/ تاریخِ اسلام / خلافتِ عثمانیہ

سلطنتِ عثمانیہ کے تیسرے حکمران کی مکمل تاریخ۔

سلطان مراد اول، وہ بہادر حکمران جس نے عثمانی سلطنت کو بوسنیا اور بلقان کے دل تک پہنچایا۔ تاریخ کے صفحات میں انہیں "فاتحِ کوسووہ" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی قیادت نے نہ صرف عثمانی افواج کو ناقابل شکست بنایا بلکہ پہلی بار ایک مضبوط نظامِ حکومت کی بنیاد بھی رکھی۔ ایک ایسا سلطان جو میدانِ جنگ میں سپاہیوں کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوا، اور اپنی جان کے ذریعے تاریخ میں ایک لازوال داستان رقم کی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ سلطان مراد اول کی قیادت نے عثمانی سلطنت کو کس طرح دنیا کی بڑی طاقتوں میں شامل کر دیا؟ آیئے، ان کی شاندار زندگی کا جائزہ لیتے ہیں!

اور خان کی وفات پر اس کا چھوٹا لڑکا مراد چالیس سال کی عمر میں تخت نشین ہوا، اس میں ملک گیری اور حکمرانی کی وہ تمام خصوصیات بدرجہ غایت موجود تھیں جو آل عثمان کے ابتدائی فرماں رواؤں کا طرہ امتیاز رہیں ، اس کی غیر معمولی فوجی قابلیت نے ایک قلیل مدت میں یورپ کی متعدد مملکتوں کو سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لیا اور انتظام حکومت کے خداداد ملکہ نے ان مفتوحات کو سلطنت کا ایک مستقل جزو بنا دیا۔

اور خان نے اپنے عہد میں سلطنت کو بہت کچھ وسعت دی تھی. لیکن اناطولیہ کی بعض تر کی ریاستیں رقبہ میں اب بھی اس سے بڑھی ہوئی تھیں، مراد کی تخت نشینی کے وقت سلطنت عثمانیہ ایشیائے کو چک کے شمالی مغربی حصہ اور یورپ میں زنپ، گیلی پولی اور تھریس کے بعض دیگر مقبوضات پر مشتمل تھیں، جہاں سلیمان پاشا نے ترکوں اور عربوں کی نو آبادیاں قائم کر دی تھیں، اس کا مجموعی رقبہ میں ہزار مربع میل سے زیادہ نہ تھا اور آبادی بھی دس لاکھ سے کم ہی تھی ، " مراد نے صرف تیس سال کی مدت میں سلطنت کو پانچ گنا بڑھا دیا۔

ایشیائے کو چک میں بغاوت:۔

عنان حکومت کو ہاتھ میں لینے کے بعد مراد نے سب سے پہلے یورپ کی طرف بڑھنے کا قصد کیا لیکن امیر کرمانیہ نے اس قدیم بغاوت کی بنا پر جو اس کے خاندان اور آل عثمان کے درمیان چلی آتی تھی، ایشیائے کو چک میں مراد کے خلاف بغاوت کر دی، جسے ختم کرنے کے لیے مراد کو یورپ کا قصد ملتوی کرنا پڑا، اس نے فوراً موقع پر پہنچ کر بغاوت کا استیصال کیا ، ادھر سے اطمینان حاصل کرنے کے بعد وہ یورپ کی طرف متوجہ ہوا اور 761ھ بمطابق (1360ء) میں درہ دانیال کو عبور کر کے فتوحات کا وہ حیرت انگیز سلسلہ شروع کیا جو 791ھ (1389ء) میں صرف اس کی شہادت پر جنگ کسووا میں ختم ہوا۔

فتوحات تھریس:۔

مراد کی تخت نشینی کے وقت سلطنت بازنطینی کی حالت نہایت ابتر تھی، اس کے تمام ایشیائی مقبوضات پرترکوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ یورپ میں قسطنطنیہ کے علاوہ صرف شمالی تحریں اور مقدونیا اور مور یا کے کچھ حصے باقی رہ گئے تھے، باہمی عداوتوں کے باعث ابتدا میں کوئی عیسائی حکومت ترکوں کے مقابلہ میں اس کی مدد کے لیے آمادہ نہ ہوئی ، یہ سلطنت بلا شبہ ایک مسیحی سلطنت تھی اور ترکوں کا سلہ مذہبی نقطۂ نظر سے نہایت خطرناک تھا لیکن یورپ میں محاربات صلیبی کی قدیم روح تقریباً فنا ہو چکی تھی اور یونانی اور لاطینی لیساؤں کی شدید مخاصمت نے اتحاد عمل کے لیے بہت کم گنجائش باقی رکھی تھی۔ ان حالات میں مراد نے درہ دانیال کو عبور کر کے ایک زبردست فوج کے ساتھ تھریس میں قدم رکھا اور سب سے پہلے قلعہ شورلو پر قبضہ کیا، جو قسطنطنیہ سے صرف پانچ میل کے فاصلہ پر اقع تھا، اس کے بعد دوسرا قلعہ کرک کلیسے (ir lisse فتح ہوا، پھر سنہ764ھ بمطابق 1363ء میں اس کو بابا کے مقام پر بازنطینیوں کے ساتھ ایک سخت معرکہ پیش آیا۔ جس میں مراد نے انہیں بری طرح شکست دی، نتیجہ یہ ہوا کہ اور نہ نے فوراً ہتھیار ڈال دیے اور تقریباً تمام تھریس مراد کے قبضہ میں آگیا، اس کے بعد عثمانی جنرل لالہ شاہین نے بلغاریا میں داخل ہو کر فلیو پولس کو فتح کر لیا جو کہ کوہِ بلقان کے جنوب میں سلطنت بازنطینی کا مقبوضہ تھا اور شہنشاہ قسطنطنیہ کو مجبور ہو کر مراد سے صلح کرنی پڑی، اس سے معاہدہ کیا کہ تھریس کے جو علاقے اس کے ہاتھ سے نکل گئے تھے انہیں دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے گا ، عثمانیوں کے آئندہ حملوں میں سرویا اور بلغاریا کو مدد نہ دے گا اور اناطولیہ کے ترکی امرا کے مقابلہ میں مراد کی اعانت کرے گا ، اس کے بعد مراد بروصہ کو واپس لوٹ گیا۔

جنگ مارٹیز:۔

یورپ میں مراد کا مقابلہ اس وقت تک صرف بازنطینیوں سے تھا اور دوسری مسیحی حکومتوں نے ترکوں کی مدافعت میں سلطنت بازنطینی کو مطلق مدد نہیں دی تھی ، یہاں تک کہ یورپ میں بھی جس نے اس سے پیش تر محاربات صلیبی کی تحریک میں اس قدر نمایاں حصہ لیا تھا، مراد کی ان فتوحات پر کسی قسم کی تشویش کا اظہار نہیں کیا بلکہ یونانی کلیساؤں کے پیروؤں کی تباہی کو اطمینان کی نظر سے دیکھتار ہا مگر اب فلپو پولیس کی فتح نے معاملہ کی صورت بالکل بدل دی، یہ شہر اگر چه سلطنت بازنطینی کا مقبوضہ تھا، تاہم بلغاریہ میں واقع تھا، اس کی فتح نے عثمانی فوجوں کے لیے بلغاریا کا راستہ کھول دیا، ترکوں کا یہ اقدام بالآخر کلیسائے رومہ کے زیر سایہ حکومتوں کے لیے بھی تردد کا باعث ہوا اور پوپ اربن پنجم (Pope Urben (V) نے ہنگری ، سرویا، بوسنیا اور ولا چیا کے فرماں رواؤں کو آمادہ کیا کہ ترکوں کے بڑھتے ہوئے قدم کو روکنے کے لیے اپنی فوجیں روانہ کریں، چنانچہ اتحادیوں نے 764ھ (1363ء)  میں ہزار فوج تھریس روانہ کی اور یہ اعلان کیا کہ وہ ترکوں کو یورپ سے نکال کر چھوڑیں گے، مراد اس وقت اناطولیہ میں تھے، یہ خبر سن کر وہ فوراً یورپ کی طرف روانہ ہوا، مگر اس کے پہنچنے سے پہلے ہی لالہ شاہین ایک مختصر فوج کے ساتھ، جو تعداد میں مسیحی لشکر کی نصف تھی ، ان کے مقابلہ کے لیے آگے بڑھا اور روز رات کو جب کہ اتحادی فوجیں اور نہ سے قریب دریائے ماریزا کے ساحل پر اپنے خیموں کے اندر شراب و کباب کی سرمستیوں میں مبتلا تھیں، دفعتا حملہ آور ہو کر تقریباً سب کو تہ تیغ کر دیا، جو لوگ لالہ شاہین کی تلوار سے بچ گئے انہوں نے دریا کو عبور کرنے کی کوشش میں ڈوب کر جان دی ، یوں گویا پوری عیسائی فوج ہلاک ہوگئی، شاہ ہنگری جو موقع پر موجود تھا، بہ مشکل جان بچا کر بھاگا۔ یہ پہلا معرکہ تھاجو عثمانیوں کو یورپ کی سلائی قوموں کے ساتھ پیش آیا ، اس جنگ کا نتیجہ یہ ہوا کہ  جنوب کا سارا علاقہ سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لیا گیا، اس سے عیسائیوں کی قوت کو سخت صدمہ پہنچا اور مراد نے یہ فیصلہ کر لیا کہ آئندہ اپنی سلطنت کو بجائے ایشیا کے یورپ میں وسعت دینے کی کوشش کرے گا ، اسی غرض سے اس نے اب "ڈیموٹیکا" کو جو تھریس میں واقع تھا، پایہ تخت بنایا اور پھر تین سال کے بعد "اور نہ" کو دار السلطنت قرار دیا ، اس کی یہ حیثیت فتح قسطنطنیہ تک قائم رہی اورادر نہ سے مراد نے بلقانی ریاستوں پر حملہ کی تیاریاں شروع کیں، جنگ مارٹیزا کے بعد مراد اور شہنشاہ قسطنطنیہ کے درمیان ایک اور معاہدہ ہوا جس کی رو سے شہنشاہ نے سلطان کا باج گزار ہونا منظور کرلیا اور آئندہ جنگوں میں عثمانی فوج کی حمایت میں اپنی فوج کا ایک دستہ بھیجنے کا وعدہ کیا۔

