سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں بلغراد،سرویا،اور بوسنیا کی فتح کی شاندار تاریخ۔

محاصرہ بلغراد:۔
دوسرے سال محمد ثانی پھر سرویا میں داخل ہوا اور جنوب کی طرف سے بڑھتا ہوا بغیر کسی مزاحمت کے بلغراد تک پہنچ گیا ، اس کے ساتھ ڈیڑھ لاکھ کالشکر اور تین سوتو پیں تھیں، یہ مہم دراصل بلغراد کی فتح کے لیے تھی جو اگرچہ سرویا کی شمالی سرحد پر واقع تھا لیکن اس وقت ہنگری کے قبضہ میں تھا اور گویا ہنگری کا دروازہ تھا، اس کی فتح سے ہنگری کی فتح کا راستہ کھل جاتا اور پھر آسٹریا تک عثمانیوں کو روکنا مشکل ہو جاتا سلطان محمد نے بلغراد پہنچ کر فوراً اس کا محاصرہ کر لیا ، بری فوج کے علاوہ شہر کی شمالی سمت میں عثمانی بیڑا دریائے ڈینوب پر قابض تھا، قسطنطنیہ کی فتح نے سارے یورپ کو خوف زدہ کر دیا تھا، جب سلطان محمد نے بلغراد کا محاصرہ کیا تو یورپ کے تمام ملکوں میں ایک ہلچل مچ گئی اور پوپ نے صلیبی جنگ کا اعلان کر کے اپنے نمائندہ جان کا پسٹر ان ( John Capistran) کو ساٹھ ہزار پر جوش مسیحی سپاہیوں کے ساتھ ہنگری کی مدد کے لیے روانہ کیا ، ہو نیاڈے نے مدافعت میں اپنی پوری قوت صرف کر دی۔
آٹھ روز کی گولہ باری کے بعد 21 / جولائی 1456ء کو سلطان نے ایک عام حملہ کا حکم دیا اور ترک شہر کے ایک حصہ میں داخل ہو گئے لیکن ابھی وہ پوری طرح قابض نہ ہو سکے تھے کہ عیسائیوں کے ایک زبردست حملہ نے ان کو پیچھے ہٹا دیا اور پھر دوسرے حملہ میں عثمانی دستے بالکل منتشر ہو گئے ، یہ حال دیکھ کر سلطان محمد فاتح خود دشمنوں کی صفوں میں گھس گیا، لیکن اس کی حیرت انگیز شجاعت اس روز ترکوں کے قدم کو نہ روک سکی اور اسے بھی زخمی ہو کر میدان جنگ چھوڑنا پڑا ، اس معرکہ میں پچیس ہزار ترک کام آئے اور ان کے پورے توپ خانہ پر عیسائیوں نے قبضہ کر لیا، محاصرہ اٹھا لیا گیا اور بلغراد کی فتح جو ہنگری اور ویانا کے حملوں کا مقدمہ تھی، پچاس سال کے لیے ملتوی ہوگئی ، ہو نیا ڈے اس جنگ میں اس قدر زخمی ہو گیا تھا کچھ ہی روز کے بعد مر گیا ، سلطان کو جب اس کی وفات کی اطلاع ہوئی تو اس نے افسوس ظاہر کیا اور کہا کہ یورپ کا سب سے بڑا سپہ سالار جاتا رہا، دو مہینے بعد جان کا پیسٹر ان کا بھی ، جس کی عمر ستر سال ہو چکی تھی ، انتقال ہو گیا۔
سرویا پر مکمل قبضہ:۔
بلغراد کا محاصرہ اٹھا لینے کے بعد سلطان محمد فاتح ادر نہ کو واپس گیا اور جارج بر نیکوویچ پھر سرویا پر قابض ہوا لیکن اس کی عمر نوے سال سے متجاوز ہو چکی تھی اور تھوڑے ہی دنوں بعد 861ھ (1457ء) میں اس کا انتقال ہو گیا، سرویا کی آزادی بھی اس کے بعد دو سال قائم رہی ، 863ھ (1459ء) میں یہ اسے باقاعدہ طور پر سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لیا گیا ، ہو نیاڈے کی وفات کے بعد صدر اعظم محمود پاشا نے سرویا میں داخل ہو کر دو سال کے اندر پورے ملک کو فتح کر لیا، تاہم یہ ممکن تھا کہ سلطان پھر خراج قبول کر کے سروے کی خود مختاری بدستور قائم رہنے دیتا لیکن جارج بر نیکوویچ کے مرنے کے بعد جو خانہ جنگیاں شروع ہوئیں ان سے ملک کی آزادی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا، جارج نے حکومت کا انتظام مشتر کہ طور پر اپنی بیوہ اور تین لڑکوں کے سپر د کیا تھا ، ان میں بہت جلد جھگڑےشروع ہو گے ۔لیکن دوسرے ہی سال اس فاتح سرویا سلطنتِ کاانتقال ہوگیا، اب سلطان محمد فاتح نے یہ طے کرلیا کہ سر یا کو سلطنتِ عثمانیہ کا ایک صوبہ بنائے۔
لازار کی بیوہ ہیلینا نے اپنے ملک کی سیاسی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے اسے کلیسائے رومہ سے وابستہ کر دینا چاہا لیکن سرویا والوں نے سخت مخالفت کی اور اعلانیہ کہ دیا کہ وہ ترکوں کو رومن کیتھولک عیسائیوں پر ترجیح دیتے ہیں، چنانچہ امرائے سرویانے صدراعظم محمود پاشا کے بھائی کو بلا کر اپنا سردار مقرر کیا اور جب ہیلینا نے اسے قید میں ڈال دیا تو انہوں نے سلطان سے مدد کی درخواست کی سمندریا نے اپنے پھاٹک عثمانی فوجوں کے لیے کھول دیے، جس کی تقلید اور شہروں نے بھی کی ، نتیجہ یہ ہوا کہ 863 (1459ء) میں سرویا کا وجود بحیثیت ایک مستقل مملکت کے فنا ہو گیا ۔
بوسنیا کی فتح:۔
کلیسائے رومہ کے مظالم سے بوسنیا کے باشندے اہل سرویا سے بھی زیادہ عاجز تھے، انہوں نے بھی ترکوں کو اپنا نجات دہندہ سمجھا، صدیوں سے وہاں لاطینی اور یونانی کلیساؤں کے معر کے گرم تھے، جن سے پریشان ہو کر بہت سے لوگ ان دونوں مسلکوں سے علیحدہ ہو گئے تھے اور اپنی عافیت کے لیے ایک نیا مذہب اختیار کر لیا تھا ، جو بدعت ہو گول (Bogumil Heresy) کے نام سے مشہور ہے لیکن اب اس جدید فرقہ کے لوگوں پر دوہرے مظالم ہونے لگے، وہ کبھی یونانی کلیسا کی شدید تعدیوں کا شکار ہوتے اور کبھی لاطینی کلیسا کی، یہ مظالم دیکھ کر اکثر اہل بوسنیا کو اسلام ہی کے دامن رحمت میں پناہ نظر آئی محمود پاشا کی فوج شاہ بوسنیا کی تنبیہ کے لیے، جس نے خراج دینا روک دیا تھا، فاتحانہ بڑھتی آرہی تھی ، بہت سے قلعوں نے ترکوں کا خیر مقدم کیا، بادشاہ میں جب مقابلہ کی طاقت نہ رہی تو اس نے جان بخشی کے وعدہ پر ہتھیار ڈال دیے، مگر محمد فاتح نے اس کو اور اس کے لڑکے کو قتل کر دیا، یوں بوسنیا بھی 867 (1462ء) میں سلطنت عثمانیہ کا ایک صوبہ بن گیا ، اس کے نوجوانوں میں سے تیس ہزار ینی چری فوج کے لیے چن لیے گئے اور اس کے اکثر امر امشرف بہ اسلام ہوئے۔
موریا پر قبضہ:۔
موریا میں خاندان پلیلولوگس کی حکومت کا بھی بتدریج خاتمہ ہورہا تھا، طامس اور دمتریس نے خراج کے وعدہ پر اپنی خود مختاری قائم کر رکھی تھی، لیکن جب بلغراد کی مہم میں سلطان کو نا کامی ہوئی اور یورپ کے مذہبی جوش نے ترکوں کے بڑھتے ہوئے قدم کو ایک لحمہ کے لیے روک دیا تو موریا کے فرماں رواؤں کو بھی دولت عثمانیہ کی سیادت کا بار محسوس ہونے لگا، پوپ نے بھی ان کے جذبات کو براهیختہ کیا، چنانچہ جب پوپ کا جنگی بیڑا بحر ایجین میں نمودار ہوا تو طامس نے ہمت کر کے خراج کی رقم ادا کرنے سے انکار کر دیا ، اس سے قبل بھی تین سال سے باوجود متعدد تقاضوں کے