تُرک قوم کون تھی،اور انہوں نے کیسے اسلام قبول کیا تھا؟

ترکوں اور عربوں کے تعلقات کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے، جس میں سیاسی، ثقافتی اور مذہبی پہلو شامل ہیں۔ ذیل میں اس تعلق کی تفصیلات تاریخی ترتیب کے ساتھ پیش کی جا رہی ہیں:
ترکوں کی ابتدائی تاریخ اور عربوں سے روابط:۔
ترک قبائل چھٹی صدی عیسوی میں وسطیٰ ایشیاء میں نمودار ہوئے۔ یہ خانہ بدوش قوم منگولیا اور چین کی شمالی سرحد سے لے کر بحیرہ اسود تک پھیلی ہوئی تھی۔ ان کی سلطنت کے بانی بومین (Bumin) تھے، جنہوں نے 552ء میں اقتدار سنبھالا۔ ان کے بعد ان کے بھائی "استامی" (Istami) نے مغربی فتوحات حاصل کیں۔ پہلی صدی ہجری یعنی کہ(ساتویں صدی عیسوی) میں ترکوں کی یہ سلطنتیں چین کی اطاعت میں چلی گئیں، لیکن 63ھ بمطابق682ء میں شمالی ترکوں نے چین سے آزادی حاصل کرلی۔
اسلامی فتوحات اور ترکوں کا اسلام قبول کرنا:۔
پہلی صدی ہجری میں اموی خلیفہ "ولید اول" کے دورِ خلافت میں "قتیبہ بن مسلم" نے بخارا، سمرقند، خوارزم اور کاشغر کے علاقوں کو فتح کیا، جہاں ترک آباد تھے۔ ان فتوحات کے باوجود ترکوں کی بڑی تعداد نے فوری طور پر اسلام قبول نہیں کیا۔ پھرحضرت عمر بن عبدالعزیز (99-101ھ/717-720ء) نے اشاعتِ اسلام کی کوششیں کیں، جس کے نتیجے میں بعض ترک قبائل مسلمان ہوئے۔ بعد ازاں، خلیفہ ہشام بن عبدالملک (105-125ھ/724-743ء) کے دور میں بھی تبلیغِ اسلام کا سلسلہ جاری رہا۔ تاہم، معتصم باللہ (218-227ھ/833-842ء) کے دور تک ترکوں میں اسلام کی اشاعت مکمل طور پر عام نہ ہو سکی۔
عباسی خلافت میں ترکوں کا کردار:۔
عباسی خلیفہ منصور (136-158ھ/754-775ء) نے ترکوں کو فوج میں شامل کرنا شروع کیا، لیکن ان کی تعداد محدود تھی۔ ہارون الرشید کے دور میں عربوں اور ایرانیوں کا اقتدار غالب رہا۔ معتصم باللہ، جن کی والدہ ترک تھیں، نے ترکوں کو فوج میں بڑی تعداد میں شامل کیا اور ان کے لیے سامرا میں نئی چھاؤنی قائم کی۔ ترکوں کی فوج میں شمولیت سے عباسی خلافت میں ان کا اثر و رسوخ بڑھتا گیا، یہاں تک کہ وہ خلیفہ کے عزل و نصب میں بھی کردار ادا کرنے لگے۔
سلجوقی دور اور ترکوں کا عروج:۔
سلجوقی سلطنت 11ویں سے 14ویں صدی تک مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا میں قائم ایک اہم مسلم سلطنت تھی، جو اوغوز ترکوں کے قبیلے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس سلطنت کی بنیاد طغرل بیگ نے 1037ء میں رکھی، جو سلجوق بن یکاک کے پوتے تھے۔ سلجوقی سلطنت نے خلافت عباسیہ کی حمایت کرتے ہوئے عالم اسلام کو متحد کیا اور اس کے زوال کے بعد صلیبی جنگوں کا سامنا کیا۔سلجوقی سلطنت میں ترکوں کا کردار مرکزی اور فیصلہ کن تھا۔ سلطان طغرل بیگ نے 1055ء میں بغداد پر قبضہ کیا اور خلافت عباسیہ کی حمایت کی، جس سے سلطنت کی بنیاد مضبوط ہوئی۔ بعد میں، سلطان الپ ارسلان نے 1071ء میں جنگِ ملازگرد میں بازنطینیوں کو شکست دی، جس سے اناطولیہ میں ترکوں کی موجودگی مستحکم ہوئی۔ سلطان ملک شاہ اول کے دور میں، سلطنت اپنے عروج پر پہنچی، جس کی سرحدیں چین سے لے کر بحیرۂ روم تک پھیل گئیں۔
سلجوقی دور میں ترکوں نے نہ صرف فوجی فتوحات حاصل کیں بلکہ ثقافت، فنِ تعمیر اور تعلیم کے میدان میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ نظام الملک کی زیر قیادت بغداد میں جامعہ نظامیہ قائم کی گئی، جو علم و ادب کا مرکز بنی۔ سلجوقی دور کی فنِ تعمیر میں مسجدوں، مدارس اور کاروانسراوں کی تعمیر نے اسلامی فنِ تعمیر کو نئی جہت دی۔سلجوقی سلطنت کا زوال 12ویں اور 13ویں صدی میں داخلی خلفشار اور منگولوں کی یورشوں کی وجہ سے ہوا۔ تاہم، اس سلطنت کا ورثہ ترکوں کی تاریخ اور ثقافت کا اہم حصہ ہے، جس نے بعد کی ترک سلطنتوں، خاص طور پر عثمانی سلطنت، کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔
سلطنتِ عثمانیہ اور عرب علاقوں پر حکمرانی
1299سلطنت عثمانیہ (1299ء تا 1922ء) میں ترکوں کا کردار مرکزی اور فیصلہ کن تھا۔ اس سلطنت کی بنیاد عثمان اول نے رکھی، جو سلجوقی ترکوں کے ایک اہم رہنما تھے۔ سلطان محمد دوم (فاتح) نے 1453ء میں قسطنطنیہ کی فتح کے ذریعے سلطنت کی سرحدوں کو وسیع کیا اور اسے ایک عالمی طاقت بنا دیا۔ سلطنت عثمانیہ میں ترکوں نے نہ صرف فوجی فتوحات حاصل کیں بلکہ ثقافت، فنِ تعمیر اور انتظامی نظام میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ سلطان سلیمان عالیشان کے دور میں، سلطنت اپنے عروج پر پہنچی، جس کی سرحدیں تین براعظموں پر پھیل گئیں۔ سلطنت عثمانیہ کا زوال 19ویں اور 20ویں صدی میں داخلی خلفشار، یورپی طاقتوں کی مداخلت اور جنگِ عظیم اول کے نتائج کی وجہ سے ہوا۔ 1922ء میں سلطنت کا خاتمہ ہوا اور 1923ء میں مصطفیٰ کمال اتاترک کی قیادت میں ترکی جمہوریہ کا قیام عمل میں آیا۔ سلطنت عثمانیہ میں ترکوں کا کردار تاریخ کے اہم ترین ابواب میں سے ایک ہے، جس نے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ دنیا کی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔سلطنت عثمانیہ کا زوال 19ویں اور 20ویں صدی میں متعدد داخلی اور خارجی عوامل کے باعث ہوا، جن میں عرب بغاوت ایک اہم عنصر تھی۔
عرب بغاوت (1916-1918):۔
پہلی عالمی جنگ کے دوران، شریف مکہ حسین ابن علی نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کا آغاز کیا۔ ان کا مقصد عرب علاقوں میں ایک متحدہ عرب ریاست کا قیام تھا۔ حسین ابن علی نے برطانوی حکومت سے خفیہ معاہدہ کیا، جس کے تحت برطانوی حمایت حاصل کی گئی۔ اس بغاوت کے نتیجے میں حجاز، شام، عراق اور یمن کے علاقوں میں عثمانی حکمرانی کا خاتمہ ہوا۔
سلطنت عثمانیہ کا زوال:۔
عرب بغاوت نے سلطنت عثمانیہ کو داخلی طور پر کمزور کیا، جس کے بعد 1918 میں اتحادی افواج کی فتح اور 1922 میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا سبب بنی۔ اس کے بعد 1923 میں مصطفیٰ کمال اتاترک کی قیادت میں ترکی جمہوریہ کا قیام عمل میں آیا۔ عرب بغاوت نے نہ صرف سلطنت عثمانیہ کی سرحدوں کو سکڑایا بلکہ مشرق وسطیٰ کی سیاسی نقشہ کشی میں بھی اہم کردار ادا کیا، جس کے اثرات آج تک محسوس کیے جاتے ہیں۔
جدید دور میں ترک-عرب تعلقات:۔
سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد، ترکی اور عرب ممالک کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا۔ تاہم، حالیہ برسوں میں ترکی نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں کی ہیں، جن میں اقتصادی معاہدات اور سفارتی روابط شامل ہیں۔ترکوں اور عربوں کے تعلقات کی یہ تاریخ مختلف ادوار میں سیاسی، ثقافتی اور مذہبی تبدیلیوں کی عکاس ہے، جس نے مشرق وسطیٰ کی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
تبصرہ کریں