شہنشاہ کی ناکامی:۔

کچھ دنوں تک تو شہنشاہ قسطنطنیہ خاموشی کے ساتھ خراج ادا کرتا رہالیکن پھر اسے اپنی محکومی نا قابل برداشت محسوس ہونے لگی ، چنانچہ 771ھ (1369ء) میں اس نے رومہ کا سفر کیا اور پوپ کی خدمت میں حاضر ہو کر یورپ کی مسیحی حکومتوں کو دولت عثمانیہ کے خلاف ابھارنے کی درخواست پیش کی ، اس نے پوپ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کی ذلت گوارا کی ، یونانی کلیسا کے ان تمام عقائد سے بیزاری ظاہر کی جو کلیسائے رومہ سے مختلف تھی اور مذہبی معاملات میں کلیسائے رومہ کی برتری بھی تسلیم کر لی ، مگر ان تمام باتوں کے باوجود اس کا مقصد حاصل نہ ہو سکا اور مسیحی حکومتیں ترکوں کے خلاف اعلان جنگ کے لیے آمادہ نہ ہوئیں، شہنشاہ ناکام و نامراد قسطنطنیہ کو واپس ہوا اور واپسی میں جب وہ وینس سے گزر رہا تھا تو وہاں کے بعض ساہوکاروں نے جن سے رومہ کے سفر کے لیے اس نے روپیہ قرض لیا تھا، اسے گرفتار کر لیا، اس کے پاس اتنا روپیہ نہ تھا کہ قرض ادا کر سکے، اس کا بڑا لڑکا اینڈر رونیکس جسے وہ قسطنطنیہ میں اپنا جانشین بنا گیا تھا، حکومت کی لذت سے آشنا ہو کر باپ کی رہائی کا خواہش مند نہ تھا، اس لیے اس نے بھی قرض ادا کرنے کی کوشش نہ کی لیکن چھوٹے لڑکے مینٹول نے اپنی املاک فروخت کر کے قرض کی رقم فراہم کی اور شہنشاہ کو آزاد کرایا، قسطنطنیہ پہنچنے کے بعد شہنشاہ نے اینڈروئیکس کو حکومت کے تمام منصبوں سے معزول کر دیا اور اس کی جگہ مینوئل کو مقرر کر کے اسے اپنے ساتھ تاج و تخت کا شریک بھی قرار دیا۔

شہزادےصادوجی کی بغاوت:۔

اینڈ روٹیکس کا لڑکا جس کا نام بھی اینڈ رونیکس تھا، اپنے باپ کی اس حق تلفی پر سخت برافروختہ ہوا اور اس نے مراد کے سب سے چھوٹے لڑکے شہزاہ صادوجی کو اس بات پر آمادہ کیا کہ دونوں مل کر شہنشاہ اور مراد کو تخت سے اُتار دیں اور ان کی جگہ خود فرماں روا بن جائیں، مراد اس وقت ایشیائے کو چک میں تھا اور صادو جی اس وقت یورپ میں تر کی سپاہ کا افسر اعلیٰ تھا، اس نے مراد کی غیر موجودگی سے فائدہ اُٹھا کر فوراً بغاوت کا اعلان کر دیا ، ادھر اینڈ رونیکس نے بھی نو عمر بازنطینی امرا کی ایک جماعت اپنے ساتھ ملا کر شہنشاہ کے خلاف جنگ کی تیاری شروع کی ، ان شہزادوں کی متحدہ بغاوت نے ایک خطر ناک صورت اختیار کر لی ، مراد اس خبر کو سنتے ہی یورپ پہنچا، شہنشاہ اینڈرونیکس کے جرم سے اپنی برات پیش کی اور اس فتنہ کوفر و کرنے کے لیے پوری آمادگی ظاہر کی ، اس نے مراد کی یہ تجویز بھی منظور کر لی کہ گرفتاری کے بعد دونوں شہزادے اپنی بینائی سے محروم کر دیے جائیں ، صادوجی کی فوج نے اپنے سلطان کی زبان سے معافی کا وعدہ سن کر باغی شہزادہ کا ساتھ چھوڑ دیا ، صادوجی ، اینڈ رونیکس اور نوجوان بازنطینی امرا گرفتار کر کے مراد کے سامنے لائے گئے مرا نے پہلے سادہ جی کی آنکھوں میں گرم سیسہ پلا کراس اندھا کر دیا ۔ باغی عیسائی شہزادے کو شہنشاہ کے پاس بھیج دیا گیا، اس نے حسبِ وعدہ ان کی آنکھوں میں بھی سیسہ ڈلواد یا۔لیکن اس طرح کی خفیف کی بینائی باقی رہ گئی۔ ان واقعات کا نتیجہ یہ ہوا کہ شہنشاہ قسطنطنیہ کو ایک جدید معاہدہ کرنا پڑا، جس کی رو سے اس نے دولت عثمانیہ کی باج گزاری از سرنو تسلیم کی،اور لشکر میں فوجی خدمت انجام دینے کا وعدہ کیا اور ضمانت کے طور پر اپنے لڑکے مینوئل کو مراد کی خدمت میں بھیج دیا۔

 

فتوحات بلغاریا ، مقدونیا و سر و یا:۔

اگر چہ بلغاریہ نے جنگ مارٹیز میں شرکت نہیں کی تھی تاہم تھریس کی فتح اور عیسائیوں کی شکست نے اس کو بھی نہایت اہم ا خطرات میں مبتلا کر دیا، خصوصاً ادر نہ اور فلیو پولس پر قبضہ ہو جانے کے بعد بلغار یا اور مقدونیا کی راہ ترکوں کے لیے کھل گئی، ریاست ہائے بلقان کے باہمی بغض و عناد نے ان کی قوتوں کو کمزور کر دیا تھا، اس لیے مراد کو شروع میں ان کی متحدہ طاقت سے مقابلہ پیش نہیں آیا ، 768 ھ (1366ء ) اور 771ھ (1369ء) کے درمیان وہ بلغاریا میں بڑھتا چلا گیا اور کوہ روڈوپ تک وادی مارٹیز پر قابض ہو گیا ، سر و یا اب تک بلغار یا کا شریک نہ تھا لیکن مراد کی ان فتوحات کے بعد اس نے بلغاریا سے مل کر ترکوں کا سد باب کرنا چاہا، 773ھ (1371ء) میں لالہ شاہین نے صوفیا کے قریب ساکوف کے میدان میں بلغاری اور سردی افواج کا مقابلہ کیا اور ان کو سخت شکست دی، اس جنگ کے بعد کوہ بالقان تک بلغار یا کا سارا علاقہ سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لیا گیا ، دوسرے سال لالہ شاہین اور عثمانی فوج کے دوسرے مشہور جنرل افروینوس نے مقدونیا پر حملہ کیا جو اسٹیفن ڈوشن کے زمانہ سے سرویا کا ایک صوبہ تھا اور کوالا ڈروما اور سریز کے شہروں کو فتح کرتے دریائے دروار کو عبور کر کے قدیم سرویا ، البانیا اور بوسنیا میں داخل ہوئے ، لازار شاہ سردیا نے شکست کے بعد مراد کی اطاعت قبول کر لی ، بلغاریا کے بادشاہ سیمان نے بھی اپنی لڑکی حرم سلطانی میں پیش کر کے صلح کی درخواست کی، چنانچہ بلغار یا کا وہ حصہ جو کو و بلقان کے شمال میں واقع تھا اور اس وقت تک سلطنت عثمانیہ میں شامل نہیں کیا گیا تھا، اس کی حکومت میں رہنے دیا ، اس کے بعد 783ھ (1381ء) تک مراد اپنے ایشیائی مقبوضات کی توسیع و استحکام میں مصروف رہا، 783ھ میں اس نے پھر سر و یا کا رخ کیا اور عثمانی فوج نے دریائے دروار کو عبور کر کے مونا ستر پر قبضہ کر لیا، اس کے بعد 787ھ (1385ء) میں صوفیا فتح ہوا، سیسمان کو اپنی ملکہ اور خاندان کے ساتھ گھٹنے ٹیک کر مراد سے رحم کی درخواست کرنی پڑی، مراد نے سالانہ خراج قبول کر کے اسے بلغاریا کے تخت پر قابض رہنے کی اجازت دے دی، 787 ھ (1386ء) میں پچیس روز کے شدید محاصرہ اور سخت جنگ کے بعد نیش پر بھی جو سرویا کے قلب میں ایک نہایت مضبوط قلعہ تھا، نیز قسطین اعظم کے مولد ہونے کی وجہ سے خاص اہمیت رکھتا تھا، مراد کا قبضہ ہو گیا، سرویا کو اب مقاومت کا یارا نہ رہا، اس نے ہزار پونڈ نقر کی سالانہ خراج اور عثمانی لشکر کےلیے ہزار سوار دینے کا وعدہ کر کے صلح کر لی۔

 

امن و اصلاحات کا زمانہ:۔

سنہ 778ھ (1376ء) سے 783ھ (1381ء) تک کا زمانہ مراد کے دور حکومت میں امن کا زمانہ تھا، اس مدت میں اس نے کوئی جنگ نہیں چھیڑی اور اپنی توجہ زیادہ تر سلطنت کے انتظام و استحکام کی جانب مبذول رکھی ، اس نے فوجی نظام میں اصلاحات جاری کیں اور جاگیری نظام کو مکمل کیا ، مفتوحہ علاقوں میں جاگیر میں قائم کر کے سپاہیوں کو دیں اور ہر جا گیردار کو جنگ کے موقعوں پر ایک یا ایک سے زیادہ مسلح سوار فراہم کرنے کا ذمہ دار بنایا، یہ فوجی جاگیریں چھوٹی اور بڑی دو قسموں کی تھیں، چھوٹی کو تیار اور بڑی کو زعامت کہتے تھے، اس نے شاہی زمینیں الگ کیں اور مسجدوں نیز دوسرے مذہبی اداروں کے لیے بہت سی زمینیں وقف کر دیں، مراد نے عیسائی رعایا کی ایک جماعت بھی اونی فوجی خدمات کے لیے مرتب کی ، اصطبل وغیرہ کی صفائی، خیموں کو نصب کرنا اور اکھاڑنا، سامان کی گاڑیوں کی دیکھ بھال اور اسی قسم کے دوسرے کام ان لوگوں کے فرائض میں داخل تھے، مراد ہی کے عہد میں سپاہیوں کے علم کے لیے سرخ رنگ تجویز ہوا، جو عثمانی فوجوں کا قومی رنگ ہو گیا۔

 

اناطولیہ میں سلطنت کی توسیع:۔

لیکن امن کے زمانہ میں مراد توسیع سلطنت کی تدبیروں سے غافل نہ تھا، 778ھ (1376ء) میں اس نے شہزادہ بایزید کا نکاح امیر کرمیان کی لڑکی سے کر دیا، عروس کو ریاست کرمیان کا بڑا حصہ اور قلعہ کوتاہیہ جو اپنے مقام کے لحاظ سے بہت اہمیت رکھتا تھا، جہیز میں ملا اور یہ علاقہ سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لیا گیا، شادی کی تقریب بروصہ میں بڑی دھوم دھام سے منائی گئی ، اناطولیہ کی تمام تر کی ریاستوں کے نمائندے اور سلطنت مصر کے سفیر شریک ہوئے، یہ لوگ اپنے ساتھ عرب کے صبا رفتار گھوڑے، یونان کی حسین کنیزیں اور اسکندریہ کے حیرت انگیز ریشمی کپڑے نذر کے طور پر لائے تھے، من جملہ اور تحائف کے سونے اور چاندی کے ظروف بھی تھے، جن میں طلائی اور نقر کی سکتے بھرے ہوئے تھے، نیز پیالے اور طشت تھے جن میں جواہرات جڑے ہوئے تھے، یہ تمام چیزیں مراد نے اپنے مہمانوں میں تقسیم کر دیں لیکن جب عروس نے کرمیان کے قلعوں کی کنجیاں پیش کیں تو انہیں اپنے ہی پاس رکھا، 779ھ (1377ء) میں مراد نے ریاست حمید کے امیر کو آمادہ کیا کہ اپنی ریاست کا ایک بڑا حصہ اس کے ہاتھ فروخت کر ڈالے، جس میں آق شہر کا ضلع بھی شامل تھا، ریاست حمید کا یہ علاقہ شامل کر لینے سے سلطنت عثمانیہ کی سرحد ریاست کرمانیہ سے بالکل متصل ہوگئی ، کرمانیہ اور آل عثمان کی آویزش ابتدا سے چلی آتی تھی، اسے دور کرنے کے خیال سے مراد نے اپنی لڑکی نفیسہ کا عقد علاؤالدین امیر کرمانیہ سے کر دیا، چنانچہ تقریبا دس سال یہ صلح قائم رہی لیکن ان میں سے ہر فریق اناطولیہ کے ترکوں کی سرداری کا دعوے دار تھا اور باوجود اس کے کہ ایشیائے کو چک کی متعد تر کی ریاستیں سلطنت عثمانیہ میں شامل ہو چکی تھیں، امیر کرمانیہ کی خودسری اور شورش انگیزی مراد کو اس کے ایشیائی مقبوضات کی طرف سے مطمئن نہیں ہونے دیتی تھی، چنانچہ 0779 (1377ء) میں دونوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور قونیہ میں علاؤ الدین کو بری طرح شکست ہوئی ، مراد اگر چاہتا تو علاؤالدین کو قتل کر کے اس کی ریاست پر قابض ہو جاتا لیکن نفیسہ کی التجاؤں سے متاثر ہو کر اس نے علاؤالدین کا قصور معاف کر دیا اور اس کی ریاست اسے پھر بخش دی ، علاؤالدین نے مراد کو اپنا آقا تسلیم کیا ، اس جنگ میں شہزادہ بایزید نے اپنے حملوں کی حیرت انگیز سرعت اور شدت کی بنا پر یلدرم (بجلی) کا لقب حاصل کیا تھا ، اس کے بعد مراد بروصہ کو واپس گیا اور اب اس کی خواہش تھی کہ بقیہ عمر آرام اور یاد الہی میں گزار دے، چنانچہ اسی وجہ سے اس نے ریاست تکہ پر حملہ کر کے اسے اپنی سلطنت میں شامل کرنے سے انکار کر دیا اور جس فوجی افسر نے یہ تجویز پیش کی تھی اسے یہ جواب دیا کہ ” امیر تکہ بہت غریب اور کمزور ہے، مجھے اس سے جنگ کرنے میں شرم آنی چاہیے، شیر مکھیوں کا شکار نہیں کرتا۔

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

قسطنطنیہ کی فتح

سلطنت عثمانیہ نے  قسطنطنیہ کو فتح کرنے اور بازنطینی سلطنت کو ختم کرنے کے لیے کی بار اس شہر کا محاصرہ کیا۔ لیکن یہ محاصرے صلیبیوں کے حملے،تخت کے لیے خانہ جنگی،بغاوت اور امیر تیمور کے…

مزید پڑھیں
سلطنت عثمانیہ"600سالہ دور حکومت کی لاذوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ جسے دولتِ عثمانیہ اور خلافتِ عثمانیہ کہا جاتا ہے یہ تقریباً سات سو سال تک  قائم رہنے والی  مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت  تھی۔یہ سلطنت 1299ء سے1922 تک قائم رہنے والی مسلمان سلطنت تھی  جس کے حکمران ترک…

مزید پڑھیں
سلطنتِ عثمانیہ کے عروج و زوال کی لازوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ اسلام کی مضبوط ترین اور  عظیم الشان سلطنت تھی۔ترکوں کی یہ عظیم سلطنت جو 600 سالوں سے زیادہ عرصے پر محیط تھی،اس کی سرحدیں یورپ ایشیا اور افریقہ تک پھیلی ہوی تھیں ،یہ خانہ بدوش ایشیا مائنر سے…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں