ایام ایشیائے کو چک کے شہر ڈیمو ٹیکا میں گزار دے جو اس کی جائے پیدائش تھا لیکن موت نے اس کی خواہش کو پورا نہ ہونے دیا اور قسطنطنیہ سے روانہ ہونے کے تین ہی روز بعد اس کا انتقال ہو گیا۔

 

پہلا روسی سفیر:۔

سلطنت عثمانیہ اور روس کے درمیان اب تک سفارتی تعلقات قائم نہیں ہوئے تھے، 900ھ (1495ء) میں پہلا روسی سفیر مائیکل پلے شیف (Micheal Plestshiev) قسطنطنیہ آیا اور روسی تاجروں کے لیے تجارتی مراعات کا درخواست گار ہوا، زار ایوان سوم (1 Ivan) نے اسے سختی کے ساتھ ہدایت کر دی تھی کہ وہ نہ تو سلطان کے سامنے گھٹنوں کے بل کھڑا ہو، نہ سلطان کے علاوہ کسی وزیر سے سفارتی معاملات پر کوئی گفتگو کرے اور نہ یورپ یا ایشیا کی کسی مملکت کے سفیر کو اپنے آگے جگہ دے، اے ڈی لا مارتین (A. De Lamartine تاریخ ترکی میں لکھتا ہے کہ "پلے شیف کی گستاخی اور بدتمیزی اس کے دربار کے تکبر سے بھی بڑھ گئی، جو قوم اس کی مہمان نوازی اور تواضع کر رہی تھی ، اس کے رسم و رواج کی اس نے تحقیر کی ، وزیر اعظم نے اس کے استقبال کے لیے دعوت کی تھی ، اس میں شریک ہونے سے اس نے انکار کر دیا اور دیوان کی طرف سے جو خلعت اور دوسرے تحائف اسے پیش کیے گئے تھے، انہیں واپس کر دیا، عثمانی رسم و رواج کی اس تو ہین پر مغربی حکومتوں کے سفیروں کو بھی غصہ آیا ، اگر یہ روسی سفیر محمد ثانی یا سلیم اول کے عہد میں آیا ہوتا تو اسے اپنی گستاخیوں کا نتیجہ معلوم ہو جاتا" ، بایزید نے اپنے غیر معمولی تحمل اور بردباری کی وجہ سے صرف اسی پر اکتفا کیا کہ پہلے شیف کو رخصت کر دیا اور اپنا کوئی سفیر در بار روس میں نہیں بھیجا۔

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

قسطنطنیہ کی فتح

سلطنت عثمانیہ نے  قسطنطنیہ کو فتح کرنے اور بازنطینی سلطنت کو ختم کرنے کے لیے کی بار اس شہر کا محاصرہ کیا۔ لیکن یہ محاصرے صلیبیوں کے حملے،تخت کے لیے خانہ جنگی،بغاوت اور امیر تیمور کے…

مزید پڑھیں
سلطنت عثمانیہ"600سالہ دور حکومت کی لاذوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ جسے دولتِ عثمانیہ اور خلافتِ عثمانیہ کہا جاتا ہے یہ تقریباً سات سو سال تک  قائم رہنے والی  مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت  تھی۔یہ سلطنت 1299ء سے1922 تک قائم رہنے والی مسلمان سلطنت تھی  جس کے حکمران ترک…

مزید پڑھیں
سلطنتِ عثمانیہ کے عروج و زوال کی لازوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ اسلام کی مضبوط ترین اور  عظیم الشان سلطنت تھی۔ترکوں کی یہ عظیم سلطنت جو 600 سالوں سے زیادہ عرصے پر محیط تھی،اس کی سرحدیں یورپ ایشیا اور افریقہ تک پھیلی ہوی تھیں ،یہ خانہ بدوش ایشیا مائنر سے…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں