سلطان بایزید ثانی اور غرناطہ کے مظلوم مسلمان اور یہود۔

سلطان بایزید ثانی:۔
سلطان بایزید ثانی نے اپنے والد سلطان محمد فاتح کے بعد تخت سنبھالا۔ بایزید کی تربیت ایک صوفیانہ اور دینی ماحول میں ہوئی، جیسا کہ ان کے والد کا طرزِ زندگی تھا۔ اپنی والد کی زندگی میں وہ حکومتی امور سے دور رہے اور شمال میں اماسیا کے گورنر تھے، حالانکہ وہ سب سے بڑے بیٹے تھے۔ اس کے برعکس ان کے بھائی جَم اپنے والد کے بہت قریب تھے۔بایزید اپنے زہد، تقویٰ اور گہری مذہبیت کے لیے مشہور تھے، یہاں تک کہ انہیں "صوفی زاہد سلطان" کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ ان کی شخصیت نرمی، شفقت اور رحم دلی سے معمور تھی۔ ان کی طویل حکمرانی، جو تیس سال سے زائد پر محیط تھی، کئی اہم چیلنجز سے بھرپور تھی، چاہے وہ داخلی مسائل ہوں یا بیرونی محاذوں پر۔عثمانی ریاست نے ان چیلنجز کا بڑی حکمت، صبر اور ذہانت سے مقابلہ کیا اور بالآخر اپنی جامع اسٹریٹجک وژن کو کامیابی سے مکمل کیا، جو کہ سابق سلاطین کے دور سے جاری تھا۔
شہزادہ جمشید کی بغاوت:۔
سلطان بایزید ثانی تخت پر براجمان ہوئے اور شہزادہ جَم، جو یورپ اور اس کے حلیفوں کی حمایت یافتہ امیدوار تھے، کو معزول کر دیا گیا، اور وہ مصر میں جلاوطنی میں چلے گئے۔ابتدا میں انہیں مملوک سلطان الاشرف قایتبائی نے قاہرہ میں "قاعة الحكم" میں خوش آمدید کہا، نہ کہ "قاعة العرش" میں۔ یہ اس بات کی نشاندہی تھی کہ یہ استقبال ذاتی حیثیت میں کیا جا رہا ہے، نہ کہ سیاسی حیثیت میں، تاکہ عثمانی سلطنت کو ناراض نہ کیا جائے۔ عثمانیوں نے قایتبائی کے اس عمل کو قبول کیا۔بعد میں، مملوکوں نے شہزادہ جَم کی حرکات و سکنات پر زیادہ توجہ نہیں دی، خاص طور پر جب انہوں نے اناطولیہ واپس جانے کی دوسری کوشش کی۔ مملوکوں نے انہیں عثمانی ساحل تک پہنچانے کے لیے ایک کشتی فراہم کی، لیکن کوئی عسکری مدد نہیں دی۔شہزادہ جَم دوسری بار سلطان بایزید کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد حلب چلے گئے اور شمال میں ترک ریاستوں (خصوصاً کرمان ریاست) کو عثمانی سلطنت کے خلاف ابھارنے کی کوشش کی، اور انہیں شاہراہ ریشم پر اثر و رسوخ تقسیم کرنے کا وعدہ دیا۔ جب ان کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں، تو انہوں نے اپنی آخری پیشکش کے طور پر اپنے بھائی سلطان بایزید کو سلطنت کے ایشیائی حصے کی تقسیم کی تجویز دی، جو عثمانیوں نے مسترد کر دی۔یقیناً یورپ ان تمام واقعات سے لاتعلق نہیں تھا بلکہ ان کا محرک اور پیچھے کا کردار تھا۔ انہوں نے مصر میں اپنے کمزور حلیف مملوک سلطان پر دباؤ ڈالا کہ وہ شہزادہ جَم کی سرگرمیوں کو نظرانداز کرے۔شہزادہ جَم آخرکار ویٹیکن پہنچے، جہاں انہوں نے اپنی باقی زندگی ایک سیاسی پناہ گزین کے طور پر گزاری اور وہیں انتقال کیا۔
عثمانی سلطنت نے اس معاملے پر ردعمل ظاہر نہیں کیا اور مملوک ریاست کے خلاف کسی قسم کی انتقامی کارروائی نہیں کی۔ تاہم، مملوک ریاست کی ان اسٹریٹجک غلطیوں کے نتیجے میں دونوں سلطنتوں کے درمیان اعتماد میں کمی آئی۔ عثمانی گہرائی نے مملوک ریاست کو کم از کم ایک ممکنہ دشمن کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا، جو بعد میں سلطان سلیم اول کے دور میں حقیقت بن گیا۔
اُندلس میں مسلمانوں اور یہودیوں کی جلاوطنی:۔
1492ء میں غرناطہ کے سقوط کے ساتھ ہی اندلس میں مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ یہ سقوط کیتھولک فرڈینینڈ اور ملکہ ازابیلا کی حکومت کے دوران ہوا۔ غرناطہ کی فتح کے بعد مسلمانوں اور یہودیوں پر ظلم و ستم کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ مسلمانوں کو عیسائیت قبول کرنے یا ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ اسی طرح یہودیوں کو بھی مذہب تبدیل کرنے یا جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا۔بہت سے مسلمان اور یہودی بحیرہ روم کے اطراف میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے، جبکہ ایک بڑی تعداد عثمانی سلطنت کی طرف ہجرت کر گئی۔ سلطان بایزید ثانی نے ان پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہا اور ان کی آباد کاری کے لیے عملی اقدامات کیے۔ یہودیوں کو خاص طور پر استنبول، ادرنہ، اور سلونیکا جیسے شہروں میں بسایا گیا، جہاں وہ تجارت اور علمی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے۔
سلطان بایزید نے ہسپانوی حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے ملک کو دانشوروں اور ماہر کاریگروں سے محروم کر دیا، جو اب عثمانی سلطنت کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔
اندلس کے ان پناہ گزینوں کی آمد نے نہ صرف عثمانی سلطنت کی معیشت کو مضبوط کیا بلکہ اس نے ایک انسانی ہمدردی کی مثال بھی قائم کی، جو سلطنت کے عالمی نظریے کا حصہ تھی۔وہ الگ بات ہے کہ یہی یہودی آخر میں سلطنت کی تباہی کا باعث بنے۔
تبصرہ کریں