ناقابلِ شکست منگولوں کو شکست دینے والے عظیم مسلمان سلطان جلال الدین خوارزمی کی مکمل تاریخ۔

جلال الدین منکبرنی – ایک عظیم جنگجو اور بہادر حکمران
اگر تاریخ میں بہادری، جرات اور استقامت کی مثالیں تلاش کی جائیں تو جلال الدین منکبرنی کا نام سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ وہ نہ صرف ایک بہادرجنگجو تھے، بلکہ ایک زبردست حکمت عملی رکھنے والے سپہ سالار بھی تھے۔ منگول حملوں کے سائے میں جب خوارزم شاہی سلطنت زوال پذیر ہو رہی تھی، تب جلال الدین نے نہ صرف اپنی سلطنت کے دفاع کے لیے جان لڑائی بلکہ دشمنوں کو کئی بار شکست دے کر اپنی جرات کا لوہا منوایا۔
ابتدائی زندگی اور تخت نشینی:۔
جلال الدین منکبرنی خوارزم شاہی سلطنت کے حکمران علاؤ الدین محمد دوم کے بیٹے تھے۔ ان کی والدہ ایک ترکمن کنیز تھیں، جس کی وجہ سے دربار میں انہیں مکمل حمایت حاصل نہ تھی۔ ان کے سوتیلے بھائی کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی، لیکن قسمت نے جلال الدین کے لیے کچھ اور ہی لکھا تھا۔ جب چنگیز خان کی افواج نے خوارزم شاہی سلطنت پر حملہ کیا اور ان کے والد کی وفات ہوئی، تب جلال الدین نے قیادت سنبھالی اور اپنے والد کے وفاداروں کو اکٹھا کیا۔
منگولوں کے خلاف جنگیں:۔
جلال الدین منکبرنی نے چنگیز خان کی فوجوں کے خلاف کئی زبردست معرکے لڑے۔ سب سے نمایاں جنگ معرکۂ پروان تھی، جہاں انہوں نے منگول فوج کو عبرتناک شکست دی۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا کے بڑے بڑے حکمران چنگیز خان کی دہشت سے کانپ رہے تھے، لیکن جلال الدین نے نہ صرف منگولوں کو شکست دی بلکہ ان کے خلاف بغاوت کو بھی ہوا دی۔
دریائے سندھ کی تاریخی جنگ جلال الدین کے سفر کا ایک اہم موڑ تھی۔ جب چنگیز خان نے ذاتی طور پر ان کے خلاف لشکر کشی کی تو جلال الدین کے پاس پسپائی کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ انہوں نے اپنے دشمنوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا لیکن جب حالات قابو سے باہر ہو گئے تو انہوں نے دریائے سندھ میں چھلانگ لگا دی اور اپنی جان بچا لی۔ چنگیز خان بھی ان کی بہادری کا قائل ہو گیا اور اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ ان پر مزید حملہ نہ کریں۔
اگرچہ جلال الدین منکبرنی ایک شجاع اور بہادر جنگجو تھے، مگر انہیں تاریخ کے سب سے عظیم فوجی کمانڈروں میں شمار کرنا کچھ مبالغہ ہوگا۔ وہ ایک باصلاحیت جنگجو تھے، جنہوں نے منگول سلطنت کے لیے مستقل خطرہ بنے رہے، لیکن ان کی فتوحات کی تعداد محدود تھی اور وہ کوئی فیصلہ کن جنگ جیتنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔جب ہم دنیا کے عظیم فوجی جرنیلوں کی بات کرتے ہیں، تو ہم ایسے کمانڈروں کو دیکھتے ہیں جنہوں نے اپنے وقت کی جنگی حکمت عملی میں انقلاب برپا کیا یا جو بے شمار فتوحات کے حامل تھے۔ جلال الدین کے مقابلے میں منگول جرنیل سبوتائی، سلطان شمس الدین التتمش اور سلطان بیبرس زیادہ کامیاب فوجی کمانڈر ثابت ہوئے۔ بعض مؤرخین کے نزدیک ان کے والد علاؤ الدین محمد دوم کی فتوحات بھی جلال الدین سے زیادہ نمایاں تھیں، اگرچہ ان کے زوال میں منگولوں کے خلاف غلط فیصلوں کا بھی کردار تھا۔
ہندستان میں قیام اور دوبارہ اقتدار کا خواب:۔
جلال الدین دریائے سندھ پار کر کے ہندوستان پہنچے اور مختلف مقامی حکمرانوں سے اتحاد کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، دہلی کے سلطان التتمش نے انہیں پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ اس کے باوجود، جلال الدین نے اپنی فوج کو منظم کیا اور پنجاب میں کچھ علاقے فتح کر لیے۔ لیکن ہندوستان میں طویل قیام ان کے لیے ممکن نہ تھا، لہٰذا وہ واپس ایران کی طرف روانہ ہو گئے۔
سلطنت کی بحالی:۔
ایران پہنچ کر جلال الدین نے دوبارہ اپنی سلطنت بحال کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے جارجیا اور دیگر علاقوں پر کامیاب حملے کیے اور کچھ عرصے کے لیے ایک نئی حکومت قائم کی۔ لیکن ان کے سفارتی تعلقات کمزور تھے، اور وہ اپنے دشمنوں سے محاذ آرائی میں الجھے رہے۔ ان کے خلاف مختلف سازشیں تیار کی گئیں، اور بالآخر 1231ء میں کرد قبائل کے ایک شخص نے انہیں قتل کر دیا۔ یوں، تاریخ کا یہ بہادر سپاہی دنیا سے رخصت ہو گیا۔جلال الدین کو آج بھی ایک بہادر اور نڈر حکمران کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ وہ ان چند مسلم حکمرانوں میں سے تھے جنہوں نے چنگیز خان کے خلاف کھل کر جنگ لڑی۔ ان کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر عزم اور حوصلہ بلند ہو تو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ ان کے پیروکار، یعنی خوارزمیہ، بعد میں شام اور مصر میں ایک مضبوط فوجی قوت کے طور پر ابھرے۔
جلال الدین منکبرنی کی زندگی مشکلات، جنگوں اور فتوحات کی ایک زبردست داستان ہے۔ ان کی بہادری، قیادت اور جنگی حکمت عملی آج بھی تاریخ میں ایک مثال کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ وہ ایک ایسا ہیرو تھے جو آخری وقت تک اپنی سرزمین اور وقار کے لیے لڑتا رہا۔ ان کی کہانی ہمیں حوصلہ دیتی ہے کہ مشکلات کے باوجود ثابت قدم رہیں اور اپنے خوابوں کے لیے آخری دم تک لڑیں۔
تبصرہ کریں