سلطنتِ عثمانیہ کے دسویں سلطان سلیمان القانونی کی ابتدائی تاریخ۔

سلطان سلیمان اول، جنہیں "سلیمان قانونی" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، سلطنت عثمانیہ کے وہ عظیم فرمانروا تھے جنہوں نے اپنی عقل، بہادری، اور انصاف پروری سے تاریخ کے صفحات پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ 1520 میں تخت نشین ہونے والے سلیمان نہ صرف ایک فاتح تھے بلکہ وہ ایک دانشمند حکمران بھی تھے، جن کا دورِ حکومت سلطنت عثمانیہ کا سنہری دور کہلاتا ہے۔ان کی فوجی فتوحات میں بلغراد اور رودس کی فتح سب سے نمایاں ہیں۔ 1521 میں بلغراد کو عثمانیوں نے اپنے زیرِ نگیں کر لیا، جو یورپ کے قلب میں ایک ناقابلِ تسخیر قلعہ سمجھا جاتا تھا۔ اس کے بعد 1522 میں یونانی جزیرے رودس کو بھی عثمانی سلطنت کا حصہ بنایا، جہاں مشہور زمانہ سینٹ جان نائٹس کو پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ یہ دونوں فتوحات نہ صرف سلیمان کی جنگی مہارت کا ثبوت تھیں بلکہ یورپ میں عثمانی سلطنت کے اثر و رسوخ میں زبردست اضافے کا باعث بھی بنیں۔
لیکن سلطان سلیمان صرف ایک جنگجو نہیں تھے، وہ ایک مدبر حکمران بھی تھے۔ انہوں نے سلطنت میں قانون سازی کے ایسے اصول وضع کیے جو صدیوں تک عثمانیوں کا نظامِ حکومت چلاتے رہے، اور اسی وجہ سے انہیں "قانونی" یعنی قانون ساز کہا جاتا ہے۔ وہ فنون، تعمیرات، اور ادب کے عظیم سرپرست تھے، جن کے دور میں اسلامی فن و ثقافت کو عروج حاصل ہوا۔ان کی کہانی صرف جنگوں اور فتوحات تک محدود نہیں، بلکہ محبت بھی اس داستان کا ایک لازمی حصہ ہے۔ ان کی رفاقت حرم سلطان سے ایک لازوال محبت کی مثال بنی، جو نہ صرف ان کی شریکِ حیات تھیں بلکہ سلطنت کے سیاسی معاملات میں بھی ایک بااثر شخصیت تھیں۔سلطان سلیمان کی شخصیت، ان کی فتوحات، اور ان کی اصلاحات نے انہیں تاریخ کے سب سے بڑے حکمرانوں میں شامل کر دیا۔ ان کا عہد سلطنت عثمانیہ کی سب سے شاندار اور یادگار صدی تھا، جس کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔
سلیمان اعظم کا عہد حکومت نہ صرف تاریخ عثمانیہ بلکہ تاریخ عالم کا ایک نہایت اہم دور ہے، مغربی یورپ کی سلطنتیں قرون وسطیٰ کے خلفشار سے نکل کر عہد جدید کی معرکہ آرائیوں کے لیے تیار ہو رہی تھیں، سلطنت عثمانیہ اور ان کے درمیان چالیس سال سے کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی تھی ، یورپ میں بایزید ثانی کی لڑائیاں چھوٹی چھوٹی مسیحی حکومتوں کے ساتھ محدودر ہیں، سلیم کی توجہ تمام تر اسلامی سلطنتوں کی جانب مبذول رہی ، اس مدت میں یورپ کی سلطنتوں نے بہت نمایاں طور پر ترقی کر لی تھی ، اسپین سے مورس کا اخراج ہو چکا تھا اور وہاں کی مختلف مسیحی ریاستیں متحد ہو کر ایک فرماں روا کے زیر حکومت آچکی تھیں، فرانس اپنی خانہ جنگیوں کو ختم کر کے دوسرے ملکوں کی فتوحات کے لیے نکل چکا تھا، انگلستان اور سلطنت آسٹریا میں بھی قوت و استحکام کی علامتیں ظاہر تھیں، من جملہ دیگر فنون کے فن حرب میں خصوصیت کے ساتھ بہت زیادہ ترقی ہو گئی تھی ، با قاعدہ تنخواہ دار پیدل فوجیں بڑی تعداد میں رکھ لی گئی تھیں، آتشیں اسلحوں کا استعمال کثرت سے کیا جا رہا تھا ، عیسائی سلطنتوں میں اپنی قوت کی ترقی کا احساس اور مسلمانوں سے تازہ مقابلہ کا حوصلہ شدت سے پیدا تھا، یورپ مذہبی جوش سے لبریز تھا اور باہمی عداوتوں کے باوجود تمام مسیحی سلطنتیں دولت عثمانیہ کے مقابلہ کے لیے آمادہ و مستعد تھیں، شہنشاہ چارلس پنجم جس کی وسیع سلطنت یورپ کے نصف سے زیادہ حصہ پر پھیلی ہوئی تھی ، خاص طور پر اس مسیحی اتحاد میں پیش پیش تھا۔ دولت عثمانیہ کے لیے چارلس اور اس کے معاونین سے قوت آزمائی کرنا آسان نہ تھا، خصوصاً ایسی حالت میں کہ ایران کی وسیع سلطنت دشمنی پر آمادہ تھی اور شام و مصر میں ہر وقت بغاوت کا خطرہ تھا، تاہم وہ نہ صرف ان بیرونی اور اندرونی خطرات سے محفوظ رہی بلکہ سولہویں صدی کی پوری مدت میں اس کی قوت وسطوت میں اضافہ ہی ہوتا گیا اور عیسائی سلطنتوں کے بہتیرے صوبے اس کے مقبوضات میں شامل ہو گئے ، اس میں شبہ نہیں کہ سولہویں صدی میں ترکوں کی عظیم الشان کامیابی کا سبب ان کی زبردست فوجی قوت اور اپنی قومی عظمت کا احساس تھا لیکن اس کامیابی کا اصلی سبب یہ تھا کہ عنان سلطنت ایک ایسے فرماں روا کے ہاتھ میں تھی جو دولت عثمانیہ کا سب سے بڑا تاج دار اور اس وقت تمام دنیا کا سب سے بڑا شہنشاہ تھا۔
ذاتی اوصاف و اخلاق:۔
سلطان سلیمان چھبیس سال کی عمر میں تخت نشین ہوے، بایزید ثانی کے زمانہ میں جب اس کی عمر بہت کم تھی وہ مختلف صوبوں کے حاکم رہ چکا تھا، پھر جب سلیم نے ایران پر حملہ کیا تو سلیمان کو نائب سلطنت کی حیثیت سے قسطنطنیہ میں چھوڑ گیا، اس کے بعد جنگ مصر کے دوران میں وہ ادرنہ کا حاکم تھا اور پھر سلیم کے عہد کے آخری دو سالوں میں ولایت صادرخان کا انتظام اسی کے سپر د تھا، چنانچہ جب سلیم کی وفات کے بعد وہ تخت پر آیا تو ایک کامیاب مدبر اور لائق فرماں روا کی شہرت حاصل کر چکا تھا ، ذاتی عظمت میں وہ اپنے تمام پیش روؤں سے بڑھا ہوا تھا اور فتوحات اور وسعت سلطنت کے لحاظ سے ان سب پر فوقیت لے گیا، اس کے عہد میں سلطنت عثمانیہ اپنی انتہائی حد کمال تک پہنچ گئی ، اس کی خانگی زندگی بالکل بے داغ تھی ، وہ اپنے رحم و کرم کے لیے خاص طور پر مشہور تھا، انصاف اس کا مخصوص شیوہ تھا اور اس کی عدالت میں نسل ، رنگ اور مذہب کی کوئی تفریق نہ تھی، رعایا کی فلاح و بہبود اس کا مطمح نظر تھا، چنانچہ جب وہ تخت نشین ہوا تو تمام رعایا نے اس نوجوان سلطان کا ، جو اپنے اخلاق، شجاعت ، انصاف ، رحم دلی اور دانش مندی کی بنا پر حد درجہ ہر دل عزیز تھا، نہایت مسرت کے ساتھ استقبال کیا ، اپنی حکومت کے پہلے ہی سال میں اس نے انصاف اور رحم دلی کی ایسی مثالیں پیش کیں جس سے اس کے آئندہ طرز عمل سے متعلق نہایت خوش آئند تو قعات قائم کی جانے لگیں، سلطان سلیم نے چھ سو مصریوں کو یہ جبر مصر سے قسطنطنیہ منتقل کر دیا تھا۔ ، ۔
سلیمان نے ان سب کو اپنے وطن واپس جانے کی اجازت دے دی، سلیم نے بعض تاجروں کا سامان تجارت ایران سے تجارت کرنے کی پاداش میں ضبط کر لیا تھا، سلیمان نے نقد روپیہ دے کر ان کے نقصان کی تلافی کر دی، اس کے حکم سے سلطنت کے بعض اعلیٰ حکام بد دیانتی اور ظلم کے جرم میں گرفتار کیے گئے اور ان کو سخت سزائیں دی گئیں، ان واقعات کی خبریں تمام سلطنت میں پہنچیں اور رعایا کو اپنی جان و مال کی طرف سے اطمینان ہو گیا، سلیمان نے تمام صوبہ داروں کے پاس احکام بھیجے کہ رعایا کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی روا نہ رکھی جائے اور امیر و غریب مسلم و غیر مسلم سب کے ساتھ یکساں طور پر انصاف کیا جائے ، ان احکام کے نفاذ سے ہر طرف امن و امان قائم ہوگیا ، البتہ غزالی نے جسے سلطان سلیم نے مصری حکومت سے غداری کے صلہ میں شام کا حاکم بنایا تھا، سرشی کا اظہار کیا اور خود مختار ہو جانا چاہا، سلیمان نے فوراً اس کی سرکوبی کے لیے ایک فوج روانہ کی ، غزالی کو شکست ہوئی اور وہ قتل کر دیا گیا، اس کے قتل سے نہ صرف شام کا فتنہ فرد ہو گیا بلکہ شاہ اسماعیل کے معاندانہ ارادوں کا بھی خاتمہ ہو گیا ، جس نے غزالی کی بغاوت سے فائدہ اُٹھانے کی غرض سے شام کی سرحد پر اپنی فوجیں تیار کر رکھی تھیں ۔
بلغراد کی فتح:.
سلیم کے آخری دور حکومت میں سلطنت عثمانیہ اور سلطنت ہنگری کے درمیان آویزش پیدا ہو گئی تھی اور سرحدی علاقہ میں برابر چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں اس خلش کو ختم کرنے کے لیے سلیمان کو بلغراد اور زباکز (Szabacez) کے سرحدی قلعوں کو فتح کر لینا ضروری ہوگیا، ان قلعوں کی فتح سرحد کے استحکام کے لیے بھی ضروری تھی اور یورپ میں مزید فتوحات حاصل کرنے کے لیے بھی، چنانچہ سلیمان نے ہنگری کے بادشاہ لوئی ثانی کے پاس اپنے سفیر بھیجے اور اس سے خراج کا مطالبہ کیا ، لوئی نے اس مطالبہ کےجواب میں عثمانی سفرا کو قتل کرا دیا، سلیمان کو جب یہ خبر پہنچی تو وہ فوراً ہنگری کی فتح کے لیے روانہ ہو گیا، اس کے فوجی سرداروں نے زبا کز اور دوسرے قلعوں کا محاصرہ کر کے قبضہ کر لیا، اس کے بعد سلیمان خود بلغراد کی طرف بڑھا اور اس شہر کے گرد جس نے محمد فاتح جیسے سلطان کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا تھا، اپنے خیمے نصب کر دیے، سات روز کی گولہ باری کے بعد 25 رمضان المبارک 927ھ بمطابق (29 اگست 1521ء) کو بلغراد فتح ہو گیا ، فتح کے بعد قلعہ کے فوجی دستہ کا قتل عام ہوا اور نہ شہر کے باشندے قتل کیے گئے، سلیمان نے وہاں کے سب سے بڑے گرجا میں نماز ادا کی اور تثلیث کے اس عظیم الشان معبد کو خدائے واحد کی پرستش کے لیے مخصوص کر دیا ، اس کے بعد اس نے بلغراد میں ایک ترکی دستہ متعین کیا اور قلعہ کو از سر نو مضبوط اور مستحکم کر کے قسطنطنیہ واپس ہوا، بلغراد کے علاوہ سرحد کے دوسرے قلعوں پر بھی عثمانیوں نے قبضہ کر لیا اور ہنگری میں داخل ہونے کے تمام دروازے ان کے لیے کھل گئے، سلیمان اب ہنگری کے دارالسلطنت بودا کی طرف بڑھ سکتا تھا لیکن روڈس کی فتح اس کے نزدیک زیادہ ضروری تھی اور بلغراد کے بعد اس نے اس جانب رخ کیا۔بلغراد کی فتح کا ایک اثر یہ ہوا کہ جمہوریہ وینس نے از سر نو اپنے آپ کو سلطنت عثمانیہ کا باج گزار تسلیم کر لیا اور جزائر قبرص (سائپرس) وزاخطہ کا خراج دو چند کر دیا۔
روڈس کی فتح:۔
روڈس کی فتح مختلف وجہ سے ضروری تھی، بلغراد اور روڈس یہی دو معر کے تھے، جن میں سلطان محمد فاتح نے شکست کھائی تھی ، بلغراد کی فتح نے سلطنت عثمانیہ کے دامن سے ایک شکست کا داغ تو دھو دیا، سلیمان کی عالی حوصلگی دوسرے دھبہ کے دھونے کے لیے بھی بے قرار تھی ، علاوہ بریں روڈس کے جہاز بحر روم کے مشرقی حصہ میں اور جمیع الجزائر اور اناطولیہ کے ساحلوں پر لوٹ مار مچائے رہتے تھے، روڈس کی فتح اس وجہ سے بھی ضروری تھی کہ قسطنطنیہ اور شام و مصر کے درمیان جو تعلقات اب قائم ہو گئے تھے ان میں مبارزین روڈس اپنے جہازوں کے ذریعہ رخنہ انداز ہوتے رہتے تھے، ان اسباب کی بنا پر سلیمان نے اس جزیرہ پر قبضہ کرنے کا معم ارادہ کر لیا اور تین سو جہازوں کا عثمانی بیڑا قسطنطنیہ سے روڈس کی جانب روانہ کیا ، ساتھ ہی وہ خود بھی ایک لاکھ فوج لے کر ایشیائے کو چک کے مغربی ساحل کی طرف بڑھا، بحری اور بری فوجوں کے جمع ہونے کی جگہ خلیج مار مریس قرار پائی، جو روڈس کے محاذ میں واقع ہے۔
چناچہ 28 جولائی 1522ء کو سلیمان روڈس کے ساحل پر اترا اور یکم اگست 1522ء کو محاصرہ شروع ہوا، جو تقریباً پانچ مہینہ تک جاری رہا، روڈس کے راہب مبارزوں نے نہایت شجاعت کے ساتھ مدافعت کی لیکن محاصرین کی قوت سے مجبور ہو کر بالآخر انہیں 6 صفر 929 (25 دسمبر 1522ء) کو ہتھیار ڈال دینے پڑے ، سلیمان نے ان کے ساتھ جو مراعات برتیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کی شجاعت کا کسی درجہ قدر دان تھا، اس نے مبارزینی کو اجازت دے دی کہ بارہ روز کے اندر اپنے تمام اسلحوں اور سامانوں کو لے کر اپنے ہی جہازوں پر روڈس سے چلے جائیں اور اگر ضرورت سمجھیں تو عثانی جہازوں کوبھی کام میں لائیں روڈس کے باشندوں کوسلطان کی رعایا بننے کے بعد پوری مذہبی آزادی سے دی گئی ، سلطان نے صراحت کے ساتھ وعدہ کیا کہ ان کے کلیساؤں سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا، ان کے بچے والدین سے چھینے نہ جائیں گے اور پانچ سال تک ان سے کسی قسم کے ٹیکس یا محصول کا مطالبہ نہ ہو گا، سلیمان نے اپنی فوجیں قلعہ سے چند میل کے فاصلہ پر ہٹالیں تا کہ مبارزین امن وسکون کے ساتھ قلعہ سے نکل جائیں لیکن ینی ینی چری با با باد وجود وجود سخت روک تھام کے بے قابو ہو گئے اور شہر میں داخل ہو کر تھوڑی دیر تک لوٹ مار کرتے رہے۔ تاہم تمام شرائط سلیمان کی طرف سے نہایت دیانت داری کے ساتھ پوری کی گئیں ، مبارزین روڈس نے وہاں سے نکلنے کے بعد آٹھ سال تک جزیرہ کریٹ میں قیام کیا اور پھر مستقل طور پر جزیرہ مالٹا میں جا کر آباد ہو گئے ۔
مصر اور ینی چری کی بغاوت:۔
بلغراد اور روڈس کی فتح کے بعد ہنگری، سلی اور اٹلی کے راستے سلیمان کے لیے کھل گئے لیکن مصر کی بغاوت اور ایشیائے کو چک کی شورش کے باعث اسے پہلے مشرق کی جانب متوجہ ہونا پڑا اور یورپین سلطنتوں کو دو سال کی مہلت مل گئی ، احمد پاشا نے جو خیر بے کے انتقال کے بعد 928ھ (1522ء) میں مصر کا حاکم مقرر ہوا تھا، علم بغاوت بلند کیا، اس بغاوت کو فرو کرنے کے لیے سلیمان نے ایک فوج مصر روانہ کی ، احمد پاشا کو شکست ہوئی اور وہ قتل کر دیا گیا ، اس کے بعد سلیمان نے صدر اعظم ابراہیم پاشا کو حکومت مصر کے انتظام و استحکام کے لیے مامور کیا اور خود سلطنت کے داخلی انتظامات کی طرف متوجہ ہوا ۔ 931ھ (1525ء) کے اوائل سرما میں وہ شکار کی غرض سے قسطنطنیہ سے ادر نہ چلا گیا، روڈس کی فتح کو ڈیڑھ سال کی مدت گزر چکی تھی ، اس درمیان میں کوئی دوسری جنگ پیش نہیں آئی تھی ، ینی چری کو امن کا یہ زمانہ نہایت گراں گزر رہا تھا ، چنانچہ سلیمان کی عدم موجودگی میں انہوں نے قسطنطنیہ میں بغاوت برپا کر دی اور وزرا اور دوسرے بڑے بڑے عہدہ داروں کے مکانات لوٹ لیے، یہ خبر سن کر سلیمان اور نہ سے قسطنطنیہ کو لوٹا اور اس شورش کو فرو کرنے کی کوشش کی ، اس نے باغیوں کے بعض سرداروں کو قتل کر دیا، دو کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا اور پھرعام سپاہیوں کو انعام واکرام دے کر بغاوت کا خاتمہ کیا۔
ہنگری کی فتح:۔
وزیر اعظم ابراہیم پاشا اس وقت مصر میں تھا، سلیمان نے اسے واپس بلا لیا اور ہنگری کی مہم کی تیاری شروع کر دی، ینی چری کی بغاوت سے اس کو تجربہ ہو گیا تھا کہ سلطنت کے امن کے لیے اس فوج کو جنگ میں مصروف رکھنا ضروری ہے، بلغراد کی فتح کے بعد سے اگر چہ کوئی بڑی جنگ ہنگری کے ساتھ پیش نہیں آئی تھی ، تاہم چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کا سلسلہ قائم تھا، علاوہ بریں فرانس اول شاہ فرانس نےشہنشاہ چارلس پنجم نے پویا کی جنگ 1525ء میں شکست دے کر قید کر لیا تھا، سلیمان سے ہنگری پر حملہ کرنے کی بہ منت استدعا کی، تا کہ چارلس کو اپنی توجہ فرانس سے ہٹا کر ہنگری کی جانب مبذول کرنی پڑے، جس کی سرحد سلطنت آسٹریا سے ملی ہوئی تھی ، پھر اس زمانہ میں شاہ ایران نے شہنشاہ چارلس اور شاہ ہنگری کے ساتھ سلطنت عثمانیہ کے خلاف ایک جارحانہ اور مدافعانہاتحاد قائم کرنے کی کوشش کی ، ان وجوہ سے سلیمان نے ہنگری پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا، ایک لاکھ فوج اور تین سوتوپوں کے ساتھ روانہ ہوا، قسطنطنیہ سے روانہ ہونے کے پانچ ماہ بعد 20 ذی قعدہ 932ھ (28 اگست 1526ء) کو موباکز کے میدان میں ہنگری کی فوج سے مقابلہ ہوا، عثمانی لشکر کو اپنی کثرت تعداد اور توپ خانوں کی بنا پر بہت کچھ فوقیت حاصل تھی ، دو گھنٹہ سے کم ہی میں جنگ اور ساتھ ہی ہنگری کی قسمت کا بھی فیصلہ ہو گیا، شاہ لوئی، اس کے آٹھ اسقف، اعیان ہنگری کی ایک بڑی تعداد اور چوبیس ہزار سپاہی مارے گئے ، لوئی بھاگتا ہوا دریا میں ڈوب کر جان دے بیٹھا۔30 ذی الحجہ 932ھ (10) ستمبر 1526ء) کو سلیمان ہنگری کے پایہ تخت بودا میں پہنچا، باشندگان شہر نے ہتھیار ڈال کر دروازے کھول دیے، ہنگری کے جو امرا موباکز کی تباہی سے بچ گئے تھے، انہوں نے سلیمان کی خدمت میں حاضر ہو کر اطاعت کا حلف لیا، چونکہ شاہ لوئی لا ولد مر گیا تھا ، اس لیے سلیمان کی تحریک سے ان امرا نے ہنگری کے تخت کے لیے کانٹ زاپولیا ( Count Zapolya) کا انتخاب کیا، جو ٹرانسلو بینیا کا امیر اور ہنگری کے اکابر میں تھا ، اس کے چند دنوں کے بعد سلیمان کو اطلاع ملی کہ ایشیائے کوچک میں کچھ بغاوت کی صورتیں رونما ہو رہی ہیں، چنانچہ وہ فوراً بودا سے قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہو گیا ، ہنگری کے بعض سرحدی قلعوں میں ترکی دستے متعین کر دیے گئے ۔
تبصرہ کریں