سلطان کو موریا سے خراج کی کوئی رقم وصول نہیں ہوئی تھی لیکن ابھی تک اعلانیہ انکار کی نوبت نہیں آئی تھی، اس لیے محمد فاتح نے کس قسم کی سختی بھی نہیں کی تھی، اب یہ انکار گویا بغاوت کا اعلان تھا، چنانچہ سلطان 63 ھ(1458ء) میں ایک بڑی فوج لے کر خود مور یا آیا اور متعدد قلعوں کو فتح کرتا ہوا پتر اس پہنچا جو طامس کا مستقر تھا، پتر اس کے باشندے شہر چھوڑ کر بھاگ گئے ، قلعہ کے فوجی دستے نے بھی مزاحمت کی جرات نہ کی محمد فاتح نے پتر اس کے باشندوں کے ساتھ بڑی فیاضی اور کشادہ دلی کا برتاؤ کیا ، اس کے بعد کو نتھ فتح ہوا، کو رنتھ کے باشندوں کے ساتھ بھی اس نے ویسی ہی مراعات کیں اور انہیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا لیکن وہاں کے بہت سے لوگوں کو اس نے قسطنطنیہ اور اس کے مضافات میں لے جا کر آباد کیا، یہ لوگ کاریگر اور کاشت کار تھے ، طامس اور دستریس کو اب صلح کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، محمد فاتح نے ان کی درخواست قبول کی اور صلح نامہ کے تکمیلہ کے بعد وہ موریا سے چلا گیا لیکن اس کے جاتے ہی ان بھائیوں نے پھر شورش بر پا کرنی شروع کی ۔
سلطان محمد فاتح کو مجبوراً لوٹنا پڑا ، اب کی بار اس نے تہیہ کر لیا کہ موریا کو سلطنت عثمانیہ کا ایک صوبہ بنا کر رہے گا ، دمتریس نے خود کو مسٹرا ( MYstra) کے قلعہ میں بند کر لیا اور مدافعت کی کوشش کی، مگر بہت جلد اسے ہتھیار ڈال کر قلعہ ترکوں کے سپرد کر دینا پڑا، محمد فاتح نے اس کے اخراجات کے لیے تھریس کا ایک شہر اور اس کے قریب امبروس (Imbros) لمنوس (Lemnos ) اور سامو تھریس (Samothrace) کے جزیرے دے کر اسے ادر نہ بھیج دیا، کچھ دنوں کے بعد یہ جاگیریں بھی ضبط کر لی گئیں اور محمد فاتح نے ان کے بجائے پچاس ہزار ایسپر (Asper) بطور پنشن کے مقرر کر دیے لیکن دمتریس نے آخر میں رہبانیت اختیار کر لی اور 875ھ (1470ء) میں اس کا انتقال ہوا، دمتریس کے بعد سلطان محمد طامس کی طرف متوجہ ہوا اور اس کے علاقہ کے شہروں کو یکے بعد دیگرے فتح کرنا شروع کیا ، طامس نے اپنے مقبوضات کو بچانے کی ذرا بھی کوشش نہ کی اور اپنے خاندان کے ساتھ جہاز پر سوار ہو کر کا رفو چلا گیا لیکن تین ہی مہینہ کے بعد اس نے کارفو کو بھی خیر باد کہا اور رومہ پہنچ کر پوپ کے دامن میں پناہ لی، وہیں 870 (12 مئی 1465ء) میں اس کا انتقال ہو گیا، محمد فاتح نے موریا کے تمام علاقوں کو فتح کر کے ان پر قبضہ کر لیا ، 864 ھ (1460ء) میں موریا بھی سلطنت عثمانیہ کا ایک صوبہ بن گیا۔
کرمانیه:۔
اسی زمانہ میں ایشیائے کو چک کے بعض حصوں پر بھی جو ابھی تک سلطنت عثمانیہ میں شامل نہ تھے، قبضہ کیا جا رہا تھا، کرمانیہ اور دولت عثمانیہ کی عداوت قدیم سے چلی آرہی تھی محمد فاتح کی تخت نشینی کے چند دنوں بعد کرمانیہ کے امیر ابراہیم نیغ نے خراج ادا کرنے کا معاہدہ کر کے سلطان سے صلح کر لی تھی ، اور وہ آخر دم تک اس معاہدہ پر قائم رہا، اس کے انتقال کے بعد اس کے لڑکوں میں ریاست کے لیے جنگ چھڑ گئی محمد فاتح نے ان سب کو برطرف کر کے خود کر مانیہ پر قبضہ کر لیا اور اسے مستقل طور پر سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لیا۔
طرابزون اور سینوپ:۔
ایشیائے کو چک میں سینوپ اور طرابزون پر اب تک دولت عثمانیہ کا قبضہ نہ ہا تھا محمد فاتح نے پہلے سینوپ کے مضبوط شہر پرقبضہ کیا، اسماعیل بیگ امیر سینوپ کی چار سو تو ہیں اور دس بارہ ہزار سپاہی کچھ دیر بھی مقابلہ نہ کر سکے اور اس نے شہر سلطان کے حوالے کر دیا ، اس کے بعد محمد فاتح، طرابزون کی طرف متوجہ ہوا ، طرابزون کا شہر اور ملحق علاقے قدیم بازنطینی سلطنت کا جزو تھے، 601 ھ (1204ء) کے بعد سے جب کہ قسطنطنیہ پر محاربین صلیبی کا قبضہ ہو گیا تھا ، طرابزون نے ایک جدا گانہ مملکت کی شکل اختیار کر لی تھی۔ 845 (1461 ) میں سلطان محمد نے اسے فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا، اب ایشیائے کو چک کے تمام علاقے سلطنت عثمانیہ کے دائرے میں آگئے ، بحر اسود کے ساحل پر جنوا کے جو مقبوضات تھے وہ بھی فتح کر لیے گئے ۔
یونانی مجمع الجزائر:۔
محمد فاتح نے یونانی مجمع الجزائر کے بہت سے جزیروں پر بھی جو و ینس اور جنوا کے زیر حکومت تھے حملہ کر کے انہیں فتح کر لیا، ان میں سے لیپوس (Lesbos) لمنوس (Lemnos) اور سیفالونیا ( Cephalonia) خاص طور پر قابل ذکر ہیں، جزیرہ یو بیا (Uboea) کا بھی یہی حشر ہوا، یہ جمہور یہ وینس کا مقبوضہ تھا، جس کے اور مقبوضات بھی جو موریا کے ساحل پر واقع تھے، سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لیے گئے ۔
کریمیا کی فتح:۔
قسطنطنیہ کے بعد محمد فاتح کا سب سے اہم کارنامہ کریمیا کی فتح تھی ، جس کا سہرا دولت عثمانیہ کے مشہور سپہ سالار صدراعظم احمد کدک پاشا کے سر ہے، کریمیا پر حملہ کے دو خاص اسباب تھے، ایک سبب تو یہ تھا کہ اس زمانہ میں جنوا سے دولت علیہ کے تعلقات بہت خراب ہو گئے تھے اور کریمیا میں کافہ کا مضبوط شہر جنوا کے قبضہ میں تھا، دوسرا سبب یہ ہوا کہ خود خان کریمیا نے ، جسے اس کے باغی بھائیوں نے تخت سے اتار دیا تھا، محمد فاتح سے مدد کی درخواست کی لیکن ان اسباب کے علاوہ کریمیا کا محل وقوع بھی قسطنطنیہ کے تخت نشینوں کے لیے حد درجہ اہم تھا اور محمد جیسے بیدار مغز سلطان کی نظر سے یہ امر پوشیدہ نہ تھا کہ عثمانی مقبوضات کے تحفظ کے لیے کریمیا کو اپنی سلطنت میں شامل کر لینا کس حد تک ضروری ہے، چنانچہ 880ھ (1475ء) میں احمد کرک نے جنگی بیڑے اور چالیس ہزار فوج کے ساتھ پہلے کافہ پر حملہ کیا ، اس شہر نے جو اپنی دولت اور مضبوطی کے لحاظ سے قسطنطنیہ کو چک کہلاتا تھا، چار روز میں ہتھیار ڈال دیے، بہت زیادہ مال غنیمت ہاتھ آیا ، چالیس ہزار باشندے قسطنطنیہ کو منتقل کر دیے گئے اور ڈیڑھ ہزار نو جوان جنوی امراینی چری فوج میں داخل کیے گئے ، پھر سرعت کے ساتھ پورے ملک پر ترکوں کا قبضہ ہو گیا اور کریمیا کی آزادی ختم ہوگئی ، اس کے بعد تین سو برس تک کریمیا کے خان دولت عثمانیہ کے محکوم رہے۔
تبصرہ کریں