/ تاریخِ اسلام / خلافتِ عثمانیہ

سلطان محمد فاتح کا سب سے بڑا دشمن ولاد ڈریکولا،جس نے سلطان فاتح کو ناکوں چنے چبوائے۔

ولا چیاکی فتح:۔

اسی زمانہ میں ولا چیا کے مظلوموں کی درد ناک چیخیں قسطنطنیہ جا پہنچیں، جنگ کسووا (1389ء) کے بعد ولا چیا نے سلطنتِ عثمانیہ کی اطاعت قبول کر لی تھی ، سلطان محمد ثانی کے وقت میں اس ریاست کا امیر ولاد چہارم (۷) Vlad) تھا، اس نے سلطان کے خلاف بغاوت کر دی اور عثمانی تاجروں کو جو ولا چیا میں قیام پذیر تھے، سخت اذیتوں کے ساتھ قتل کرا دیا ، اس کا دست عقوبت خود اپنے ملک والوں پر بھی دراز تھا، اس کے مظالم اس قدر بڑھ گئے تھے کہ وہ ڈرا کول (Drakul) یعنی شیطان کے لقب سے مشہور تھا ، اسے لوگوں کو قتل کرنے میں خاصہ لطف آتا تھا اور قتل کے عجیب وغریب طریقے ایجاد کرتارہتاتھا۔ سب سے زیادہ لطف اسے جسم میں میخیں ٹھونک کر قتل کرانے میں آتا تھا، اکثر  کئی سو آدمیوں کو ایک ساتھ اس طریقہ سے قتل کراتا اور ان کی تڑپتی لاشوں سے اس کی شیطانی روح کو ایک خاص لذت حاصل ہوتی تھی، جیویل لکھتا ہے کہ اس کے ہم عصر بھی جن میں سے کسی کا دامن مظالم کے دھبوں سے پاک نہ تھا، اس کی تغذیب کے انوکھے طریقوں سے ہیبت زدہ تھے اور اس کو دلا دی امپیلر (Vlad The Impaler) (یعنی میخیں ٹھنکوا کر قتل کرنے والا ) کہتے تھے۔

غرض جب اس کے مظالم کی فریاد قسطنطنیہ پہنچی تو سلطان ایک زبردست فوج لے کر اس کی تنبیہہ کے لیے روانہ ہوے، لیکن قبل اس کے کہ وہ حملہ آور ہوتے، ولا د نے اس کی خدمت میں ایک وفد بھیجا اور اس کی سیادت قبول کر کے دس ہزار دوکات سالانہ خراج ادا کرنے کا عہد کیا اور یہ درخواست کی کہ سلطان کی جانب سے اس معاہدہ کی از سر نو تصدیق کر دی جائے جو 795ھ (1393ء) میں بایزید یلدرم اور امیر ولا چیا کے درمیان ہوا تھا، محمد نے اسے منظور کیا اور واپس چلا آیا لیکن یہ معاہدہ ولاد کا محض ایک وقتی حیلہ تھا، وہ اس بہانہ سے سلطان کو ٹال کر ہنگری کی مدد حاصل کرنا چاہتا تھا، چنانچہ عثمانی فوجوں کے واپس ہوتے ہی اس نے ہنگری سے اتحاد کر کے پھر اپنی سابق معاندانہ روش اختیار کر لی سلطان محمد فاتح کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو اس نے حالات کی تحقیق کے لیے اپنے نمائندے ولا چیا میں بھیجے، ولا د نے ان نمائندوں کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد اس نے بلغاریا کے علاقوں میں جو دولت علیہ کے ماتحت تھے، لوٹ مار شروع کر دی اور بے حد مظالم کیے، وہ بلغاریا کے پچیس ہزار باشندوں کو بھی پکڑ لایا، یہ سن کر سلطان محمد فاتح نے پھر اس کے پاس پیغام بھیجا کہ اپنے حدود سے متجاوز نہ ہو اور ان قیدیوں کو رہا کر دے۔

ولاد نے اس کے جواب میں سلطانی ایلچیوں کے سروں میں میخیں ٹھنکوا کر انہیں فوراً ہلاک کر دیا، اب سلطان محمد فاتح کے لیے حملہ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، وہ ڈیڑھ لاکھ فوج کے ساتھ اس ظالم کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوا، ولا چیا کے شہر یکے بعد دیگرے فتح ہوتے گئے، یہاں تک کہ پایہ تخت بخارسٹ پر بھی عثمانیوں کا قبضہ ہو گیا۔ لیکن ولا د ہاتھ نہ آیا ، اس نے بھاگ کر شاہ ہنگری کے یہاں پناہ لی سلطان محمد فاتح جب بخارسٹ پہنچا تو اس نے وہاں ان قیدیوں کی لاشیں دیکھیں جن کو ولاد بلغاریا سے پکڑ کر لایا تھا، ان لاشوں کی تعداد 20 ہزار تھی ، ان میں بچے اور عورتیں بھی تھیں، بہر حال محمد فاتح نے ولاد کو معزول کر کے اس کے بھائی را ڈول (Radul) کو جو اس کا معتمد علیہ تھا اور جس کی تربیت بھی سلطان ہی کے زیر نگرانی ہوئی تھی ، ولا چیا کا امیر مقرر کیا اور ولا د نے خون کی جو نہر جاری کر رکھی تھی وہ کسی طرح خشک ہوئی ، ولا چیا پھر سلطنت عثمانیہ کی ایک اطاعت گزار ریاست ہوگئی سلطان محمد نے اسے مکمل طور پر اپنی سلطنت میں ضم کر لینے پر اصرار نہیں کیا بلکہ صرف اطاعت اور خراج پر قناعت کی۔

 

البانیا اور ہرزیگووینا کی فتح:۔

البانیا ابھی تک فتح نہ ہو سکا تھا، اسکندر بک سلطان محمد فاتح کا مقابلہ بھی اسی طرح کرتا رہا جس طرح اس نے مراد ثانی کا کیا تھا۔ سلطان محمد چاہتا تھا کہ اگر اسکندر بک خراج دینا منظور کرلے تو لڑائی ختم کردی جائے مگر اس نے یہ شرط قبول کرنے سے انکار کر دیا ، عثانی فوجیں البانیا پرمکمل قبضہ نہ پاسکیں اور آخر کار 865ھ (1461ء) میں سلطان نے اسکندر بک کو البانیا اور اپائرس کا فرماں رواتسلیم کرلیا ، چھ سال کے بعد اسکندریک کا انتقال ہو گیا ، اب البانیا کی فتح میں کوئی دشواری باقی نہ رہ گئی تھی، محمد فاتح نے آسانی کے ساتھ اسے مسخر کر لیا اور البانیا اور اپائرس کو سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لیا، اس کے بعد ہرزیگووینا کا علاقہ بھی عثمانی مقبوضات میں شامل کر لیا گیا۔

 

وینس :۔

البانیا کی فتح کے بعد اٹلی ترکوں کی زد میں آیا ، جس طرح ہو نیاڈے نے شمال میں عثمانی فوجوں کے بڑھتے ہوئے قدم کو چند دنوں تک روک رکھا تھا، اسی طرح اسکندر بک بھی مغرب میں ان کی راہ روکے ہوئے کھڑا تھا، اس کے مرنے کے بعد ہی اٹلی کا راستہ کھل گیا اور وینس پرحملہ کا مسلہ زیر غور آگیا، جمہوریہ وینس نے فتح قسطنطنیہ کے دوسرے ہی سال سلطان سے منت کر کے صلح کی درخواست کی تھی اور اس صلح نامہ کے ذریعہ محمد فاتح نے تقریباً وہ تمام تجارتی مراعات جو دنیس کو بازنطینی شہنشاہوں کے عہد میں حاصل تھیں، اسے عطا کر دی تھیں لیکن اسکندر بک کی کامیابیوں نے وینس کے اندر بھی دولت عثمانیہ کے مقابلہ کا حوصلہ پیدا کیا اور اس کی نیازمندی جاتی رہی ، ونیس کو اپنی بحری طاقت کا غرور تھا، دوسری طرف سلطنت عثمانیہ کو بھی بلقانی ریاستوں پر کامل اقتدار رکھنے کے لیے بحر ایڈریا ٹک اور بحر ایجین میں اپنے جنگی جہازوں کی تعداد بڑھانی ضروری تھی۔

البانیا کی تسخیر کے بعد بحر ایڈریاٹک کے تمام ساحلی علاقے اس کے قبضہ میں آگئے تھے اور اب و ینس اور سلطنت عثمانیہ کی جنگ ناگزیر ہو گئی تھی، جنگ 868ھ (1463ء) میں شروع ہوئی اور سولہ سال تک جاری رہی، یکے بعد دیگرے دینس کے ساحلی مقبوضات ترکوں کے قبضہ میں آتے گئے، یہاں تک کہ جزیرہ یو بیا (نگرو پونٹ) بھی جمہوریہ کے ہاتھ سے نکل گیا، 882 ھ (1477ء) میں ایک زبردست ترکی فوج فریولی (Friuli) کے علاقہ میں داخل ہوئی جو بحر ایڈریاٹک کی شمالی سرحد پر واقع تھا اور اس پر تسلط قائم کرنے کے بعد دنیس کی طرف بڑھی، دنیس نے مزاحمت کے لیے فوج روانہ کی لیکن عمر پاشا اسے شکست دیتا ہوا آگے بڑھ گیا اور دریائے پیارے (Plave) کے ساحل تک کے تمام زرخیز علاقوں پر قابض ہو گیا ، جمہوریہ کے لیے اب صلح کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا، اگر اب بھی اسے کچھ تامل ہوتا تو اس کے بقیہ مقبوضات بھی نکل جاتے اور خود و ینس کے شہر پر عثمانی علم نصب ہو جاتا، 884ھ (1479ء) میں صلح نامہ پر دستخط ہو گئے، وینس نے سالانہ خراج ادا کرنے کا معاہدہ کیا اور سلطان نے اسے دوبارہ مشرق میں تجارت کرنے کی اجازت دے دی۔

 

روڈس کی ناکام مہم:۔

دنیس کی بحری قوت ٹوٹ چکی تھی۔ لیکن بحر ایجین میں روڈس کا جزیرہ عثمانی جہازوں کی راہ کا کانٹا تھا، اس جزیرہ پر ڈیڑھ سو برس سے یروشلم کے مبارزین سنیٹ جان کی حکومت تھی جو آسانی کے ساتھ عثمانی جہازوں پر چھاپے مارا کرتے تھے، محمد فاتح نے روڈس کی فتح کو ضروری خیال کر کے 885ھ (1480ء) میں مسیح پاشا کو اس مہم پر روانہ کیا، مسیح پاشا نے جزیرہ پر اتر کر متعدد مقامات فتح کیے اور پھر خود شہر روڈس کا محاصرہ کر لیا، عیسائی مدافعت کے لیے پوری طرح تیار تھے اور محاصرہ طول کھینچ گیا، بالآخر 18 ربیع الاول 885 (28 جولائی 1480ء) کو ترکوں نے ایک عام حملہ کیا، یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ عیسائی اپنی انتہائی شجاعت کے باوجود اسے روک نہ سکے اور بعض ترکوں نے دیواروں پر چڑھ کر ہلالی جھنڈا گاڑ دیا لیکن عین اس وقت جب وہ شہر میں داخل ہواچاہتے تھے عثمانی پاشا کی طرف سے یہ اعلان ہوا کہ تمام مال نقیمت سلطان کے حق میں محفوظ سمجھا جائے گا، اس اعلان سے سپاہیوں میں سخت برہمی اور بے زاری پیدا ہوگئی اور جوابھی تک باہر تھے، انہوں نے اپنے ساتھیوں کی مدد کےلیے جو پہلے پہنچ چکے تھے، اندر جانے سے انکار کر دیا عیسائیوں نے عثمانی فوج کی یہ حالت دیکھ کر اپنی پوری قوت کے ساتھ جان توڑ حملہ کیا اوران ترکوں کو جوشہر میں داخل ہو گئے تھے، شکست دے کر باہر نکال دیا مسیح پاشا کواپنی غلطی کا احساس اس وقت ہوا جب کہ اس کی تلافی ممکن نہ رہی، اسے محاصرہ اٹھالینا پڑا اور روڈس کی تسخیر نصف صدی کے لیے ملتوی ہوگئی ۔

 

اوٹر انٹو کی فتح:۔

لیکن جس روز میچ پاشا کو روڈس میں ہزیمت اٹھانی پڑی اسی روز احمد کدک پاشا فاتح کریمیا نے سرزمین اٹلی میں قدم رکھا جہاں اس وقت تک کوئی عثمانی سپاہی نہ پہنچا تھا، اٹلی کی فتح کے لیے اوٹرانٹو پر قبضہ کرنا ضروری تھا کیونکہ یہ شہر اپنے موقع کے لحاظ سے گویا اٹلی کا دروازہ تھا ، احد پاشا نے فوراً خشکی اور سمندر دونوں جانب سے اس پر حملہ کیا ، اہل شہر نے مدافعت میں بڑی سرگرمی دکھائی لیکن وہ صرف چند روز مقابلہ کر سکے اور 4 جمادی الثانی 885ھ (11 اگست 1480ء) کو عثمانی فوج فاتحانہ اوٹرانٹو میں داخل ہو گئی ۔

 

سلطان محمدفاتح کی وفات:۔

اوٹرانٹو جیسے مضبوط شہر اور بندرگاہ پر قابض ہونے کے بعد سلطان محمد فاتح کے لیے اٹلی کی فتح کا راستہ کھل گیا، دوسرے سال وہ کسی جدید مہم کے لیے فوجیں اکٹھا کر رہا تھا اور خیال تھا کہ اوٹر انٹو کے بعد غالباً رومہ پر حملہ کر دیا جائے لیکن دفعتاً 4 ربیع الاول 886 بمطابق 2 مئی 1481ء کو اکیاون سال کی عمر میں اس کا انتقال ہو گیا فاتح کی موت سے یورپ کی جان میں جان آئی ، تجہیز و تکفین اس مشہور مسجد میں ہوئی جسے اس نے قسطنطنیہ میں تعمیر کرایا تھا، وہ پہلا سلطان تھا جو اس نئے دارالسلطنت میں دفن ہوا۔

سلطان محمد ثانی کا عہد حکومت شروع سے آخر تک میدان جنگ میں گزرا، کریمیا، روڈس اور اوٹرانٹو کی مہموں کے علاوہ ہر جنگ میں فوج کی کمان اس کے ہاتھ میں تھی اور بلغراد کے علاوہ کسی معرکہ میں اسے شکست نہیں ہوئی ، فاتح کا لقب اسے قسطنطنیہ کی فتح پر حاصل ہو گیا تھا۔ لیکن اس کی ہر جنگ اس لقب کی تصدیق کرتی ہے، ایک سپہ سالار کی حیثیت سے وہ مراد ثانی پر بھی فوقیت لے گیا تھا، فوجی قابلیت میں کوئی افسر اس کا ہم پلہ نہ تھا، حالانکہ کہ احمد کدک پاشاہ محمود پاشا اور بعض دوسرے عثمانی سپہ سالاروں کا شمار اس وقت دنیا کے بہترین جرنیلوں میں ہوتا تھا، وہ اپنے ارادوں کو بالکل راز میں رکھتا اور اس کے کسی کمانڈ رکو بھی پہلے سے معلوم نہ ہوتا کہ  حملہ کس سمت میں ہونے والا ہے، ایک بار جب کسی مہم کے لیے فوجیں جمع ہونے لگیں اور اس کے خاص افسروں میں سے ایک نے محمد فاتح سے پوچھا کہ دراصل کون سا شہر یا ملک پیش نظر ہے تو اس نے سختی سے جواب دیا کہ

"اگر میری ڈاڑھی کے ایک بال کو بھی اس کی اطلاع ہو جائے تو میں اسے توڑ کر آگ میں ڈال دوں "

 

وہ جنگ کی کامیابی کے لیے راز داری اور سرعت عمل کو ضروری شرطیں خیال کرتا تھا اور اس نے ہمیشہ اسی اصول کی پابندی کی،جب وہ کسی حملہ کا عزم کر لیتا تو اسے پوری تیاری اور انتہائی شدت کے ساتھ انجام تک پہنچاتا، اس وجہ سے عموماً اس کی مہمیں تھوڑے عرصہ میں سر ہو جاتی تھیں، البتہ وینس کے ساتھ لڑائیوں کا جوسلسلہ شروع ہو وہ سولہ برس تک قائم رہا، اس طرح البانیا کی فتح میں بھی کئی برس لگ گئے لیکن یہ استثنائی مثالیں ہیں۔

 

علوم وفنون کی سر پرستی:۔

سلطان محمد فاتح کی عظمت فتوحات کے وسیع دائرہ میں محدود نہ ھی ، اس کی خداداد قابلیت کے جو ہر رزم و بزم دونوں جگہ یکساں طور پر نمایاں تھے، بہترین اساتذہ کے زیرنگرانی اس نے حیرت انگیز سرعت کے ساتھ علوم وفنون کی تحصیل کی تھی، اپنی مادری زبان کے علاوہ عربی، فارسی، عبرانی لاطینی اور یونانی زبان پر بھی قدرت رکھتا تھا، دنیا کی تاریخ اور جغرافیہ سے اسے پوری واقفیت تھی ، وہ ایک بلند پایہ شاعر اور شعر وسخن کا بہت بڑا سر پرست بھی تھا ، اس کے دربار سے تمام عثمانی شعرا کو وظیفے ملتے تھے اور وہ ہر سال گراں قدر تحائف خواجہ جہاں ( ہندوستان ) اور مولانا جامی ( ایران ) کی خدمت میں بھی بھیجا کرتا تھا ۔

اس کی محفلیں علما اور اہل کمال سے معمور رہا کرتی تھیں، اس نے قسطنطنیہ اور سلطنت کے دوسرے شہروں میں نہایت کثرت سے مسجدیں، اسپتال، مکاتب اور مدارس قائم کیے اور ان کے اخراجات کے لیے بڑی بڑی جائیداد یں وقف کیں ، اس کے تعلیمی نظام کا ذکر کسی قدر تفصیل کے ساتھ آگے آتا ہے، اس کی علم دوستی کا اثر اس کے اعلیٰ عہدہ داروں پر بھی پڑا ، چنانچہ محمود پاشانے ، جو شاعر بھی تھا ، کئی مدر سے قائم کیے ، مشرق و مغرب کے نام وروں کے کارنامے اس کے مطالعے میں رہا کرتے تھے، گبن آخری بازنطینی مؤرخ فرانزا (Phranrza) کے حوالہ سے، جو محمد فاتح کا ہم عصر تھا اور فتح قسطنطنیہ میں گرفتار بھی ہو گیا تھا، لکھتا ہے کہ سلطان سکندر اعظم قسطنطین اور تھیوڈوسیس کے سوانح حیات اور کارنامے بڑے انہماک سے پڑھا کرتا تھا، اس کے حکم سے یونانی سوانح نگار پلوٹارک (Plutarch) کی مشہور و معروف تالیف، جو مشاہیر یونان و رومہ کے تذکروں پر مشتمل ہے، ترکی زبان میں ترجمہ کی گئی ۔

 

اخلاق وسیرت:۔

لیکن علم و مذہب کا جو اثر تہذیب نفس پر پڑنا چاہیے تھا، وہ کما حقہ ظاہر نہ ہوا اور محمد فاتح کی بے باک فطرت بعض اخلاقی پابندیوں سے عموماً آزاد رہی ، وہی مغربی مؤرخین جو مراد ثانی کے مکارم اخلاق اور شریفانہ اوصاف کے مداح ہیں اور اس کے عہد حکومت کے ایک واقعہ کو بھی قابل الزام نہیں ٹھہراتے، محمد ثانی کی سنگ دلی، بے اعتمادی اور عیاشی کی داستان بے تکلف بیان کرتے ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ خفیف سے اشتعال پر وہ قتل کا حکم دے دیتا تھا، یہاں تک کہ بڑے بڑے پاشاؤں اور وزیروں کو بھی اپنی جان کی طرف سے کبھی اطمینان نہیں رہتا تھا، چنانچہ اس کے عہد میں دو صدراعظم بغیر کسی سابق تنبیہ یا اطلاع کے اس کے حکم سےدفعناً قتل کر دیے گئے، لین پول کا بیان ہے کہ معاہدوں کے توڑنے میں وہ اہل ہنگری کا حریف تھا، شیویل کہتا ہے کہ اپنے عیسائی ہم عصروں کی طرح محمد فاتح اس مفید اصول کا قائل تھا کہ جو عہد کفار کے ساتھ باندھا جائے اس کی پابندی ضروری نہیں ، دوسرے مغربی مؤرخین نے بھی ایسے ہی خیالات ظاہر کیے ہیں، اور ان کی تائید واقعات سے کی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جن معاصرین سے محمد فاتح کا سابقہ تھا، ان کا طرز عمل اس باب میں کیا تھا ، لارڈ ایور سلے محمد فاتح کی سنگ دلی اور نقص عہد کے متعدد واقعات بیان کرنے کے بعدآخر میں لکھتا ہے:

 

"محمد (فاتح) کے مظالم اور غداریوں پر ایک بلند معیار کے لحاظ سے رائے قائم کرنا شاید قرین انصاف نہیں ہے، اس کے دشمن یعنی ان ملکوں کے فرماں روا جن پر اس نے چڑھائی کی اور جنہیں اس نے فتح کیا ، ان باتوں میں اکثر اس سے کم نہ تھے، اسکندر بک جس کو البانیا کی وطن پرستانہ مدافعت کے صلہ میں اپنے ملک کے اندر ایک ولی کی شہرت اور تاریخ میں ایک بلند مقام حاصل ہوا، جب کبھی اسے موقع ملتا ، حد درجہ سفاک اور انتقام جو ثابت ہوتا ، وہ جنگ کے قیدیوں کو عاد تاً قتل کرا دیتا، اس معاملہ میں موریا کے دونوں حکمران بھی پیچھے نہ تھے، ولا چیا کا فرماں روا جس کا نام ولاد تھا تاریخ کے شدید ترین ظالم اور خونخوار بدمعاشوں میں تھا، وہ امپیلر (Impaler) یعنی جسم میں میخیں ٹھونک کر ہلاک کرنے والا مشہور تھا، اسے ان قیدیوں اور دوسرے مظلوموں کی ، جنہیں وہ اس ظالمانہ طریقے سے قتل کراتا، مرتے وقت کی اذیت اور تڑپ دیکھنے میں خاص لطف آتا تھا ، وہ اس غرض سے اس کی ضیافتوں کی رونق کے لیے محفوظ رکھے جاتے تھے، ایک بار جب کسی مہمان نے اس بات پر تعجب ظاہر کیا کہ وہ ایسی موت سے مرنے والے کے جسم کی بو کیسے برداشت کرتا ہے تو اس نے اس مہمان کو فورا سولی پر چڑ ھوا دیا اور حکم دیا کہ سولی کا کھمبا دوسروں سے زیادہ بلند رکھا جائے تا کہ جس بو کی مہمان نے شکایت کی ہے، اس کی تکلیف اسے نہ پہنچے ۔

اشتعال یا انتقام کے موقع پر محمد ثانی نے جو کچھ بھی کیا ہو تا ہم اس کی فطرت نرم اور لطیف جذبات سے محروم نہ تھی ، قسطنطنیہ کی فتح کے روز اس نے جس رحم دلی اور رقیق القلمی کا ثبوت دیا، اس کی مثال اس کے کسی ہم عصر نے کبھی پیش نہ کی ، ڈیوک نو ٹار اس جو افواج قسطنطنیہ کا سپہ سالار اعظم تھا، جب گرفتار کر کے اس کے سامنے لایا گیا تو محمد فاتح نے اسے نہ صرف معاف کر دیا بلکہ اپنی سر پرستی کا بھی یقین دلایا ، اس نے ڈیوک کے ساتھ یہاں تک نوازش کی کہ اس کی بیوی کی عیادت کے لیے گیا، جو علالت اور تازہ مصیبت کے غم سے پریشان تھی اور نہایت نرمی اور احترام کے ساتھ جس طرح کوئی لڑکا اپنی ماں کو سمجھائے ، اسے تسلی و تشفی دی، ایسی ہی نرمی کا برتاؤ اس نے حکومت کے بڑے بڑے افسروں کے ساتھ بھی کیا اور ان میں سے کئی ایک کا زر فدیہ اس نے خود ادا کیا ، چند ہی دنوں میں اس کے عفو و کرم کا دامن تمام باشندگان شہر تک دراز ہو گیا ۔

مگر جلد ہی یہ دامن خون کے دھبوں سے داغ دار نظر آنے لگا ، نو ٹا ر اس اور اس کے لڑکوں کے قتل کا واقعہ عیسائی مؤرخوں نے محمد فاتح کے نقص عہد ، سنگ دلی اور نفس پرسی کی ایک بین مثال کے طور پر لکھا ہے اور دل کھول کر اسے برا بھلا کہا ہے لیکن گین کی تحقیق نے حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے اور ایک بازنطینی مؤرخ کی حق گوئی سے بہتان کی یہ پوری عمارت جو بغض و عناد کی بنیاد پر قائم تھی مسمار ہوگی ، عیسائی مورخین ڈیوک اور اس کے لڑکوں کو شہادت کا درجہ دیتے ہیں اور قتل کا سبب یہ قرار دیتے ہیں کہ اس نے اپنے روتے کہ نے اپنے لڑکوں کو سلطان کے خلوت عیش میں بھیجنے سے انکار کر دیا تھا لیکن واقعہ یہ تھا کہ  قتل ایک سازش کا نتیجہ تھا جونو ٹار اس قسطنطنیہ کی رہائی کے لیے اٹلی سے کر رہا تھا، گہن لکھتا ہے کہ

ایسی باغیانہ سازش قابل ستائش ہو سکتی ہے لیکن جو باغی دلیرانہ جرات کرتا ہے، وہ اس کی پاداش میں اپنی جان کے حق سے بجا طور پر محروم ہو جاتا ہے اور اگر کوئی فاتح اپنے دشمنوں کو قتل کر دے، جن پر آئندہ وہ اعتبار نہیں کر سکتا تو ہمیں اس کو قابل الزام نہ قرار دینا چاہیے ۔

محمد ثانی ایک مطلق العنان فرماں روا کی طرح حکومت کرنا چاہتا تھا اور کسی وزیر کی مداخلت کو گوارا نہ کرتا ، عثمان سے لے کر مراد ثانی تک تمام سلاطین اپنے وزیروں اور سپہ سالاروں سے مشورہ لیا کرتے تھے اور انہیں شریک دستر خوان بھی کرتے تھے لیکن محمد ثانی نے اس دستور کو اٹھا دیا ، وہ صرف احکام نافذ کرتا اور کسی کومحرم راز نہ بناتا، کھانا بھی وہ تنہا کھایا کرتا۔

 

آئین سلطنت:۔

ایک واضع قانون کی حیثیت سے سلطان محمد ثانی اپنے تمام پیش روؤں سے ممتاز نظر آتا ہے، اور خان کے عہد میں دولت عثمانیہ کے پہلے وزیر علاؤ الدین نے چند فوجی اصلاحات جاری کی تھیں، جن کی تکمیل مراد اول کے زمانہ میں ہوئی لیکن نظام حکومت کے لیے کوئی دستور اس وقت تک مرتب نہ ہوا تھا، محمد ثانی پہلا سلطان ہے جس نے آئین سلطنت کو با ضابطہ طور پر ترتیب دیا، اس کا قانون نامۂ سلطنت عثمانیہ کا بنیادی دستور ہے۔

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

قسطنطنیہ کی فتح

سلطنت عثمانیہ نے  قسطنطنیہ کو فتح کرنے اور بازنطینی سلطنت کو ختم کرنے کے لیے کی بار اس شہر کا محاصرہ کیا۔ لیکن یہ محاصرے صلیبیوں کے حملے،تخت کے لیے خانہ جنگی،بغاوت اور امیر تیمور کے…

مزید پڑھیں
سلطنت عثمانیہ"600سالہ دور حکومت کی لاذوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ جسے دولتِ عثمانیہ اور خلافتِ عثمانیہ کہا جاتا ہے یہ تقریباً سات سو سال تک  قائم رہنے والی  مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت  تھی۔یہ سلطنت 1299ء سے1922 تک قائم رہنے والی مسلمان سلطنت تھی  جس کے حکمران ترک…

مزید پڑھیں
سلطنتِ عثمانیہ کے عروج و زوال کی لازوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ اسلام کی مضبوط ترین اور  عظیم الشان سلطنت تھی۔ترکوں کی یہ عظیم سلطنت جو 600 سالوں سے زیادہ عرصے پر محیط تھی،اس کی سرحدیں یورپ ایشیا اور افریقہ تک پھیلی ہوی تھیں ،یہ خانہ بدوش ایشیا مائنر سے…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں